Home ستاروں کےدرمیاں عالم اسلام کے سب سے بڑے ایوارڈ یافتہ محدث ڈاکٹر محمد مصطفٰی اعظمی

عالم اسلام کے سب سے بڑے ایوارڈ یافتہ محدث ڈاکٹر محمد مصطفٰی اعظمی

by قندیل

اشرف عباس قاسمی
استاددارالعلوم دیوبند
گزشتہ ۲۰/ دسمبر ۲۰۱۷ء ؁ بدھ کی صبح ریاض میں نامور محقق اور محدث ڈاکٹر مصطفی اعظمی بھی داغ مفارقت دے گئے،جو نہ صرف ہمارے ملک ہندوستان کے لیے قابل افتخار تھے؛ بلکہ پورے عالم اسلام کے علمی حلقوں میں ان کو قدر ومنزلت حاصل تھی ، علم حدیث کے حوالے سے انہوں نے کئی منفردکارنامے انجام دئیے ،سب سے پہلے حدیث نبوی شریف کو کمپوٹرائز کرنے کی خدمت آپ ہی کا مقدر بنی،حدیث پاک کے مختلف قیمتی مخطوطات سے دنیا کو روشناس کرایا ،منکرین ومستشرقین کے باطل نظریات اور غلط خیالات کی مدلل اور علمی انداز میں تردید کی ، ان خدمات کے اعتراف میں آپ کوعالم اسلام کے سب سے باوقار انعام ’’ ملک فیصل ایوارڈ ‘‘ سے سرفراز کیا گیا ۔

