مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
ملک کے موجودہ حالات اور قانونِ شریعت سے متعلق سازشوں اور خود مسلمانوں کی جہالت و بے شعوری کے پس منظر میں یہ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اس وقت فقہاء اور اربابِ افتاء کو بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ غور اس جذبہ سے ہو کہ دین و شریعت فقہی مسالک سے بڑھ کر ہے ، جو احکام قرآن مجید سے ثابت ہوں ، جو احکام ایسی صحیح و معتبر احادیث سے ثابت ہوں کہ ان سے مختلف مفہوم کی حامل کوئی اورحدیث موجود نہیں ہو ،اور جن مسائل کے بارے میں صحابہ ، ائمہ متبوعین اور سلف صالحین کا اجماع ہو، یہ سب قطعی ہیں ، ان میں کسی تبدیلی کو قبول نہیں کیا جاسکتا ؛ کیوںکہ یہ دین کے حدود اربعہ ہیں ، جیسے تعد ازدواج کی ممانعت کو قبول نہیں کیا جاسکتا کہ یہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے ، طلاق کا حق مرد کو حاصل ہے، اس کے خلاف کوئی بات قابل قبول نہیں ہوسکتی ؛ کیوںکہ خود قرآن مجید سے اس کا ثبوت ہے ، مسلمان اور مشرک مرد و عورت کے درمیان نکاح نہیں ہوسکتا ؛ کیوںکہ اس پر قرآن مجید کی صراحت موجود ہے ۔
اس کے مقابلہ کچھ احکام اجتہادی نوعیت کے ہیں ، خواہ اس لئے کہ قرآن مجید میں جو تعبیر اختیار کی گئی ہے ، اس میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہے ، یا اس لئے کہ اس سلسلہ میں حدیثیں بظاہر متعارض ہیں ، یا ان کے بارے میں صحابہ کے درمیان اختلاف رائے رہا ہے ، یا اس لئے کہ اس میں قیاس کی دو مختلف جہتیں پائی جاتی ہیں ، یہ اجتہادی مسائل ہیں اور کسی مسئلہ کے اجتہادی ( مجتہد فیہ) ہونے کی واضح علامت یہ ہے کہ ائمہ مجتہدین کے درمیان اختلاف رائے پایاجاتاہو۔
چوںکہ ہندوستان دارالکفر ہے ، جس کو فقہاء دارالاسلام کے مقابلہ میں ’’دارالجہل‘‘ کہتے ہیں ،یہاں مسلمان عمومی طورپر احکام شریعت سے نابلد ہیں ،وہ اس موقف میں بھی نہیں ہیں کہ شریعت کے مطابق قانون سازی کراسکیں ؛تاکہ غلط کاروں کوغلطی سے روکاجاسکے،نہ بیت المال ہے،جس سے مطلقہ اوربے سہارابچوں کی ضروریات پوری ہوں،نہ شریعت کے مزاج کے مطابق عدالتی نظام ہے کہ کم وقت اورکم اخراجات میں انصاف حاصل ہو، تو ایسی صورت حال میں علماء کواُمت کے لئے راہ نجات تلاش کرنی چاہئے ، یعنی طلاق کی جن صورتوں میں ایک مسلک فقہی کے مطابق طلاق واقع ہوجاتی ہے ، دوسرے مسلک فقہی کے مطابق طلاق نہیں ہوتی ،اور دونوں کے پاس دلیل شرعی موجود ہے ، ترجیح دینے میں اختلاف واقع ہوا ہے، اور کسی خاص مسئلہ میں اگر دوسرے مسلک فقہی کو قبول کرلیا جائے تو طلاق واقع ہونے کا تناسب کم ہوسکتا ہے ، تو ان صورتوںمیں اس دوسرے نقطۂ نظر کو قبول کرلیا جائے ، یہ دین سے بے دینی کی طرف سفر نہیں ہے ؛ بلکہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حالات کے تحت ایک نقطۂ نظر کے بجائے دوسرے نقطۂ نظر کو اختیار کرنا ہے ؛ تاکہ جزوی طورپر چاہے ہم ایک مسلک سے عارضی طورپر باہر نکل آئیں ؛ لیکن شریعت کے دائرہ سے باہر نہ جائیں اور علماء و فقہاء کا یہ عمل اپنی خواہش نفس کی اتباع اور اپنے مفاد کے لئے نہیں ہوگا ؛ کیوں کہ اس سے خودان کاکوئی مفادمتعلق نہیں ہے؛بلکہ یہ اُمت کے لئے سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ہوگا ، جو اس دین کا مزاج ہے اور جس پر خود رسول اللہ ا کا عمل رہاہے ۔
