Home تجزیہ صلیبی جنگیں اسباب ونتائج

صلیبی جنگیں اسباب ونتائج

by قندیل


(آخری قسط)
صلاح الدین ایوبی
دوسری صلیبی جنگ: (۱۱۴۷ تا ۱۱۵۹)
عیسائیوں کی شکستوں کی خبریں پورے یورپ میں پہنچیں تو ایک بار پھرپوپ یوجین سوم نے دوسری صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اس طرح دوسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا ۔جرمنی کے بادشاہ کونراڈ سوم اور فرانس کے حکمراں لونی ہفتم کی قیادت میں کئی لاکھ افراد پر مشتمل فوج مسلمانوں کے مقابلے کے لیے یورپ سے روانہ ہوئی (6)اس میں عورتیں بھی شامل تھیں پہلے صلیبی معرکوں کی طرح ان فوجیوں نے بھی خوب اخلاق سوز حرکتیں کیں، لونی ہفتم کی فوج کا ایک بڑا حصہ سلجوقیوں کے ہاتھوں تباہ ہوا چنانچہ جب وہ انطاکیہ پہنچا تو اس کی تین چوتھائی فوج برباد ہو چکی تھی ، باقی ماندہ فوج نے آگے بڑھ کر محاصرہ کر لیا لیکن سیف الدین زنگی اور نورالدین زنگی کی مشترکہ مساعی سے صلیبی اپنے عزائم میں ناکام رہے ، لوئی ہفتم اور کونراڈ کو دوبارہ یورپ کی سرحدوں میں ڈھکیل دیا گیااس طرح دوسری صلیبی جنگ ناکام ہوئی۔
مصر پر صلاح الدین ایوبی کا قبضہ:
اس دوران حالات نے پلٹا کھایا اور تاریخ اسلام میں ایک ایسی شخصیت نمودار ہوئی جس کے سرفروشانہ کارنامے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس عمل ہیں ، یہ عظیم شخصیت صلاح الدین ایوبی کی تھی ۔ مصر کے فاطمی خلیفہ فائز باللہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ عیسائیوں کے طوفان کو روک سکتا اس کے وزیر شاور سعدی نے صلیبیوں کے خطرہ کا اندازہ کرتے ہوئے نور الدین زنگی کو مصر پر حملہ کی دعوت دی نور الدین نے اپنے بھائیاسد الدین شیر کوہ کو اس مہم پر مامور کیا ،صلاح الدین ایوبی بھی اس مہم میں شیر کوہ کا ہمرکاب تھا ،شیرکوہ کی وفات کے بعد صلاح الدین ایوبی نےاس کی جگہ لی ۔
مصر کا خود مختار حکمراں بننے کے بعد صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے خلاف جہاد کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا ،مگر ملت اسلامیہ کی شومی قسمت یہ تھی کہ اسلام کے اس سرفروش غازی اور مجاہد کو صلیبیوں کے خلاف جہاد میں مسلم حکمرانوں کی طرف سےمدد اور تعاون کے بجائے مخالفتوں اور سازشوں کا ہی سامنا کرنا پڑا۔موصل کا والی سیف الدین غازی اور دمشق کے امرا نے صلیبیوں سے مل کر اس کے خلاف سازش کی لیکن اس کی ہوشمندی اور بیدار مغزی کام آئی اس نے بڑھ کر دمشق ، حمص،حماۃ اور بعلبک پر قبضہ کر لیا اور سیف الدین کو شکست دے کر بزاعہ اور غراز وغیرہ پربھی قبضہ کر لیا ، خود مصر میں بھی اس کے خلاف سازش جاری تھی، باطنیوں نے اس پر قاتلانہ حملے کیے ، سیف الدین کے جا نشین عز الدین اور اس کے چچا زاد بھائی عماد الدین نے اپنی مخالفت جاری رکھی ،شام کے چھوٹے چھوٹے مسلم حکمران بھی اس کے مخالف رہے مگر صلاح الدین نے اس کا مقابلہ کامیابی سے کیا ، بخارا اور حلب جیسے علاقے پر بھی قابض ہو گیا۔(7)
مصر کے علاوہ صلاح الدین نے اب تک شام ،موصلاور حلب وغیرہ کے علاقے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کرلیے ، اس دوران صلیبی سردار ریجنالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے، لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔
