یاسر ندیم الواجدی
توقع کے مطابق آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی کی حکومت نے لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل پیش کردیا جو اکثریت سے پاس بھی ہوگیا، غالب گمان یہی ہے کہ راجیہ سبھا میں بھی یہ بل پاس ہوجائے گا۔ اس بل کو متعارف کراتے ہوے وزیر قانون روی شنکر پرساد نے یہ کہا کہ ‘اس قانون سے ہماری مسلم بہنوں کو ظلم سے نجات ملے گی’۔ کیا یہ باعث حیرت نہیں ہے کہ آر ایس ایس کی تاسیس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ معاشرے میں غیر برہمنوں کی طرف سے اٹھنے والی مساوات کی آواز کو دبایا جائے اور خواتین کی تعلیم کی مخالفت کی جائے؟ ایسا نہیں ہے کہ آر ایس ایس کا نظریہ اب بدل چکا ہے، وہ آج بھی اسی "تذکیری تفوق” کے قائل ہیں، لیکن ذرائع ابلاغ، عدالت اور پارلیمنٹ نے جنسی عدم مساوات کا الزام مسلمانوں کے سر لگادیا ہے۔ ہندووادی طاقتوں نے طلاق ثلاثہ کی مخالفت اس لیے کی کہ اس کا تعلق مسلمانوں سے ہے، جب کہ "لبرلز” نے ہندوتوا کا ساتھ اس لیے دیا کہ ذرائع ابلاغ میں مستقل طلاق ثلاثہ کو جنسی مساوات کے خلاف قرار دیا جارہا تھا اور جنسی مساوات لبرلزم کی بنیاد ہے، یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیتے ہوے جنسی مساوات کے اصول کو بنیاد نہیں بنایا تھا، یوں اس معاملے میں ہندوتوا عناصر اور لبرلز ساتھ ساتھ آگئے۔
پارلیمنٹ میں جب سے یہ بل پاس ہوا ہے سوشل میڈیا سے لیکر سڑکوں تک ہندووادی جشن منارہے ہیں، کچھ خواتین کو برقع پہن کر خوشی میں رقص کرتے ہوے بھی دیکھا گیا، یہ ملک گیر جشن اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لڑائی مسلم خواتین کے حقوق کے لیے لڑی ہی نہیں گئی۔ اگر طلاق ثلاثہ ظلم ہے تو یہ ظلم ہندو مردوں پر تو کیا نہیں جاتا، وہ کیوں شاداں وفرحاں ہیں؟ جشن میں شریک مسلمان نظر آنے والی خواتین اگر شادی شدہ ہیں، تو کیا کوئی عورت اس بات پر جشن مناسکتی ہے کہ اب وہ اپنے شوہر کو جیل کی ہوا کھلاسکتی ہے؟ اور اگر یہ عورتیں مطلقہ ہیں تو ان کو تو افسوس ہونا چاہیے، کیوں کہ اس قانون کا ان کو فائدہ حاصل نہیں ہوگا، نیز اگر یہ خواتین غیر شادی شدہ ہیں تو نکاح سے پہلے طلاق نہ ملنے پر جشن کے کیا معنی؟ یہ جشن دراصل ایک نظریاتی جنگ کا دوسرا پڑاؤ ہے۔
1985 میں جب شاہ بانو کیس کا فیصلہ آیا اور مسلمانوں نے ملک گیر تحریک چلاکر راجیو گاندھی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون لاکر کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردے، تو ہندوتوا کے حامیوں نے اس کو اپنی شکست سمجھا، وہ چاہتے تھے کہ شریعت کے کسی ایک حکم کو فرسودہ اور غیر منصفانہ قرار دیدیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ راجیو گاندھی نے بدلے میں انھیں خوش کرنے کے لیے بابری مسجد کے تالے کھلوادیے۔ یہ طاقتیں خاموش تو ہوگئیں، لیکن شاہ بانو کیس میں پارلیمنٹ کے فیصلے کو وہ بھلا نہیں پائیں۔ اسی لیے بی جے پی کے انتخابی منشور میں یکساں سول کوڈ کو شامل کیا گیا اور "ایک قوم ایک قانون” کا نعرہ دیا گیا۔ 28 دسمبر 2017 میں ہندوتوا حامی برہمنوں نے 1985 کی شکست کا بدلہ لیا ہے، وہ آج اپنے آپ کو یہ تسلی دینے میں بظاہر کامیاب ہوگئے ہیں کہ طلاق ثلاثہ ایک فرسودہ نظام ہے، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ شریعت میں بھی طلاق ثلاثہ فرسودہ نظام ہی ہے، انھوں نے ایسی کسی چیز کو غلط ثابت نہیں کیا جس کو شریعت نے اچھا سمجھا ہو۔
