ریاض الدین مبارک
کابل سے کچھ ہی فاصلے پر سلسلہ کوہِ ہندوکش کے وادیِ بامیان کی پتھریلی چٹانوں میں تراشے ہوئے گوتم بدھ کے دو مجسموں کو جب ۲۰۰۱ میں طالبان حکومت نے احکام الہی کے منافی اور بت پرستی کی ترویج بتا کر بلڈوز کیا تھا تب انٹرنیشنل میڈیا نے طالبان کے اس اقدام کو اس قدر لتاڑا تھا کہ اسے عدم برداشت کے نظریے تک سے دیکھا اور پرکھا گیا۔ اس وقت بھارت نے اس تصوراتی تخریب کاری کو عہد وسطی کی بربریت کی واپسی سے تعبیر کیا تھا اور تمام انسانی فنکارانہ عظمتوں کی دیکھ بھال کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ بالآخر کچھ ہی سالوں بعد عالمی برادری نے ان مجسموں کی تعمیر نو کی مہم تیز کردی تھی اور تعمیر نو کا کام ۲۰۰۶ میں شروع بھی ہوگیا!
شومئ قسمت دیکھئے کہ آج اسی بھارت میں جو کل تلک اہنسا کا پجاری اور تمام انسانی فنکارانہ شہ پاروں کا محافظ بنا تھا لینن کا ایک نہیں دو دو مجسمہ حکومت کے کارندوں کی ایک جنبش پہ گرا کر زمیں بوس کردیا گیا۔ بھارت کی سرزمین پر اسی تصوراتی تخریب کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لینن کا مجسمہ بلڈوز کردیا گیا اور بھارت ماتا کی جےجے کار بھی ہوئی لیکن کسی کی زبان پر حرف شکایت نہیں آیا اور اگر آیا بھی تو دبے پاؤں آیا جسکی آہٹ نہ سنائی دی اور نہ محسوس کی گئی۔ کسے نہیں معلوم کہ یہ عمل دائیں بازو کی رواں حکومت کی شہ پر انجام پذیر ہوا؟ آخر اس حرکت کو عدم برداشت کے نظریے سے کیوں نہیں پرکھا جارہا؟ ہماری سرکار کیوں نہیں آگے بڑھ کر اقبال جرم کرتی کہ ہاں ہمارے ملک میں بھی عدم برداشت کی فضا موجود ہے! اگر افغانستان میں بدھ کے مجسموں کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھایا جاسکتا ہے تو اپنے ملک میں ایک لینن کا مجسمہ دوبارہ کیوں نہیں تعمیر ہوسکتا؟ لیکن نہیں اب یہاں کی فضا میں گرمی نہیں خنکی آ چکی ہے۔ ماحول مسموم ہوگیا ہے اور انسانی پیکر تراشنے والے فنکار گھٹن محسوس کر رہے ہیں اور زبان قال سے یہ کہتے ہوئے ڈھہے بھی جا رہے ہیں:
اے میرے ہمنشیں چل کہیں اور چل
اِس چمن میں اب اپنا گُزارا نہیں
بات ہوتی گُلوں تک تو سہہ لیتے ہم، اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
عدمِ برداشت کی انتہا
previous post