۱۱۸۶ میں عیسائیوں کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر عیسائی امرا کے ساتھ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز کی جانب رخ کیا ، صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً ریجنالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے اسے حطین میں جالیا، سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی ، چنانچہ اس آتشی ماحول میں ۱۱۸۷ کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوفناک ترین جنگ کا آغاز ہوا اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے ، ریجنالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا ، اس جنگ کے بعد اسلامی فوجیں عیسائی علاقوں پر چھاگئیں ۔
بیت المقدس کی فتح (۱۱۸۷)
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے ۹۱ سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا ۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا ۔
صلیبیوں کے ساتھ رواداری:
صلیبیوں کے بر عکس سلطان نے عیسائیوں کے ساتھ انتہائی فراخدلانہ اور روادارانہ برتاؤ کیا جس کی تعریف تمام یورپین مؤرخین نے کی ہے ، گبن لکھتا ہے کہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ اس ترک فاتح کی رحمدلی کی تعریف کی جائے اس نے مفتوحوں کو کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلہ ہونے نہیں دیا وہ ان سے بھاری رقمیں وصول کر سکتا تھا لیکن تیس ہزار کی رقم لے کر اس نے ستر ہزار قیدیوں کو آزاد کیا ، دو تین ہزار کو تو اس نے رحم کھا کر یوں ہی چھوڑ دیا ، جب یروشلم کی ملکہ اس کے سامنے آئی تو اس نے اس سے نہ صرف انتہائی مہربانی سے باتیں کیں بلکہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے جنگ کے یتیموں اور بیواؤں میں خیرات تقسیم کی ، جنگ کے زخمیوں کے علاج اور دیکھ بھال کےلیے ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں ، وہ قرآن کے دشمنوں کے ساتھ ہر طرح کی سختی سے پیش آنے میں حق بجانب تھا ، مگر اس نے جس فیاضانہ رحمدلی کا ثبوت دیا اس سے وہ نہ صرف تعریف و تحسین بلکہ محبت کیے جانے کا مستحق ہے۔
لین پول یہ بھی لکھتا ہے کہ بعض وقت ایسے غربا بھی آتے جو زر فدیہ ادا نہ کر سکتے تھے مسلمان سپاہی اور تاجر عیسائیوں کا مال اور اسباب خریدتے تھے تاکہ عیسائیوں کے پاس اتنا سرمایہ ہو جائے کہ وہ اپنی آزادی خرید سکے مسلمان فوجی سردار بھی اس طرح کے نیک کام کرتے رہے ، اس کے بر عکس عیسائی مذہبی طبقہ کا حال یہ تھا کہ تقدس مآب بطریق یروشلم اخلاق و ایمان دونوں سے عاری تھا اس نے گرجا ؤں کی دولت سمیٹی ، سونے کے پیالے اور آب مطہر رکھنے کا سامان حتی کہ مہدی مسیح پر جو طلائی ظروف رکھے تھے اپنے قبضے میں کیے اس کے ساتھ اپنا ذاتی اندوختہ بھی بہت تھا سب کو محفوظ کیا ، یہ جمع کی ہوئی دولت اتنی تھی کہ اگر چاہتا تو بہت سے غریب عیسائیوں کا زر فدیہ دے کر آزاد کرادیتا ، جب مسلمان امرا نے سلطان سے کہا کہ اس بے ایمان اور نالائق پادری کو لوٹ کا اتنا مال لے جانے سے روکا جائے تو سلطان صلاح الدین نے جواب دیا کہ میں جو قول دے چکا ہوں اس سے پھر نہین سکتا ، لین پول نے یہ بھی لکھا کہ صلاح الدین کے بھائی العادل نے ایک ہزار غلام صلاح الدین سے مانگ کر آزاد کیے ، پھر صلاح الدین نے خود شہر میں یہ منادی کرائی کہ تمام بوڑھے جن کے پاس زر فدیہ ادا کرنے کو نہیں ،آزاد کیے جاتے ہیں کہ جہاں چاہیں وہ جائیں ،جن عیسائی عورتوں کے شوہر مر چکے تھے انہیں صلاح الدین نے بلا کران کے مرتبہ اور درجہ کے لحاظ سے کثیر روپے عطا کیے۔یہ عورتیں جہاں گئیں اس عزت اور فیاضی کا چرچہ کیا ۔