ہر دور میں فقہاء اپنے زمانہ کے احوال کے لحاظ سے بعض مسائل میں اس طریقہ کو اختیار کرتے رہے ہیں ، احناف کے یہاں بلخ و خوارزم کے علماء کا بہت سے مسائل میں اپنے مسلک کے مشہور نقطۂ نظر سے اختلاف معروف ہے ، خود ہندوستان میں مسلمان خواتین کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے فسخ نکاح کے باب میں متعدد مسائل میں فقہ مالکی کو اختیار کیا ہے ،نیز عورت کے مرتد ہونے کے باوجود نکاح کے ختم نہ ہونے کے سلسلہ میں ظاہر روایت– جس کو مسلک حنفی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے– سے عدول کیا ہے ۔
اس لئے دو نکات پر علماء کو غور کرنا چاہئے ،ایک یہ کہ وہ کیا صورتیں ہیں جن میں احناف کے یہاں طلاق واقع ہوجاتی ہے اور اہل سنت کے چاروں مشہور فقہی مسالک میں سے بعضوں کے یہاں واقع نہیں ہوتی ،تواس میںاجتماعی غوروفکرکرکے اس دوسرے نقطۂ نظر کو اختیار کرلیا جائے — دوسرے: عورتیں اپنے جائز حقوق بھی آسانی سے حاصل نہیں کرپاتیں ، مطلقہ اور بے سہارا عورتوں کا نفقہ جن رشتہ داروں پر واجب ہے ، وہ اس سلسلہ میںاپنے آپ کو ذمہ دار نہیں سمجھتے ؛ بلکہ اپنی ذمہ داری کو تسلیم بھی نہیں کرتے ،یہاں تک کہ بعض دفعہ باپ بھی مطلقہ بیوی کے زیر پرورش اپنے بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری ادانہیں کرنا چاہتا ،ان حالات میں طلاق کے بعد عورت کو شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے کوئی ایسی رقم دلانے کی کوشش کی جائے ، جس سے اس کا گذران ہوسکے ، مثلاً بعض فقہاء کے نزدیک اگر نکاح کے وقت عورت کوئی شرط لگادے، جیسے یہ شرط کہ میرا مہر پچیس ہزار ہے ؛ لیکن اگر شوہر طلاق دیدے تو میرا مہر پانچ لاکھ ہوگا ، یا جیسے بعض فقہاء کے نزدیک ہر مطلقہ کے لئے متاع واجب ہے اور متاع کی کوئی ایک ہی مقدار متعین نہیں ہے،تو دارالقضاء، شرعی پنچایت، مسلم سماج مطلقہ کو ایک مناسب رقم طلاق دینے والے شوہر سے ادا کرائے ؛ تاکہ اس کادوسرا نکاح ہوسکے ، یا وہ اس رقم کی سرمایہ کاری کرکے اپنی زندگی کے گذران کا کوئی نظم کرسکے ، یا مرد پربعض علماء کی رائے کے مطابق مالی جرمانہ عائد کیا جائے ،اور وہ رقم عورت کے حوالہ کردی جائے، اس پر غور کیا جانا چاہئے ، علماء و فقہاء کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ صرف کسی بات کاجائز و ناجائز ہونا بتادیں اور سبک بار ہوجائیں ؛ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اُمت جن مسائل سے دوچار ہے، ان کا حل بھی بتائیں اور ان کے لئے راستہ نکالیں ، فقہاء نے اسی لئے حِیَل کا باب رکھا ہے ؛ تاکہ لوگوں کی مجبوریوں کا حل نکالا جاسکے ، اگرچہ بعض لوگوں نے اس پر تنقید کی ہے ؛ لیکن وہ اس حقیقت کو سامنے نہیں رکھ سکے کہ یہ فقہاء کی ایک مخلصانہ کوشش ہے ، جس کا مقصد حرام کو حلال کرنا نہیں ہے ؛ بلکہ حرام سے باہر آنے کا راستہ نکالنا ہے ۔