ان سب کے باوجودڈاکٹرصاحب ہمارے ملک میں زیادہ متعارف نہیں ہیں ،کیونکہ آپ نے زندگی کا بیشتر حصہ دیار عرب میں گزارا اور یکسوئی کے ساتھ علم وفن کی آبیاری میں لگے رہے اور خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے چل بسے ۔
ڈاکٹر مصطفی اعظمی ۱۳۵۰ ؁ھ مطابق ۱۹۳۰؁ء میں یوپی کے شہر مؤ میں پیدا ہوئے ،جو پہلے اعظم گڑھ کا حصہ تھا ،اسی مناسبت سے دنیا آپ کو اعظمی سے جانتی ہے ، آپ ایک متدین اورخوشحال گھرانے کے چشم وچراغ تھے،شروع میں ایک اسکول میں داخل کیے گئے ،یہ وہ دور تھا جس میں آزادی کا نعرہ شعلۂ جوالہ بن چکا تھا ،اوسول نافرمانی اور ر انگریزوں سے مخالفت کی تحریک زوروں پر تھی ،چناں چہ اس کے زیر اثر آپ کے والد صاحب نے آپ کو انگریزی اسکول سے نکال کر دینی تعلیم کی راہ پر لگا دیا ۔اپنے شہر کے مشہور ادارے دارالعلوم مؤ اور اس کے بعد مدرسہ شاہی مرادآباد میں مختلف مراحل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عظیم علمی ودینی دانش گاہ دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا ،اور مجاہد آزادی شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور علامہ ابراہیم بلیاویؒ جیسے اساطین علم سے حدیث پاک پڑھی ،اور ۱۳۷۲ ؁ھ ۱۹۵۲ ؁ء میں امتیازی نمبرات سے دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی ، ایک سال مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بھی قیام رہا ،پھر مصر کا سفر کیا اور ۱۹۵۵؁ء میں جامعہ ازہر سے ایم۔اے کیا ، اس کے بعد برطانیہ کی کمبرج یونی ورسٹی سے ۱۹۶۶؁ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔
جامع ازہر سے فراغت کے بعد قطر کے ایک اسکول میں عربی زبان کے دروس دئیے ،پھر قطر کی پبلک لائبریری کے مدیر مقرر ہوئے،۱۹۶۸ ؁ء میں سعودی عرب کے لیے رخت سفر باندھا اور وہاں مکہ المکرمہ کے شرعیہ کالج( جو بعد میں جامعہ ام القری کے قیام کے بعد اس کا حصہ بنا دیا گیا ) میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے۱۹۷۳ ؁ء تک خدمات انجام دیں ،اس کے بعد ریاض کی ملک سعود یونی ورسٹی میں منتقل ہو گئے ،جہاں آپ حدیث نبوی کے معلم کی حیثیت سے ۱۸ /سال تک خدمات انجام دیتے رہے ، ۱۹۹۱ ؁ء میں اسی یونی ورسٹی سے ریٹائر ہوئے ، ان دونوں یونیورسیٹیوں میں تدریس کے دوران درجنوں باکمال محقق اور مصنف آپ نے تیار کئے ،جن میں دکتور احمد محمد نور سیف اور دکتور عمر حسن عثمان فلاتہ وغیرہ علمی دنیا میں اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں ۔ان کے علاوہ امریکہ کی ہارورڈ یونی ورسٹی اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سمیت مغربی ممالک کی کئی علمی دانش گاہوں نے آپ کو مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مدعو کرکے آپ سے استفادہ کیا ۔
ڈاکٹر مصطفی اعظمیؒ کو حدیث نبوی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے والہانہ لگاؤ تھا جو انہیں اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے ورثہ میں ملا تھا ،انہوں نے پوری زندگی سیرت طیبہ اور حدیث پاک کی خدمت ودفاع میں ہی گزاری ۔مغربی جامعات سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کو اعزاز خیال کیا جاتا ہے ،ڈاکٹر صاحب نے بھی کمبرج جیسی مشہور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی؛ لیکن وہاں بھی آپ کا موضوع حدیث پاک ہی تھا یعنیStudies Early Hadith Literature ،جو عربی میں ’’دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینیہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔واقعہ یہ ہے کہ حدیث پاک کے دفاع کا پاکیزہ جذبہ ہی آپ کو وہاں لے گیا ،چناں چہ آپ نے خود ابن ماجہ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ’’ مغرب کی اس مایۂ ناز یونیورسٹی سے تحقیق کامقصد اپنا اعزاز یا قد بڑھا نا نہیں تھا؛بلکہ میں یہاں صرف اس لیے حاضر ہوا تھا کہ میں اسی ماحول اور اسی جامعہ میں بیٹھ کر سنت مطہرہ اور اس کے دفاع کی خدمت انجام دے سکوں جہاں سے قصر نبوت پر سنگباری کی گئی ہے۔ ‘‘آپ نے اپنے اس تحقیقی مقالے میں مستشرقین اور نام نہاد مغربی محققین کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے اسلامی قانون سازی کے دوسرے ماخذ حدیث پاک کی معتبریت پر اٹھائے گئے سارے شکوک ختم کر دئیے ہیں ، اس کے علاوہ جب مستشرق عالم Schochtنے ’’ اصول الفقہ المحمدی ‘‘ لکھ کر یہ دعوی کیا کہ احکام کی حدیث من گھڑت اور جھوٹی ہے ،اس کا آپ نے انگریزی میں معقول مدلل علمی جواب لکھا اور اس کی غلطیوں کو اجاگر کیا ،صحیح ابن خزیمہ کو بھی اس کے قلمی نسخہ کو سامنے رکھ کر آپ ہی نے پہلی مرتبہ ایڈٹ کرکے آب وتاب کے ساتھ شائع کیا ۔ان کے علاوہ بھی متعدد تحقیقی کتب آپ کے قلم سے منصہ شہود پر آئیں ۔