تیسری صلیبی جنگ: (۱۱۸۹ تا ۱۱۹۲)
بیت المقدس کی فتح صلیبیوں کے لیےپیغام اجل سے کم نہ تھی ، اس فتح کی خبر سے سارے یورپ میں تہلکہ مچ گیا ، اور پھرپورے یورپ میں غیض و غضب کی لہر دوڑ گئی ، شاہ جرمنی فریڈرک، شاہ فرانس فلپ دوم،شاہ انگلستان رچرڈ شیر دل ، صقلیہ آسٹریلیا اور پرگنڈی وغیرہ کے آہن پوش فوجی سردار شام کی طرف امنڈ پڑے ۔ (8)ثروت صولت کے مطابق یہ جنگ ۱۱۸۹ سے ۱۱۹۲ تک جاری رہی (9) لیکن صباح الدین عبد الرحمن نے تیسری صلیبی جنگ کی مدت پانچ سال لکھی ہے ۔ (10) بہر حال اس جنگ کے لیے پادریوں اور راہبوں نے قریہ قریہ گھوم کر عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا ، عیسائیوں نے اس قدر لا تعداد فوج اب تک کسی اور جنگ میں جمع نہیں کیا تھا جتنی اس جنگ میں تھی ، یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا ، اگر چہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا اس شہر کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی اس لیے صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا ، مسلم حکمرانوں میں سے کسی نے سلطان کی مدد نہ کی ، مسلسل ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمسنوں کو کم ک نہ پہنچا سکا تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوں کے حوالہ کردینے پر آمادگی ظاہر کی ، فرریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا جس کے مطابق مسلمسنوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور پانچ سو عیسائی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے، مسلمانوں کو اجازت دیدی گئی کہ وہ تمام مال و اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں ، لیکن رچرڈ بد عہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا ۔
عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسکلان کا رخ کیا عسکلان پہنچنے تک عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا ، سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا ، سلطان نے جوانمردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں ، لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت با لخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنی پڑی ، واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا ، اسدوران سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیوں کہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس عظیم الشان لشکر کا بڑی جرأت اور بہادری سے مقابلہ کیا جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی ، فریقین میں معاہدہ صلح ہوا جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا ۔
اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے،رچرڈ شیر دل سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا ، جرمنی کا بادشاہ بھاگتا ہوا دریا میں ڈوب کر مر گیا اور بے شمار عیسائی اس جنگ میں مارے گئے۔
چوتھی صلیبی جنگ:(۱۲۰۲ تا ۱۲۰۴)
اس جنگ میں یورپ کے صلیبی مجاہد آپس میں لڑ پڑے یورپ کے شہروں میں قتل و غارت کی اور بیت المقدس کی بجائے یورپ کے مسیحی شہر قسطنطنیہ کو فتح کیا ۔
پانچویں صلیبی جنگ (۱۲۱۸ تا ۱۲۲۱ )
اس جنگ کے دوران یورپ صلیبی لشکر نے مصر پر حملہ کیا ، ملک کامل ایوبی نے شکست دی ۔
چھٹی صلیبی جنگ: (۱۲۲۸ تا ۱۲۲۹ )
جرمنی کا شہنشاہ فریڈرک دوم اس مہم کا قائد تھا ، جنگ نہیں ہوئی اور ملک کامل نے باہمی تصفیہ کے ذریعہ بیت المقدس عیسائیوں کے سپرد کر دیا ، لیکن کامل کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس دوبارہ واپس لے لیا ۔
ساتویں صلیبی جنگ (۱۲۴۸ تا ۱۲۴۹ )
اس کا قائد فرانس کا لوئی نہم تھا ، مصر پر حملہ کیا گیا ملک الصالح نے مقابلہ کیا ،شہنشاہ لوئی گرفتار ہو گیا ، بعد میں فدیہ دیکر رہا ہوا ۔
آٹھویں صلیبی جنگ:(۱۲۷۰ تا ۱۲۷۱ )
لوئی نہم نے رہائی کے بعد پھر ایک کوشش کی اس مرتبہ انگلستان کا شاہ ایڈورڈ بھی شامل تھا ، جولائی ۱۲۷۰ میں تیس ہزار پیدل اور چھ ہزار سوار لے کر روانہ ہوا ، تیونس کی طرف اس امید موہوم کے ساتھ بڑھا کہ وہاں کے حاکم کو عیسائی بنائے ، مگر اس شہر کے محاصرہ میں طاعون کے مرض سے مر گیا اور اس کی فوج بھی اس وبا کی نذر ہو گئی ۔(11)
بچوں کی صلیبی جنگ:(۱۲۱۲ )
ان لڑائیوں کے علاوہ ایک اور جنگ قابل ذکر ہے جو بچوں کی صلیبی جنگ کہلاتی ہے یورپ والوں کا خیال تھا کہ بڑے لوگ طوں کہ گناہوں کے کام کرتے ہیں اس لیے اللہ ان کو مسلمانوں کے مقابلہ میں کامیاب نہیں کرتا اس لیے انہوں نے معصوم اور نابالغ بچوں کی ایک فوج ۱۲۱۲ عیسوی میں فرانس سے بھیجی ، لیکن ان بچوں میں سے کوئی بھی بیت المقدس نہ پہنچ سکا بلکہ فرانس کے ساحلی علاقہ مارسلز کی بندرگاہ تک پہنچتے پہنچتے یہ بچے تتر بتر ہو گئے ، عیسائیوں نے ان کے ساتھ بد سلوکی کی ، لوٹ مار کی اور غلام بنا کر بیچ ڈالا۔ (12)
صلیبی جنگوں کے اثرات اور نتائج :
دو صدیوں پر محیط یہ صلیبی جنگیں جو مسلمانوں پر بے جا طور پر مسط کی گئی تھیں اپنے ساتھ تباہی و بربادی لے کر آئیں ، یوں مذہبی جنونیوں نے دنیا کی ایک کثیر آبادی کو آہ و فغاں کے اتھاہ اندھیروں میں ڈھکیل دیا ۔ یہ جنگیں فلسطین پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی لیکن مسلمانوں کا قبضہ بیت المقدس پر بدستور قائم رہا ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان اجنبیت کی ایک مستقل جو آج تک ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان حائل ہے وہ ان صلیبی جنگوں کا ایک بنیادی نتیجہ ہے اور فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام اسی کی ایک کڑی ہے۔
صلیبی جنگوں کے دور رس سیاسی ، تجارتی ، اقتصادی ، معاشرتی اور علمی اثرات مرتب ہوئے جن کے فوائد سراسر یورپ والوں کو حاصل ہوئے،بہت کم نقصانات ان کے حصہ میں آئے ، دوسری طرف مسلمانوں کو ان جنگوں سے سیاسی، معاشرتی ، اقتصادی،معاشی اور علمی ہر طرح کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، ذیل میں ان جنگوں سے مرتب ہونے والے اثرات و نتائج کا ایک جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
