شہر قدس کا ہم سے مطالبہ
ترتیب: محمـــد خــالــد ضیــا
شہرقدس اور مسجداقصی کی فضیلت:
مسلمان شہرقدس اورفلسطین کوہمیشہ سے عظمت واحترام کی نظر سے دیکھتے چلے آئے ہیں اور اس کی وجہ وہ فضیلتیں ہیں، جو اس کو حاصل رہی ہیں ـ
قرآن وحدیث سے اس کی جوفضیلتیں ثابت ہیں، ان کی کچھ جھلکیاں ذیل میں دیکھی جاسکتی ہیں:
★یہ برکتوں والی سرزمین ہے، قرآن مجید نے اس سرزمین اوراس کے اطراف کے علاقوں کے لیے پانچ مرتبہ "بارکنا "کالفظ استعمال کیاہے، ہم یہاں صرف ایک مثال پیش کرتے ہیں، سورۃ الاسراء میں ہے:
«سبحان الذی أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله» .
★ یہ وہ سرزمین ہے، جسے بہت سے جلیل القدر انبیاعلیہم السلام کے مولدومدفن ہونے کاشرف حاصل ہے ـ
★یہ وہ سرزمین ہے جہاں فرشتے اپنے بازوپھیلائے رہتے ہیں ـ
★یہ جہاد کی سرزمین ہےـ
★یہ شہدا کی سرزمین ہے ـ
★یہ وہ مقدس سرزمین ہے جہاں مسجداقصی واقع ہے، جوروئے زمین پر اپنے وجود کے اعتبار سےحرم شریف کے بعد دوسری مسجد شمارہوتی ہے، جومسلمانوں کاقبلہ اول رہی ہے، جس کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کیاجاسکتاہے ـ
★یہی وہ مقام ہے جہاں آپ صلی اللہ نے شب معراج میں تمام انبیا کی امامت فرمائی تھی ـ
★یہی سفراسراکی انتہا اور سفرمعراج کی ابتدابھی تھاـ
★جہاں آخری زمانے میں مؤمنین دجال سے بچ کرپناہ لیں گےـ
★جہاں حشرونشر قائم ہوگاـ
★جوطائفۂ منصورہ (خدائی مددیافتہ جماعت) کامرکزی مقام ہے ـ
یہ ہیں وہ بعض اسباب،جن کی بناپر شہرقدس اور فلسطین مسلمانوں کے نزدیک ہمیشہ سے مقدس سرزمین رہی ہے اورقیامت تک رہے گی ـ
شہرِقدس تاریخی تناظر میں:
بیت المقدس اور شہرقدس ہمیشہ اسلام کی سرزمین رہی ہے، صرف تاریخ کے ان ادوار میں، جب اس پرغارت گروں اور خوں ریزوں کاقبضہ رہا، وہ اسلامی حکومت کے ماتحت نہیں رہا، یہ وہی مجرمین ہیں جن کو قرآن نے *”قوماجبارین "*(جالوت اور اس کے لشکر) سے تعبیرکیا ہے، ان ہی جبارین میں رومی تھے اوریورپ کے صلیبی اورآج کے یہودیوں کاشماربھی انھی میں ہے ـ
حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد جب ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام ان کےتخت وتاج کے وارث ہوئے، توان کے زمانے میں بھی بیت المقدس مملکتِ اسلامیہ ہی کادارالسلطنت رہا،نہ کہ یہودیوں کاپایۂ تخت، جیساکہ ان کادعوی ہے ـ
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور روئے زمین کی آزادی کاسلسلہ شروع ہوا اوراس سلسلے میں معرکے ہوئے توان میں بیت المقدس کی آزادی کامعرکہ بھی شامل تھا، بالآخر 636ء میں عہدِفاروقی میں آزادہوکر مملکتِ اسلامیہ کاحصہ بنا، اس سے قبل تقریبا سات صدیوں تک رومیوں نے اس پرغاصبانہ قبضہ کررکھاتھاـ عہدِفاروقی کے بعد بیت المقدس حکومتِ اسلامیہ ہی کے زیرنگیں رہا، پھر پانچویں صدی ہجری کے اخیر میں یورپ نے اس پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ـ
91 سال کے غاصبانہ قبضے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کودوبارہ آزاداکرایا ـ
