علما ء کا سیا ست میں قدم رکھنا وقت کی اہم ضرورت
ابواللیث قاسمی
(کروڑی مل کالج(دہلی یونیورسٹی
آج کل عا م طو ر سے سیا ست کا نام سنتے ہی ہما رے ذہن میں یہ با ت گر دش ک نے لگتی ہے کہ سیا ست در اصل بد عنوا نی ،رشوت خو ری ،مکا ری ،وعیاری ،دھو کہ با زی وعیب جو ئی اورچغل خو ری کا نا م ہے سیا ست کے متعلق ہما رے ذہن میں بر ے برے سوا لا ت کھڑے ہو تے ھیں آج کل سیا ست دا ں بمشکل ہی اپنے سیا سی دا من کو دا غ دھبے سے بچا پا تے ہیں ور نہ سب ایک جیسے ہو ہے ہیں لیکن اسکا مطلب نہیں نکلتا کہ سیا ست بد عنوا نی اور فریب دہی ہی کا نام ہے بات در اصل یہ ہے کہ سیا ست صاف شفاف ہے لیکن آج کے سیا ست دا نو ں نے سیاست کو غلط پا لیسیوں کی وجہ سے بد نام کر رکھا ہے
اسلام کی تر جما نی آج اس پیر ائے میں کی جاتی ہے کہ معلو م ہو تا ہے کہ اسلام صرف چند عبادا ت کے مجمو عے کا نام ہے اسلام میں وسعت نہیں ،اسلام تنگدست ہے ،معا شرے میں زند گی گزا ر نے کے لئے کو ئی اصول فر اہم نہیں کرتا ظاہر با ت ہے کہ علما ئے اسلا م ہی جب اس سے اپنی نظر یں چرا نے لگے ہیں تو اس کمزور مسلمانو ں کا کیا ہو گا ،اس دنیا میں اللہ تعا لی کی ایک بڑی نعمت حکومت وسلطنت اور دنیا کی سیا ست ہے ،ایک مدت سے علما ء کی گو شہ نشینی اور صوفیہ کی خا نقا ہ نشینی نے عوام کے دل ودما غ میں یہ بٹھا دیا ہے کہ قیا م سلطنت اور امو ر سلطنت میں دخل اندا زی دنیا کا م ہے جس سے اہل علم اور علمائے کرام کی جما عت کو دور رہنا ہی چائیے لیکن مذہب اسلام اس کا قا ئل نہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے سلطنت وحکمرانی کے سلسلے میں قر آن پا ک میں ارشا د فر ما یا ’’ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃوقنا عذاب النار ‘‘ لیکن اس کے با وجو د بھی علما ئے کرام آج سیا یت سے دور ہیں، جسکی وجہ سے آج ہمارے حقوق ہمیں نہیں مل پا رہے ہیں ،مثال کے طو ر پر ہم ہند وستا ن کی سیاست کا تذکرہ کر تے ہیں جب تک ہما رے علما ء سیاست میں رہے ملک کے غلام ہو نے کے با وحو د بھی ہندو ستانی مسلما نو ں کو پریشا نی کا سامنا نہیں کر نا پڑا اسکی وجہ یہ تھی کہ علما ء ہما رے حقوق کے لئے آواز اٹھا تے تھے آج اگر کوئی عا لم سیا ست میں قدم رکھتا ہے تو سارے ہندوستانی مسلمان اسکے مخالف بن جا تے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ انکو مسجد مدرسہ تک ہی محدود رہنا چا ہئے انہیں سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی اور طرح طرح کی باتیں کر تے ہیں اسکی وجہ میرے نذ دیک یہی ہو سکتی ہے کہ اس کے قصور وار خود ہم ہی ہیں کیونکہ ہم نے سیا ست سے اپنا رشتہ نا تا تو ڑ لیا ہے سیاست سے قدم پیچھے ہٹا تے جا رہے ہیں جسکی وجہ سے عوام النا س ہما رے مخا لف بن تے جا رہے ہیں بعض تو یہ کہ ڈال تے ہیں کہ اسلام کا سیا ست سے قطعی طور پر کو ئی لینا دینا نہیں بھلا علما ء سیا سی مید ان میں کیسے قدم جما پا ئیں گے ۔