(۷) مسلمانوں کو اس بات سے بڑی مایوسی ہوئی کہ لوک سبھامیںبی جے پی نے تو اپنے معلنہ ایجنڈے پر کام کیا ؛ لیکن کانگریس نے اپنے اوپر سیکولرزم کا جو غازہ مل رکھا تھا، وہ بھی پوری طرح دُھل گیا اور کانگریس کا حقیقی چہرہ تمام لوگوں نے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا ، اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ حیدرآباد کے ایک مسلم نمائندہ کے سوا کسی مسلم ممبرپارلیمنٹ کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ وہ کھل کر بل کی مخالفت کرے ؛حالانکہ کانگریس اوردوسری اپوزیشن پارٹیوں نے وہپ جاری کرکے بل کی مخالفت سے روکابھی نہیں تھا، ان حضرات کی خاموشی نے مسلمانوں میں بہت مایوس کیا،بِل پاس ہونے سے زیادہ صدمہ مسلمان نمائندوں کی اس خاموشی سے ہوا،اورغیرمسلموں کویہ کہنے کاموقع مل گیاکہ مسلمان بھی اس بل کے ساتھ ہیں؛ورنہ مسلم ممبران نے لوک سبھامیں اس کی مخالفت کی ہوتی،حیدرآباد کے مسلم رکن پارلیمان سے ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کو سیاسی اختلاف ہو ؛ لیکن اس مسئلہ میں ان کی جرأت ، دینی حمیت ، ملی غیرت اور اپنے مقدمہ کو پیش کرنے کی بہترین صلاحیت کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی ۔
اب ملک میں مسلمان ارکان اسی علاقہ سے منتخب ہوتے ہیں ،جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی ہے اور مسلمان ہونے ہی کی بناپر پارٹیاں انھیں اُمید وار بناتی ہیں ؛لہٰذا مسلمانوں کو اپنے نمائندوں کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے ، اور الیکشن کا موقع آئے تو ان سے عہد لینا چاہئے کہ وہ قانون سازاداروں میں ملت کے وفاداررہ کرکام کریں گے،خاص کرایسی صورت میں کہ آج کل مسلمانوں کوپارٹی کی بنیادپربھی غیرمسلموں کاووٹ نہیں مل پاتاہے؛چنانچہ یہی حضرات اگر غیر مسلم علاقہ سے الیکشن لڑیں تو شاید ان کی ضمانت بھی نہ بچ سکے ،ہمیں دلتوں سے سبق حاصل کرناچاہئے کہ جب اس طبقہ سے مربوط کوئی مسئلہ سامنے آتاہے توتمام دلت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں،چاہے ان کاتعلق کسی بھی پارٹی سے ہو،توکیاہم داعی ٔ امت ہونے کے باوجودان سے بھی گئے گذرے ہوگئے۔
یہ تواللہ کاشکرہے کہ راجیہ سبھامیں میں اپوزیشن نے عقل کے ناخن لئے اورقریب قریب متحدہ طورپراس بل کوردکیا،اللہ کرے کہ یہ بل مکمل طورپرختم ہوجائے،یاایسی تبدیلیوں کے ساتھ پاس ہوجوشریعت سے ہم آہنگ ہو۔
(۸) اس قانون سازی کے موقع پر ایک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ بہت سے لوگوں نے خود اپنی ملی قیادت کو مطعون کرنا شروع کردیا اور تاثر دیا کہ یہ سب بورڈ کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے ، یہ نہایت ہی ناسمجھی کی بات ہے ،حقیقت یہ ہے کہ بورڈنے اس سلسلہ میں اپنی کوشش میں ذرابھی کوتاہی نہیں کی ہے،اس بل کے نقائص خاص کرعورتوں کوپہنچنے والے نقصانات سے متعلق بورڈ کے اجلاس عاملہ لکھنؤمیں ایک جامع اورواضح نوٹ مرتب کیاگیا،اوریہ نوٹ مسلم ممبران پارلیامنٹ اوراپوزیشن لیڈروں نیزوزیراعظم اوروزیرقانون کوبھیجاگیا،ایک مسلم رکن پارلیامنٹ،جوبورڈ کے بھی ممبرہیں ،نے مسلم ممبران پارلیامنٹ سے گفتگوکی،راجیہ سبھامیں اس بل کوروکنے کے لئے صدرمحترم اورجنرل سکریٹری صاحب نے ایک سہ رکنی وفدتشکیل دیا،جوبورڈ کے ایک سکریٹری،ایک ترجمان اورایک خاتون رکن پرمشتمل تھا،اس نے مختلف اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی،بورڈکے ایک اورسکریٹری نے لکھنؤ میں ایک اہم اپوزیشن پارٹی کے ذمہ داروں سے بات کی،خوداس حقیرکی تحریک پر کشمیراورگجرات کے دوبڑے عالم اورفقہ وفتاویٰ کی مرجع ومقبول شخصیتوں نے وہاں موجودایسے اپوزیشن لیڈروں سے گفتگوکی،جواپنی پارٹی میں مؤثرحیثیت کے حامل ہیں،اوراس کامثبت جواب ملا،بورڈ کے بعض ارکان ،آندھراپردیش،تلنگانہ،تامل ناڈواورکلکتہ میں بھی اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی،اس کے نتیجہ میں راجیہ سبھامیں بل پاس نہیں ہوسکا۔
