ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی
حکومت نے جب سے یہ اعلان کیا ہے وہ پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرنے جارہی ہے جس کے بعد تین طلاق قابل جرم عمل ہوگا جس کی سزا تین سال ہوگی، مسلم حلقوں میں بے چینی ہے جو کہ ایک فطری رد عمل ہے۔ مختلف گوشوں سے اس بل پر سوالات کھڑے کئے جارہے ہیں جن میں ایک مضبوط سوال یہ بھی ہے کہ مرد کو اگر تین سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا تو وہ اپنے بیوی بچوں کے نان ونفقہ کا انتظام کیسے کرے گا جب کہ مجوزہ بل میں اس کو نان ونفقہ کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کے ایک موقر عالم دین نے اس بل کی کھل کر حمایت کی ہے، ان کے مطابق جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تین طلاق دینے والے کو کوڑوں کی سزا دیتے تھے تو اب بھی ایسے شخص کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب سے سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا ہے، تب سے یہ مسئلہ محض شرعی نہیں رہ گیا ہے، اب جب کہ مجوزہ بل قانون بننے جارہا ہے، اس مسئلے کو ہندوستان کے دستور اور قانون کی روشنی میں ہی دیکھنا ہوگا۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کی حالیہ میٹنگ میں، پریس ریلیز کے مطابق یہ طے کیا گیا ہے جب تک قانون کا مطالعہ نہیں کیا جائے گا نہ کوئی احتجاج کیا جائے گا اور نہی کوئی رد عمل۔ بورڈ کا یہ فیصلہ بالکل درست ہے، لیکن بورڈ کے ارباب حل وعقد سے گزارش ہے کہ بل کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی احتجاج کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ اگر حکومت واقعی انصاف پرور ہوتی تو شاید احتجاج پر کان دھرتی، کیا پانچ کروڑ دستخطوں نے حکومت پر کچھ اثر ڈالا؟ وہ تو چاہتی ہی یہ ہے کہ ہم احتجاج کریں اور وہ اپنی پیٹھ تھپتھپاتی رہے۔ البتہ قانون کے خلاف رد عمل قانون کی روشنی میں ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ ماہرین قانون اس تعلق سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیں گے جس کی روشنی میں پرسنل لاء بورڈ اس مجوزہ ایکٹ کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ ذیل میں چند باتیں بورڈ کی توجہ کے لیے ضبط تحریر کی جارہی ہیں:
(۱) ماہرین قانون اس بل پر یہ اعتراض کررہے ہیں کہ تین طلاق ایک سول معاملہ ہے جس کی سزا کرمنل ایکٹ کے تحت نہیں دی جانی چاہیے۔ بورڈ اگر اسی موقف پر، پارلیمنٹ سے بل کے پاس ہونے کے بعد سپریم کورٹ جائے تو ہوسکتا ہے کہ عدالت عالیہ سے کچھ راحت ملے۔ دستور ہند کے آرٹیکل 31 بی کے تحت نویں شیڈول میں آنے والے کسی بھی قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے، 1951 سے حکومتیں اپنے قوانین کو مزید تحفظ دینے کے لیے ان کو نویں شیڈول میں شامل کرتی آئی ہیں۔ اب ان قوانین کی تعداد 284 ہوچکی ہے جن کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ طلاق ثلاثہ کا یہ قانون اول تو نویں شیڈول میں نہیں آنا چاہیے اور اگر آیا بھی دو ہزار سات میں سپریم کورٹ کی نو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اپریل 1973 کے بعد سے کوئی بھی قانون جس کو نویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہو اگر وہ دستور کی دفع 14,19,20,21 کے خلاف ہوگا تو سپریم کورٹ اس کو ختم کرسکتی ہے۔