آپ کا ایک بڑا علمی کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حدیث پاک کو کمپوٹرائز کرنے اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے حدیث کی تسہیل واشاعت کا خاکہ تیار کیا اور اس کے مطابق عملی پیش رفت بھی کی ،ستر کی دہائی میں شکاگو کی ایک کانفرنس میں جہاں مستشرق علما کی ایک بڑی تعداد شریک تھی؛اس منصوبے کا خیال آیا، پھر ۱۹۹۰ ؁ ء میں جدہ میں منعقد ایک عالمی کانفرنس میں آپ نے ’’ علوم شرعیہ میں کمپوٹر کا استعمال ‘‘ کے عنوان پر اس منصوبے پر تفصیلی گفتگو کی ،آپ نے سب سے پہلے حدیث کے مخطوطات کو نص کی تصحیح کے اہتمام کے ساتھ کمپیوٹر میں داخل کیا ،کتب حدیث کے ساتھ رجال ولغت کی کتابوں کو بھی اس میں شامل کیا ،پھر اسے بہ تدریج آگے بڑھاتے رہے،بہ ہر حال عالم اسلام کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا جسے ڈاکٹر مصطفی نے کسی تنظیم یا حکومت کی اعانت کے بغیر اپنے دم اور قوت ارادی کے ذریعے ایک خاص مرحلے تک پہنچایا۔
آپ کی انہی علمی و تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ۱۹۸۰ ؁ء میں آپ کو عالم اسلام کا سب سے بڑا ’’ ملک فیصل ایوارڈ ‘‘ تفویض کیا گیا، خدمت حدیث پر اس ایوارڈ کو پانے والے آپ پہلے شخص تھے ،اس ایوارڈ کے ساتھ جو آپ کو ایک خطیر رقم عطاء کی گئی آپ نے اسے ذاتی استعمال میں لانے کے بجائے غریب باکمال طلباء کے لیے مختص کردیا۔ ۱۹۸۱ ؁ء میں سعودی حکومت نے آپ کو باضابطہ سعودی عرب کی شہریت بھی عطا کی۔
آپ دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل اور اسلاف واکابر کے علوم کے وارث اور ان کی روایات کے امین تھے ،عرب اور مغربی ممالک میں اس درجہ قدر افزائی کے باوجود بھی آپ کو دارالعلوم سے انتساب اور یہاں سے کسب فیض کا احساس رہا ،چناں چہ شاہ فیصل ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد شکریہ کی تقریر میں خصوصیت کے ساتھ آپ نے دارالعلوم دیوبند کا تذکرہ کیا تھا ، کئی سال قبل آپ نے خود یہاں حاضر ہوکر اس کے دروبام کو سلام عقیدت بھی پیش کیاتھا۔شروع میںآپ شیخ ناصرالدین البانی سٖے بھی متاثر رہے لیکن بعد میں جب شیخ البانی کے تناقضات و اوہام سامنے آئے اور اہل علم نے ان کی گرفت کی تو آپ کابھی اعتماد ان سے اٹھ گیا اور صحیح ابن خزیمہ کی اگلی اشاعت میں آپ نے ان کی تحقیقات کو حذف کردیا۔اخیر تک اپنے مسلک اور مشرب پر قائم رہے ، آپ اپنے معتدل مزاج و فکر کی وجہ سے سلفی علماء میں بھی مقبول رہے اور سب نے آپ کی خدما ت سے فیض اٹھایا بلکہ مستشرقین اور مغربی جامعات کے اسکالرز بھی آپ سے استفادے میں پیچھے نہیں رہے ۔
اس طرح آپ کی وفات ہندوستان سمیت دنیا ء حدیث کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے ، دنیا بھر کے اہل علم اور مجالس علمیہ نے آپ کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے ’’ الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین ‘‘ نے (جس کے صدر ڈاکٹر یوسف قرضاوی ہیں) اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر مصطفی اعظمی ہندوستان کے ممتاز مشاہیر میں تھے ان کی وفات کے ساتھ ہی امت نے اپنے ایک مخلص فرزند کو کھو دیا،دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم صاحب نعانی نے بھی آپ کی وفات کو بڑا علمی خسارہ قراردیا ہے ۔ 
خاص خطۂ اعظم گڑھ اور اس کے اطراف کے لیے اس معنی کر بھی یہ بڑا حادثہ ہے کہ صرف سال دو سال کے عرصے میں اس خطۂ شیراز سے تعلق رکھنے والے تین جلیل القدر محدث داغ مفارقت دے گئے ،چناں چہ سال گزشتہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی کا سانحۂ وفات پیش آیا ،اور امسال رمضان کے بعد مظاہر العلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب جونپور ی ؒ چل بسے، اور اب علامہ ڈاکٹر مصطفی اعظمی ؒ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ رحمہم اللہ تعالی رحمۃً واسعۃً ۔

You may also like

Leave a Comment