ہمیں یہ بات پیش نظررکھنی چاہئے کہ ہندوستان کی فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھوں میں سب سے زیادہ چبھن بورڈ ہی کے وجودسے ہے،لوک سبھامیں بعض بی جے پی ممبران نے تقریرکرتے ہوئے خاص طورپربورڈ کونشانہ بنایا،اورشریعت کے تمام مخالفین کی تحریروں اورتقریروں میں بورڈ ہی ہدف بنتاہے،اس سے ہمیں حقیقی صورت حال کااندازہ کرناچاہئے کہ شریعت کے مخالفین کس کواپنے راستہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں؟بورڈ صرف ایک ادارہ نہیں ہے؛بلکہ مسلمانوں کی تمام تنظیموں،جماعتوں اورمکاتب فکرکامجموعہ ہے،اوریہ بات ملت اسلامیہ کے لئے لائق صدافتخارہیکہ مخالف قوتیں لاکھ بوکھلائیں؛لیکن وہ بورڈ کے وزن کوتسلیم کرنے پرمجبورہیں؛چنانچہ اس مجوزہ قانون میں بھی بورڈ کاحوالہ دیاگیاہے،اورماضی قریب میں سپریم کورٹ کاجوفیصلہ صادرہواہے،اس میں بھی بورڈ کے حوالہ سے بعض باتیں کہی گئی ہیں،ہمیں یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ خود اپنی قیادت پر بے اعتمادی آپ کے مخالفین کے مقصد کو پورا کرنے میں مددگار ہوجائے گی ، دشمن یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان عوام اور ان کی مخلص و بے لوث قیادت کے درمیان فاصلہ پیدا ہوجائے ؛ تاکہ حکومت کے خلاف بولنے والی کوئی مؤثر زبان باقی نہیں رہے۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حکومت جب آپ کے خلاف قانون بناتی ہے، تو ضروری نہیں کہ اس کا سبب آپ کی طرف سے کیس کو صحیح طورپر پیش نہیں کرپانا ہی ہو ؛ بلکہ حکومت کی بدنیتی بھی اس کا سبب ہوسکتی ہے ،اور اِس وقت قانون سازی کا یہی محرک رہا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کے بارے میں بننے والے قانون کے بارے میں خود مسلمانوں سے تومشورہ کیا گیاہوتا ؛ اس لئے مسلمانوں کو اس نازک موقع پر سمجھداری اور عقلمندی کا ثبوت دینا چاہئے ، ورنہ یہ ایسا ہی ہوگا کہ آپ کے دوست کی ناک پر مکھی بیٹھے اور آپ مکھی بھگانے کے لئے ایسا وار کردیں کہ اپنے دوست ہی کی ناک توڑڈالیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کا حل یہی ہے کہ ہم خود مسلمانوں میں شعور پیدا کریں ، اپنے آپ کو احکام شریعت پر ثابت قدم رکھیں ، نکاح و طلاق سے متعلق سماجی برائیوں کو دُور کرنے کی مؤثر کوشش کریں ، پورے ملک میں کاؤنسلنگ سنٹر کا جال بچھادیں ، مسلمانوں میں مزاج بنائیں کہ وہ اپنے مسائل کو اپنے سماج ہی میں حل کرلیں ، اپنے آپ کو مالی زیر باری سے اور عدالتوں کو مقدمات کے بوجھ سے بچائیں ، نیزایسے واقعات سے ہمت و حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے ، اگر ہم خود شریعت پر عمل کرنے کا تہیہ کرلیں تو کوئی طاقت ہمیں اس سے روک نہیںسکتی ، اس کے ساتھ ساتھ علماء ، خطباء ، اربابِ افتاء ، مساجد کے ذمہ داران اور سیاسی ماہرین کو وہ کردار ادا کرنا چاہئے ،جو موجودہ حالات میں ان سے مطلوب ہیں