بلال احمد بانکوی قاسمی
استاذجامعہ رحمانی، مونگیر
اسلام مخالف قوتوں اور حکمرانوں کی طرف سے اسلام کے نظام طلاق کو ختم کرکے یکساں سول کورڈ کے نفاذ کی سازش کو برسہا برس کے تجربے اور دن رات کی جدوجہد سے ٢٨،دسمبر ٢٠١٧ کو ایوان میں بل پیش کر کے کامیابی حاصل ہوئی ، بل کی مخالفت کرنے والے مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ بیرسٹراسدالدین اویسی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایوان باطل میں تن تنہا کھلبلی مچادی، پوری فسطائی طاقت کو للکارا اور ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر نہ صرف بل کی مخالفت کی؛بلکہ شریعت اسلامیہ کی ترجمانی کی اور پورے ہندوستانی مسلمانوں کو بتادیا کہ "الکفر ملة واحدة” کے تحت تمہارے تمام خیر خواہ نفاق و دجل، مکر و فریب کا شکار ہیں، جنکو تم اپنا سمجھ کر تعریف اور پرچار سے نہیں تھکتے وہ تمہارے آستین کے سانپ ہیں، جنکی تم رات دن جوتیاں سیدھی کرتے ہو، جنکے دامن تھامے پھرتے ہو ، وہ اسلام دشمن ہیں،ان سے اسلام کے تئیں نقصان کی امید تو کی جاسکتی ہے؛لیکن کسی فائدے کی توقع نہیں،اسی طرح ممنون ہوں آر جے ڈی پارٹی سے متعلق "بانکا ضلع” بہار، کے ممبر پارلیمنٹ "جے پرکاش نارائن یادو” کا جنہوں نے دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی لڑائی میں حصہ لے کر عوام کا دل جیتا،بل پیش کر تے وقت وزیر قانون "روی شنکرپرساد یادو” نے کہا کہ: "بل آئین کے جذبات کے مطابق ہے، اور کہا کہ عدالت کے فیصلے کے بعد بھی مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک کے پیش نظر ایوان کا خاموش رہنا صحیح نہیں ہے”
سوال یہ ہے کہ اگر یہ آئین کے جذبات کے مطابق ہے تو آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کا مطلب کیا ہے؟
مسلم عورتوں پر ہونے والے سلوک پر خاموش رہنا صحیح نہیں؛بلکہ ہم کہتے ہیں کہ کسی بھی عورت کے ساتھ ہونے والے غلط سلوک پر خاموش نہیں رہنا چاہیے؛ لیکن یہ ہمدردی صرف مسلم عورتوں ہی پر کیوں؟
افراز الاسلام کی بیوی اور بیٹی کیا مسلم خاتون نہیں ہے؟ نجیب کی ماں کیا مسلم خاتون نہیں ہے؟ اس پر کوئی ہمدردی کیوں نہیں ہو رہی ہے،طلاق ثلاثہ ہی پر اتنی ہمدردی کیوں؟
آئے دن عصمت دری، صنف نازک کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے، اس کے تئیں یہ ہمدردی کیوں ظاہر نہیں ہو رہی ہے،ہر مہینے آشرم میں بدکاری کی شرمناک حرکتوں کا انکشاف ہو رہا ہے، انکے لئے کوئی قانون کیوں نہیں؟
آج 99% فیصد مسلم خواتین اس ناقص اور تضادات و اعتراضات کے مجموعے والے بل سے پریشان ہیں، کیا ہمدردی کا لبادہ اوڑھنے والے اسلام دشمن اس پر توجہ مبذول کریں گے؟
ہرگز نہیں کریں گے؛کیوں کہ یہ ہمدردی نہیں،مسلم دشمنی ہے، شریعت اسلامیہ سے نفرت کی بنا پر یہ جلدبازی میں فیصلہ لیا گیا ہے،دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کو سلب کرنا چاہتے ہیں، ان کا مقصد ہے کہ مسلمان شریعت اسلامیہ سے منحرف ہوجائے،مغربی تہذیب میں رنگ جائے، مسلم عورتوں سے طلاق کے ذریعے شوہر کے تئیں رہے سہےلحاظ و احترام کو ختم کر دیا جائےاور پورا معاشرہ زنا و بدکاری میں مبتلا ہوکر شوہر کو ایک اے ٹی ایم کارڈ کے طور پر استعمال کیا جائے ـ