ان دفعات کے تحت آزادئ اظہار رائے اور یکساں قانونی مسؤولیت جیسے حقوق آتے ہیں، مجھے امید ہے کہ ماہرین قانون اس بات پر غور کریں گے کہ جب سپریم کورٹ کے مطابق تین طلاق نافذ نہیں ہوتیں تو یہ محض چند بے معنی الفاظ کا تحریری یا زبانی اظہار ہوا۔ تو کیا یہ آزادئ اظہار رائے کے تحت قابل جرم ہونا چاہیے؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تین طلاق کی وہی حیثیت ہوئی جو کسی کو گالی دینے کی ہوتی ہے، اگر گالی یا ہتک آمیز گفتگو کسی عوامی جگہ پر کی جائے، تب بھی اس کی سزا آئی پی سی 294 کے تحت زیادہ سے زیادہ تین ماہ جیل ہے۔ ماہرین قانون یقیناًاس پر غور کریں گے، اگر مذکورہ پوائنٹس درست ہیں تو سپریم کورٹ حکومت کے مجوزہ قانون کو مسترد کرنے کی مجاز ہوگی۔
سپریم کورٹ کے سامنے 2006 میں جسٹس ایچ کے سیما اور جسٹس آروی رویندرن کا مشترکہ فیصلہ بھی نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جو فاضل ججوں نے مدراس ہائی کورٹ کے خلاف دیا ہے، فیصلے کے مطابق ’’سول معاملات کو کرمنل بنانے کے رجحانات غلط ہیں، ایسی کسی بھی کوشش کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، یہ نہایت غیر منصفانہ اور سنجیدہ معاملہ ہے‘‘۔
(۲) عورتوں کے حقوق کے تعلق سے ڈومیسٹک وایولینس ایکٹ 2005 موجود ہے، جس کی رو سے عورت جسمانی یا ’’ذہنی‘‘ تشدد کے معاملے میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ وغیرہ کے پاس مرد کے خلاف شکایت درج کراسکتی ہے۔ اس قانون کی رو سے متعلقہ ادارے کی ذمے داری ہوگی کہ وہ عورت کو تحفظ فراہم کرے۔ اگر مرد اس کے باوجود تشدد کرتا ہے تو اب یہ معاملہ کرمنل بن جاتا ہے ورنہ ابتدائی اسٹیج پر یہ سول ہی رہتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 2016 میں اس قانون میں ایک بنیادی تبدیلی کی، عدالت نے قانون میں موجود ’’اڈلٹ میل‘‘ کا لفظ ہٹا کر ایسی عورتوں کو بھی شامل کرلیا جو جسمانی یا ذہنی تشدد میں ملوث ہوسکتی ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ کو جو کہ کورٹ کے مطابق اب بے معنی ہے اگر ذہنی تشدد کے دائرے میں بھی لایا جائے تو اس کے متعلق ایک قانون پہلے سے موجود ہے، لہٰذا نیا قانون بنانے اور طلاق ثلاثہ کو کرمنل لاء کے تحت مجرمانہ عمل بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ بات معقول ہے کہ جسمانی تشدد کو تو ابتدائی درجے میں سول قانون کے تحت رکھا جائے اور طلاق ثلاثہ کو ابتداء ہی کرمنل ایکٹ کے تحت؟
(۳) سپریم کورٹ میں یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے کہ اگر شوہر نے تین طلاقیں زبانی دیں اور کوئی گواہ موجود نہیں ہے تو بیوی کے پاس اس کو ثابت کرنے کا کیا طریقہ ہوگا، پروفیسر فیضان مصطفی کے بقول کیا اس کیس کے لیے قانون شہادت کو بھی بدلا جائے گا؟ کرمنل ایکٹ کے تحت ملزم کو اسی وقت مجرم قرار دیا جائے گا جب کہ اس کے خلاف ناقابل تردید ثبوت ہوں، اگر عورت یہ ثبوت فراہم نہ کرپائی تو مرد تو قانون کے شکنجے سے بچ نکلا لیکن عورت کو نہ تو انصاف ملا اور نہی شوہر، تو اس قانون نے عورتوں کو تحفظ کیسے فراہم کیا؟
مجھے امید ہے کہ بورڈ کے قابل وکلاء پہلے ہی سے کسی مضبوط لائحہ عمل پر کام کررہے ہوں گے۔ اگر عدالتیں قانون کی شارح اور پاسبان ہیں تو اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا اور فتح یاب ہوجانا بہت ممکن ہے۔ ساتھ ہی میں ان موقر شخصیات سے بھی گزارش کروں گا جو مجوزہ بل کی حمایت کررہی ہیں کہ وہ اس قانون کو حکم فاروقی کی روشنی میں نہ دیکھیں، بلکہ دستور ہند کی روشنی میں اس قانون کا تجزیہ کریں۔ اگر وہ تین طلاق دینے والوں کے خلاف سزا کی حمایت کرنا ہی چاہتے ہیں تو وہ سزا سول کوڈ کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ کرمنل کوڈ کے، بصورت دیگر بے شمار مسلمان مرد بلا کسی جرم کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے اور ہندوستان کے سست عدالتی نظام کا شکار ہوچکے ہوں گے۔