جب اتنی بات واضح ہے تو مسلمان شکست خوردگی کے احساس سے نکلیں، وہ اپنی ملی تنظیموں اور خصوصاً مسلم پرسنل لاء بورڈ پر اپنے اعتماد کو مضبوط کریں، ہوسکتا ہے کہ بورڈ کے وکلاء کیس کی بہتر پیروی کرتے لیکن اس غیر انسانی اور غیر دستوری بل کا بورڈ کو ذمے دار قرار دینا بھی ناانصافی ہے۔ بورڈ کی طرف سے آفیشلی یہ مطالبہ کبھی نہیں ہوا کہ طلاق ثلاثہ کو کرمنل ایکٹ کے تحت لایا جائے، اسی طرح طلاق بائن کے تعلق سے نہ بورڈ نے کبھی پیروی کی اور نہی عدالت نے فیصلہ دیا، پارلیمنٹ میں پیش کردہ بل میں طلاق بائن کو بھی قابل جرم مانا ہے، حالانکہ طلاق بائن (جس میں مرد کو رجعت کا حق حاصل نہیں ہوتا اور طلاق کے بعد مرد اور عورت دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں) کے بارے میں بورڈ نے اپنا موقف رکھا ہی نہیں۔
ہمیں اب مسلم پرسنل لاء بورڈ پر بیجا اعتراضات کرنے کے بجائے اس عظیم ملی ادارے کو مضبوط کرنے کی فکر کرنی چاہیے، اب ہماری توجہ اس پر ہو کہ طلاق سے متعلق اس سیاہ قانون کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ ہم نے اس سے پہلے بھی کچھ تجاویز لکھیں تھی، ذیل میں مزید تجاویز دی جارہی ہیں، ہمیں امید ہی نہیں، یقین ہے کہ بورڈ کے فاضل وکلاء اس تعلق سے لائحہ عمل ترتیب دے رہے ہوں گے۔
1- یہ بل اگر راجیہ سبھا میں پاس ہوجاتا ہے تو بورڈ کو سپریم کورٹ ضرور جانا چاہیے اور اس بل کو اس کے تضادات اور اس کے غیر دستوری ہونے کی بنیاد پر چیلنج کرنا چاہیے۔
2- فاضل ججوں کے سامنے یہ بات لانی چاہیے کہ طلاق ثلاثہ کو عدالت نے اس لیے غیر قانونی قرار دیا تھا کہ یہ اسلام میں گناہ ہے، یہ دلیل مغربی قانون جو ہندوستان میں بھی رائج ہے کے بنیادی اصول کے خلاف ہے، مغربی ممالک میں زنا قانونا جرم نہیں ہے لیکن اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائیت اور یہودیت دونوں ہی کے نزدیک گناہ ہے، بلکہ کہیں دور کیوں جائیں، اسی ملک میں شادی شدہ عورت کے غیر مرد سے جنسی تعلقات کو جو کہ قانونا جرم ہے ناقابل جرم قرار دیے جانے کی وکالت کی جارہی ہے اور اس کی بنیاد یہی دلیل ہے کہ یہ تعلقات گناہ تو ہوسکتے ہیں لیکن مذہبی گناہ ایک سیکیولر ملک میں جرم نہیں ہوتا، تو پھر طلاق ثلاثہ کو جو کہ مذہبی گناہ ہے جرم کیسے قرار دیدیا گیا؟
3- عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ خود اس کا فیصلہ اور اس کے بعد سیاہ بل فرد کی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، اگر شوہر نے تین طلاق یا ایک طلاق بائن دیدی اور بیوی اس شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تب بھی وہ مجبور ہوگی کہ اس شخص کے ساتھ رہے کیونکہ قانون اس طلاق کو طلاق نہیں مانتا، کیا یہ individual choice and autonomy کے خلاف نہیں ہے؟
4- عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ دستور کی دفعہ 26 کے مطابق ‘ہر ایک مذہبی فرقے کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے مذہبی امور کا انتظام خود کرے’۔ بورڈ اگر قرآن یا حدیث کے بجائے فقہ حنفی اور فقہ اہل حدیث کی بنیاد پر یہ اپیل کرے کہ حنفی فقہ میں تین طلاق کو تین اور فقہ اہل حدیث میں تین طلاق کو ایک مانا گیا ہے، مسلمانوں کو حق ہے کہ وہ کسی بھی مسلک کی اتباع کرلیں، ایسی صورت میں دونوں فرقوں کے ماننے والوں کو دفعہ 26 کے بموجب اپنے مذہبی معاملات بشمول نکاح وطلاق کا انتظام کرنے کا حق ہے۔ یہ واضح رہے کہ اس حق کو جنسی مساوات کے ساتھ مشروط نہیں مانا گیا ہے۔ اگر ایسا پہلے کر لیا جاتا تو اس بات کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ طلاق ثلاثہ قرآن میں نہیں ہے، چونکہ اس عمل کی بنیاد فقہ ہے اور فرد کو آزادی ہے کہ وہ اس فقہ کو مانے یا نہ مانے۔
5- عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ اگر طلاق ثلاثہ یا طلاق بائن کو غیر قانونی قرار بھی دیدیا جائے تو بھی "ظالم” شوہر بآسانی تین سال کی سزا سے بچ سکتا ہے، عام طور پر طلاق شدید غصے میں دی جاتی ہے اور شدید غصے کو سیکشن 84 کے تحت جنون کی ایک قسم مانا گیا ہے اور جنون کی حالت میں کیا گیا جرم جرم نہیں ہوتا۔
6- سب سے مضبوط بنیاد جس کا پہلے بھی ہم ذکر کرچکے ہیں یہی لگتی ہے کہ طلاق ایک سول معاملے کے ختم کرنے کا نام ہے، اگر کوئی شخص سول کانٹریکٹ غیر قانونی طور پر ختم کرتا ہے تو زیادہ سے زیادہ اس پر سول عدالت میں کیس چلنا چاہیے۔ سول معاملے کو کرمنل قرار دینا خود سپریم کورٹ کے ماضی میں دیے گئے فیصلے کے خلاف ہے۔
7- مسلم پرسنل لاء بورڈ کو شریعت ایپلی کیشن ایکٹ 1937 کا بھی ازسر نو جائزہ لینا چاہیے۔ اس ایکٹ میں اگر کوئی چیز قابل ترمیم ہے تو ازخود اس کا نوٹس لیکر، اس میں تبدیلی کی کوشش کرے۔ اس ایکٹ کی شق نمبر دو میں زرعی زمینوں کو وراثت سے علیحدہ رکھا گیا ہے، کیا زرعی زمینوں میں وراثت کے شرعی احکامات جاری نہیں ہوتے؟ کتنے ہی زمینداروں نے اس استثناء کا فائدہ اٹھاکر بیٹیوں کو زرعی زمینوں میں حصہ نہیں دیا، یہ اور اس سے ملتی جلتی کوئی بھی چیز قابل غور ہے تو بورڈ کے ماہرین شریعت اور ماہرین قانون اس پر ضرور غور کریں۔
وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اگرچہ اپنی تقریر میں کہا ہے کہ حکومت کا مقصد مسلم پرسنل لاء کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا نہیں ہے، لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہدیا کہ فی الحال طلاق ثلاثہ سے متعلق بل پیش کیا جارہا ہے، تعدد ازواج وغیرہ کو بعد میں دیکھا جائے گا۔ گویا مسلم پرسنل لاء کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی لیکن آہستہ آہستہ اس کی شقوں کو غیر قانونی قرار دیا جاتا رہے گا، یوں یہ پرسنل لاء صرف نام کو قانون رہ جائے گا۔ اس لیے مسلمانان ہند کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ طلاق ثلاثہ نہیں ہے، بلکہ ہمارا شرعی اور دینی تشخص ہے، ہمیں اگر اپنے تشخص کے ساتھ اس ملک میں رہنا ہے تو اپنے مسلکی اختلافات کو بھلا کر مسلم پرسنل لاء بورڈ کو مضبوط کرنا ہوگا، تاکہ بورڈ کی قیادت میں ہم اپنے دستوری اور جمہوری حقوق کا دفاع کرسکیں۔
طلاق ثلاثہ بل: نظریاتی جنگ کا دوسرا پڑاؤ
previous post