سیاسی اثرات :
ان جنگوں کی وجہ سے پوپ کو اپنے سیاسی اثرات بڑھانے کا موقع ملا ، سید صباح الدین عبد الرحمن رقمطراز ہیں کہ : پہلے تو یہ اثرات مذہبی تھے مگر ان مذہبی اثرات سے فائدہ اٹھا کر وہ مغربی یورپ کی تمام حکومتوں پر سیاسی حیثیت سے بھی اثر انداز ہونے لگا جس سے مذہبی اور سیاسی کشمکش بڑھ گئی۔ (13)
تجارتی و معاشی اثرات :
ان جنگوں کی وجہ سے یورپ کے تاجروں بہت سے تجارتی فوائد حاصل ہوئے ، ان کو مشرق میں ایک تجارتی منڈی مل گئی اور بڑے پیمانے اپنی تجارت کو دینے لگے جس سے یورپ کی دولت میں اضافہ ہونے لگا تجارت بڑھی تو بینک بھی قائم ہونے لگے ، زر مبادلہ کی سرگرمیاں بھی بڑھیں ، اس تجارت سے یورپ میں مرچوں ، مسالہ جات اور عطریات کا رواج بھی ہونے لگا ، روئی اور ریشم کی صنعتیں شام سے یورپ سے آنے لگیں،ہندوستان سے مسالہ اور جواہرات اور چین سے چینی برتن آنے لگے اس کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں جن سے یورپ نا آشنا تھا مشرق سے یورپ پہنچنے لگیں ۔
یورپ کی مغربی ریاستوں نے جنگ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے آخر میں صلاح الدین ٹیکس کے نام سے ایک ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا تھا جس سے ان کی دولت میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کو نئے ٹیکس لگانے کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ،اب تک ان کو زمین کی پیداوار ہی پر ٹیکس لگانے کا حق تھا ، چونکہ ان جنگوں میں فرانس نے زیادہ حصہ لیا تھااس لیے اس حق سے فرانس نےزیادہ فائدہ اٹھایا ۔ (14)
تہذیبی و معاشرتی اثرات :
ان جنگوں کے دوران اہل یورپ نے مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت ، ان کا رہن سہن اور طور طریقوں کا مشاہدہ کیا جس سے ان کے مزاج و مذاق میں تبدیلی آئی ، یورپ کا طرز عمارت بھی بدلا ، ان کی عمارتوں میں عرب کے تمدن کے اثرات پائے جانے لگے ، وہاں کے باشندوں کا معیار زندگی بھی بلند ہوا ، مسلمانوں کے لباس و پوشاک کو دیکھ کر عیسائیوں نے اپنا یورپی لباس چھوڑ کر عربوں کا آرامدہ لباس پہننے لگے ۔ (15)
علمی اثرات :
ان جنگوں کے علمی اثرات بھی بڑے پیمانے پرمرتب ہوئے اور یورپ میں علم و ادب کے حوالے سے بھی بیداری پیدا ہوئی ، ۱۳۱۱ تک یورپ میں مشرقی زبانوں کے چھ اسکول قائم ہو گئے تھے ، یورپ کی زبانوں میں عربی کے الفاظ بدلی ہوئی شکلوں میں استعمال ہونے لگے ۔ تجارت ، جہاز رانی اور موسیقی کے بھی اصطلاحات عربی سے لیے گئے ، یورپ کے جغرافیہ دانوں اور مؤرخوں نے ان لڑائیوں کی تاریخیں بھی لکھیں جن سے تاریخی ادب میں مفید اضافہ ہوا ، ان لڑائیوں کا تذکرہ نثر کے علاوہ نظم میں بھی کیا گیا جس سے فرانسیسی شاعری پر اچھا خاصا اثر پڑا۔ (16)
ان جنگوں نے یورپ کو باہری وسیع دنیا خصوصاً اسلامی مشرق سے روشناس کرایا ، اہل یورپ جب عربی کتابیں پڑھنے لگے تو عربی شاعری نے ان کے دلوں پر بہت اثر کیا ، اور ان میں عربی طرز پر شاعری مقبول ہوئی اور ان میں ادبی تحریک پیدا ہوئی ۔ اسلامی ادب کے زیر اثر ان میں مساوات کا جذبہ ابھرا ، اسلامی عقیدے سے فیضیاب ہو کر انھوں نے پوپ کی من گھڑت معجزات کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پروٹسٹنٹ چرچ کے نام سے عیسائی مذہب نے ایک نیا روپ لیا ۔
