Home تجزیہ غریب لہروں پہ پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔۔!

غریب لہروں پہ پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔۔!

by قندیل

محمد عباس دھالیوال
گزشتہ دنوں لوک سبھا میں وزیرِخارجہ جنا ب ایم ۔جے ۔اکبر نے جانکاری دیتے ہوئے یہ خلاصہ کیا کہ وجے مالیہ،نیرومودی اور مہیل چوکسی سمیت کل 31کاروباری ملک سے فرار ہیں۔مذکورہ بیان کوشل کشور،رام داس تدس اور سلیم محمد کی طرف سے ملک سے فرار کاروباریوں کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کی روشنی میں سامنے آیا۔
جس طرح سے گزشتہ چند برسوں سے یکے بعد دیگرے ایک کے بعد ایک گھوٹالے باز سخت اصولوں و ضوابط کے باوجود بینکو ں سے بھاری بھرکم قرض لیکر ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو رہے ہیں،اس کے مدِنظر آج عام کھاتہ ہولڈرز کی نظر وں میں بینکنگ نظام کی ٹرانسپریرینسی کو یقینی بنانا ایک بہت جوکھم بھرا کام ثابت ہو رہاہے۔
یہاں قابلِ ذکر ہے کہ ایک غریب اور درمیانہ طبقہ سے وابستہ اکاؤنٹ ہولڈر اپنی مستقبل کی ضروریات کے پیشِ نظر بینک میں اپنی بچت کرنے کی غرض سے اپنا کھاتہ کھلواتا ہے اور پھر اس میں اپنے گاڑھے خون پسینے کی کمائی میں سے بچت کے طورپر وقتاً فوقتاً اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر پیسے جمع کرواتاہے اس طرح ان عام غریب اور مڈل طبقہ کی بچت کے پیسوں سے بہت حد تک بینکوں کے خزانے پرہوتے ہیں اور یہ غریب لوگ اس امید پہ پیسہ جمع کرواتے ہیں کہ جب کوئی ناگہانی بیماری یا ضرورت پیش آئے گی تو وہ اپنا پیسہ نکلواکر اپنا وقت کاٹ لیں گے،لیکن گزشتہ سال سے لاگو ہوئی نئی گائیڈلائین کے چلتے رکھ رکھاؤ کے نام پرایسے کم پونجی والوں کے کھاتوں سے ہرماہ کچھ نہ کچھ رقم کی کٹوتی کی جانے لگی ہے۔جب مذکورہ بچت کھاتوں سے وابستہ کوئی کھاتہ ہولڈر کبھی پیسے جمع کروانے یا نکلوانے کی نیت سے بینک آتا جاتا ہے تو بینک میں جاکر جب اسے یہ معلوم پڑتاہے کہ اس کے کھاتہ میں بقایا رقم کے نام پر صفر ہی بچی ہے تو اس کے دل کو بھاری ٹھیس لگتی ہے۔اوراس دوران دل سے جو آہ فغاں نکلتی ہے اس کو بقول غالب ؔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ملک میں یہ کیسے دن آئے ہیں کہ ایک طرف تو غریبوں کے کھاتوں میں سے رکھ رکھاؤ کے نام پر پیسے کاٹے جارہے ہیں اور دوسری طرف وجے مالیہ نیرو مودی اور مہیل چوکسی جیسے بڑے کاروباری بھاری بھرکم قرض کی رقمیں لیکر اور بینکوں کو دیوالیے پن کی کگار پہنچا کر ،گویاملک کی تمام ایجنسیوں کی آنکھوں میں ایک طرح سے دھول جھونک کر دیش سے فرار ہونے میں کامیاب ہورہے ہیں یہاں ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اگرخدانخواستہ یہاں ایک غریب شخص کو قرض لینے کی ضرورت پڑجائے تو پہلے تو اسے کوئی بینک قرض دینے کے لیے جلد حامی نہیں بھرتا ہاں اگر کوئی بینک قرض دینے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کر بھی دے تو قرض کے متمنی سے اتنی زیادہ فا رمیلٹیز پر کروائی جاتی ہیں کہ وہ بیچارہ ان اصول و ضوابط کو پورا کرنے سے عاجز آکر آخرکا ر اپنے قرض لینے کے فیصلے سے ہی توبہ کر لیتا ہے،شاید ایسے ہی کسی منظر کو پیش کرتے ہوئے وسیم بریلوی صاحب نے کہا ہوگا کہ۔۔