ایک سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آیا مو جو دہ دور کے علماء سیا ست میں قدم رکھے یا نہیں کیا علماء کے آنے سے ہندوستانی سیا ست میں کچھ تبدیلی آسکتی ہے اور مسلمانوں کے ملی مسائل حل ہو پا ئیں گے یا نہیں تو یہ بات عام ہے کہ ایک مریض کی بیما ری کو ڈاکٹرہی سمجھ سکتا ہے اور اس کے لئے بہتر علاج ایک ڈاکٹر ہی متعین کر سکتا ہے با لکل اسی طرح آج کے مسلمان ایک بیمار کی حیثیت سے ہیں اور انہیں ایک بہتر معا لج کی ضرورت ہے اور وہ علما ئے کرا م کی جماعت ہے جو بہتر سے بہتر علا ج انکے لئے ڈھو نڈسکتی ہے کیونکہ ملی مسائل کو علما ء سے بہتر کو ئی نہیں جانتا اور علماء ہی ان کے مسائل کو حل بھی کر سکتے ہیں کو ئی سیاسی لیڈر نہیں،کیونکہ مسلمانوں کے مسا ئل کیا ہیں ؟ان پر کس طور سے ایوان حکومت میں آواز اٹھا نی ہے اور کیسے انکے مسا ئل کے تصفیہ میں اسلامی اصول کا خیا ل رکھا جا ئیگا ؟ یہ سب ایسی با تیں ہیں جو علماء کے بغیر مناسب طو رپرممکن نہیں ،مولانا محمدعلی مونگیر ی ؒ نے فر ما یا ’’جو علما ء دنیا سے بالکل ہا تھ دھو بیٹھے ہیں،اور کثرت عبا دت کی وجہ سے اپنی ضرو ریا ت کی طرف بھی توجہ نہیں دیتے ان کو اصحا ب صفہ سے تشبیہ دے سکتے ہیں ،اصحاب صفہ کے مشا بہ ایک گروہ ہمیشہ قوم میں موجو د ہو نا چا ئے لیکن اسکے سا تھ نہایت ضرو ری ہے ایک جما عت کثیر ایسی بھی مو جو د ہو جو وا قفیت واطلاع انتظا م وتد بیر حزم ومصلحت اندیشی میں حضرت عمرؓ ،عمر بن عا ص،ؓ خا لد بن ولید ،ابو عیدہؓ کے نقش قدم پر ہو اس سے یہ بات ظا ہر ہو تی ہے کہ علماء کو سیاست میں آنا چا ہیے ۔ اب ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کتنے علمائے کرام سیاست میں آئیں؟آج کی سیا سی صورت حا ل کے مد نظر یہ کہا جا ئے گا کہ جتنے علما ء دین ’’مریض سیاست ‘‘ کا علاج کرسکیں اتنے کا آنا ضر وری ہے ۔
آپﷺ کی ذات سلطنت واما رت اور شان نبوت کی سنگم تھی آپؐ دو نو ں او صا ف سے متصف تھے آپ نے دو نو ں کا عملی نمونہ بھی پیش کیا ہے تبلیغ وارشا د میں آپ کا ثا نی نہیں اسی طرح آپ ﷺ نے سلطنت و حکمر انی کی بھی وہ مثا لیں پٖیش کیں جنکی نظیر دنیا کے کسی لیڈر کے یہا ں نہیں ملتی ۔لہذا علما ئے کرام کی مو جودہ جما عت کو بھی چا ہیے کہ وہ دو نوں اوصا ف سے متصف ہو ں صرف مذ ہبی رہنما ئی نہیں بلکہ سیا سی رہنما ئی بھی کریں تا کہ ہندو ستا نی مسلمانو ں کا مستقبل تا بناک ہو ۔