اس طرح صلیبی جنگوں کا سب سے بڑا فائدہ اہل یورپ کو یہ حاصل ہوا کہ ان میں لکھنے پڑھنے اور تحقیق کا رجحان پیدا ہوا جن کے نتیجہ میں مختلف علوم و فنون خصوصاً ریاضیات ، ہندسہ، طب اور علم کیمیا وغیرہ پر عربی کتابوں کا یورپی زبانوں خاص طور سے فرانسیسی زبان میں ترجمہ ہوا ، کیوں کہ اس دور میں فرانسیسی زبان ہی عام فہم تھی اور تمام یورپ کی زبان سمجھی جاتی تھی ، اس طرح اسلام پیغام یورپ پہنچا جس سے اب تک وہ محروم تھا ۔
ایک بڑا منفی اثر :
ان جنگوں کا ایک منفی اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف اہل یورپ میں مذہبی جنون اور ہر طرح کی نفرت پیدا کردی گئی جس کی وجہ سے وہ اسلام اور مسلمانوں کے قریب نہ آسکے اور اسلام کے پیغام امن و انسانیت کے سمجھنے سے قاصر رہے ۔صلیبی جنگوں پر کئی صدیاں گزر گئیں لیکن اب تک ان کے دلوں سے نفرت و عداوت کی وہ آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی جو دوران جنگ صلیبی پادریوں اور رہنماؤں نے غلط پروپیگنڈہ کے ذریعہ ان کے دلوں میں سلگائی تھی ۔
یہ ان ہی جنگوں کا نتیجہ ہے کہ فتنہ استشراق رونما ہوا اور بڑی تعداد میں متعصب مستشرقین نے اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ، اور آج بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش اور پروپیگنڈہ کر کے اپنے دل میں موجود انتقامی جذبے کی تسکین کا سامان کرتے ہیں ۔
خلاصہ :
حاصل یہ کہ صلیبی جنگوں سے جو نتائج برآمد ہوئے اور مشرق و مغرب پر ان کے جو اثرات مرتب ہوئے وہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ دور رس بھی تھے ، مجموعی طور پر ان سے عیسائی دنیا کو فوائد زیادہ اور نقصانات بہت کم ہوئے ، اس کے بر عکس اسلامی دنیا کو ان جنگوں سے جو نقصانات پہنچے ان کا دائرہ بہت وسیع اور جو فائدے حاصل ہوئے وہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اہل یورپ معاشرتی ، ثقافتی ، علمی اور اخلاقی ہر اعتبار سے خود ہی قلاش اور کنگال تھے ، مسلمانوں کو دینے کے لیے ان کے پاس تھا ہی کیا جو وہ دیتے ، اس کے بر عکس مسلمان ہر قسم کی دولت ، ثروت اور علم و فن کی میراث سے مالا مال تھے ، اس لیے اہل مغرب نے مسلمانوں کی دولت و ثروت اور خصوصاً علم و فن سے بھر پور فائدہ اٹھایا ، جو بعد میں ان کی نشأۃ ثانیہ کا سبب بنا ، اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ یورپ نے آج علم و سائنس میں جو کچھ ترقی کی اور وہاں جو کچھ چمک دمک موجود ہے وہ اسلام اور مسلمان کی رہین منت ہے تو کچھ بیجا نہ ہوگا ۔
(حوالہ جات)
(6)صباح الدین عبد الرحمن ص:۱۵ (7)صباح الدین عبد الرحمن، صلیبی جنگیں،دار المصنفین،ص:۱۷ (8) صباح الدین عبد الرحمن، ص: ۲۰(9)ثروت صولت ، ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ، ج: ۱، ص: ۲۹۸(10) صباح الدین عبد الرحمن ، صلیبی جنگیں ص: ۲۰(11) صباح الدین عبد الرحمن ، صلیبی جنگیں ، ص : ۲۴(12)ثروت صولت ، ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ، ج: ۱، ص : ۲۹۸،۹۹(13) صلیبی جنگیں ، ص : ۲۵ (14) ایضاً ، ص : ۲۶(15) ایضاً ، ص : ۳۶(16) ایضاً ص : ۳۷

You may also like

Leave a Comment