غریب لہروں پہ پہرے بٹھائے جاتے ہیں
سمندروں کی تلاشی کوئی نہیں لیتا۔
لیکن جس طرح سے سونے کی چڑیا سمجھے جانے والے اس ملک کے پیسہ کو آج چند گھوٹالے بازدھوکہ دھی سے باہر کے ممالک میں لیکر فرار ہونے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔ یقیناًاس سے ملک کے تاریخی لٹیروں کی کہانیاں جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں وہ بھی ماند پڑتی نظر آرہی ہیں اوریہ سوال بار بار ذہن پر دستک دیتا ہے کہ اگر ہم اپنے ملک کے سرمائے کو لوٹ لوٹ کر اسی طرح باہر کے ممالک میں فرارہوتے رہے تو ہم میں اور ہمارے ملک کے ودیشی لٹیروں میں آخرکیا فرق رہ جاتاہے۔!!!یہ سوال بار بار ذہن پہ دستک دیتا محسوس ہوتاہے۔۔؟؟؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر مذکورہ بالا پیسہ بڑے بڑے کاروباریوں کو قرض کی شکل میں دینے کی بجائے غریب اور بے روزگار نوجوانون کو چھوٹے موٹے دھندے چلانے کے لیے دیا جاتا تو پتہ نہیں کتنے گھروں کے بجھے ہوئے چولہے جل سکتے تھے ۔اگر یہی پیسہ غریب کسانوں کو دیا جاتا تو شاید بہت سے کسان خود کشی کرنے سے بچ سکتے تھے۔ہاں ۔۔اگر یہی پیسہ قرض کے طورپرپڑھنے والے لائق طلباء کو مذید پڑھائی کے لیے مہیا کروایا جاتا تو کتنے ہی طلباء ادھوری اعلی تعلیم کو مکمل کر اپنا اور اپنے ملک کانام دنیا میں روشن کر سکتے تھے۔اور ہاں اگر یہی پیسہ بیمار سرکاری اسپتالوں کی تیمارداری پر خرچ ہوا ہوتاتو کتنے ہی اسپتالوں کے حالات سدھر سکتے تھے۔جبکہ ایسے میں کتنے ہی بے بس و غریب لوگ اپنا ایسے اسپتالوں سے علاج کروا کر اپنی بیماریوں سے شفاء یاب ہوکر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا اہم یوگدان ڈال سکتے تھے۔اگر یہی پیسہ خستہ حال اسکولوں کی حالت کو بہتر بنانے یا غریب بچوں کے مستقبل کو سجانے سنوارنے پر خرچ ہواہوتا تو اسکولوں سے دور بہت سے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جاسکتا تھا۔
لیکن افسوس کے مادہ پرستی کے اس دور میں ہر آدمی اپنے اغراض و مقاصد سوچنے تک محدود ہے۔کاش کوئی ملک کی فلاح وبہبودکے تعلق سے بھی سوچنے والا ہوتا ،کاش کوئی وطن میں تنگ دستی میں زندگی کے دن کاٹ رہے غریبوں کیدکھ درد کو بانٹ کر اسکے آنسو پونچھنے والا ہوتا ،کاش کوئی ملک میں روز بہ روز آرہی اخلاقیات کی گراوٹ پہ افسوس جتانے والا ہوتا،کاش کوئی ہماری منفی سوچ کو مثبت افکار میں بدلنے والا ہوتا
مالیر کوٹلہ ،پنجاب۔
09855259650
[email protected]

You may also like

Leave a Comment