یاد رہے اگر موجودہ بل نافذ ہوتا ہے ،توہماری سماجی زندگی بے شمار الجھنوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو کر رہ جائے گی، کیونکہ نکاح میں رہنا یہ آپسی تعلقات پیار و محبت سے ہوتا ہے، لیکن کبھی ناخوشگوار حالات ہی کے وقت طلاق کا سہارا لے کر چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہےـ
ان ناخوشگوار حالات میں اگر زیادتی شوہر کی جانب سے ہوتی ہے تو عورت بھی کوئی کم نہیں ہے، خواہ زیادتی کسی کی جانب سے ہو،اب اگر قانون زبردستی تعلقات قائم رکھنے پر زور دے گا ، تو شوہر حق زوجیت کو ادا کرے گا نا شوہر ڈر کی وجہ سے طلاق دے گا جس کے نتیجے میں عورت کی زندگی زمانہ جاہلیت سے بھی ابتر اور بد تر ہوجائے گی اور مردوں سے زیادہ عورتوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ جائے گی، اب دو ہی صورت ہے یاتو عورت مجبوراً خلع لے کر چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرے گی یا مغربی دنیا کی طرح شوہر نام کا اور رہے گا اور بے شمار بغیر نام کے دوسرے شوہر ہونگے، اور مرد بھی اس طرح کی دوسری لڑکی سے اپنا تعلق جوڑے گا جس سے لازمی طور پر رفتہ رفتہ پورے ہندوستان مغربی تہذیب کا گہوارہ بن جائے گا، ہماری ہی بیوی ہمارے سامنے دوسروں کے ساتھ ملوث ملے گی اورایک لڑکی کا شوہر اسی کے سامنے دوسری لڑکی سے ضرورت کی تکمیل کرتا نظر آئے گا، جیسا کہ آج مغربی دنیا میں اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے،اسلئے ضرورت ہے کہ حکومت وقت سے اس بل کو نامنظور کرانے کی حتی الوسع کوشش کی جائے، ٢،جنوری کو ابھی راجیہ سبھا میں پیش کرنا باقی ہے، ہمیں جگہ جگہ احتجاج درج کرا کے اس بل کو ناکام بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ،اس کے باوجود اگر ہماری بات پرحکومت کان نہ دھرے تو ہندوستان کے ہر ضلع میں امارت شرعیہ کے تحت دارالقضا کا جال بچھا یا جائے اور محکمہ لگایا جائے اور تمام مسلمان پرسنل امور میں ہندوستانی عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے اپنے مقدمات کو وہاں سے حل کرانے کی کوشش کرے، اور تمام مسلمانوں کو ایسے امور میں جنمیں فریقین مسلمان ہوں اور وہ امور پرسنل لاء سے تعلق رکھتےہوں دارالقضا کا سہارا لینے پر ابھارا جائے، اگر کوئی مسلم انکار کرتا ہے تو اس کا سماجی مقاطعہ کیا جائے، تاکہ موجودہ حکومت کو اپنی حیثیت یاد آجائے، اگر ایسا ہوتا ہے یعنی ہم عدالت نہ پہنچ کر دارالقضا سے معاملہ حل کرتے ہیں تو ہم ان کی دیرینہ سازش کو ناکام بنانے میں ایک حد تک کامیاب تصور کئے جائیں گے،اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کی راہ ہموار کرے اور دشمنوں کی سازشوں سے ہماری حفاظت فرمائے، آمین