اس کے بعد سے عیسائی اور یہودی برابر سازشیں کرتے رہے؛ لیکن مسلمانوں نے کبھی انھیں کامیاب نہ ہونے دیا، مگربیسویں صدی کے اوائل میں جب سلطنتِ عثمانیہ ڈھیلی پڑگئی، توبرطانیہ نے 1918 میں یہودیوں کی خاطرفلسطین پرقبضہ کرلیا، اوربرابر یہودی تسلط کے لیے ماحوال سازگارکرتا رہا، جب فضا ہموارہوئی توبڑی چابکدستی سے 15/مئی1948 کوفلسطین یہودیوں کے حوالے کرکے وہاں سے نکل گیا اور یہودیوں نے مملکتِ اسرائیل کے قیام کااعلان کردیا، پھرجب 1967 میں عرب ـ اسرائیل جنگ ہوئی توشہرِ قدس پر یہودیوں کامکمل قبضہ ہوگیا اور قبلۂ اول کی حرمت ایک بار پھر پامال ہوگئی، جس کے جرم میں عرب حکومتوں کے سربراہ برابر کے شریک رہے ـ
اُس وقت سے آج تک فلسطینی مسلمانوں پران کی زندگی تنگ ہے، یہ سب منظر خون کے آنسورلانے کے لیے کافی تھے کہ ابھی چند دنوں قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کواسرائیل کی قانونی راجدھانی بنانے کے لیے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کااعلان کردیا، یہ صرف ایک جگہ کی تبدیلی نہیں؛ بلکہ یہ ایک خطرناک سازش ہے، جس کے پیچھے بھیانک صہیونی مقاصد کارفرماہیں، خلیجی امرا اور مملکتِ سعودیہ کی کفرنوازی اورامریکی واسرائیلی مقاصد کوبروئے کارلانے کے لیےان کامنافقانہ کردار بھی اب طشت ازبام ہوچکا ہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ:
ستیزہ کاررہاہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سے شراربولہبی
ایسے میں ہمیں کیاکرناچاہیے؟
1ـ جوتاریخی حقائق مسخ کردیے گئے ہیں، ان سے پردہ اٹھانے کی ہرممکن کوشش کریں،
عوام الناس کو اس بات سے آگاہ کریں کہ مسجد اقصی پر صرف مسلمانوں کاحق ہے، امت مسلمہ کی یہ میراث ہے، جس کے مستحق قاتلینِ انبیا کسی حال میں نہیں ہوسکتے، لوگوں کوبتائیں کہ مسجداقصی کبھی یہودی ہیکل نہیں تھی، وہ ہمیشہ امت مسلمہ کی مسجد تھی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے جوتعمیر کی تھی وہ ہیکل کی نہیں؛ بلکہ اسی مسجداقصی کی تجدید تھی ـ
2ـ سوشل میڈیا کامنظم اور بھرپور استعمال کرکے مسجد اقصی کی بازیابی سے متعلق لوگوں کی ذہن سازی کریں اوران کو اس بات سے باخبرکریں کہ مسجد اقصی امت مسلمہ کی ملکیت ہے، اس پرکسی دوسری قوم کامذہبی، قومی، سیاسی اورجغرافیائی کسی لحاظ سے کوئی حق نہیں، یہ امت مسلمہ کی عزت وعظمت کی علامت ہے، ہمارے شاندارماضی کی شناخت اور ہمارے مستقبل کی ضمانت ہے ـ
3ـ اسرائیل کی مصنوعات کابائیکاٹ کرکے اپنی غیرتِ دینی کاثبوت پیش کریں ـ
4 ـ اپنی دعاؤں میں کبھی بھی مسجداقصی اور وہاں کے مجاہدین کو فراموش نہ کریں ـ
5 ـ مسجداقصی کی بازیابی کے لیے اگر ہم جان سے جہاد نہ کرسکتے ہوں، تومال سے اس جہاد میں شرکت کی شکل نکالیں، اگر یہ بھی ناممکن ہوتو جذبات سے ضرور حصہ لیں؛ کیوں کہ جوجذبات سے بھی جہاد نہ کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں وہ منافق ہے ـ
6ـ لوگوں میں مایوسی نہ پھیلنے دیں؛بلکہ ان کوہمیشہ اس بات کایقین دلائیں کہ مسجد اقصی ضرور بالضرور ایک نہ ایک روز مسلمانوں کے ہاتھ میں واپس آئے گی ـ
7ـ لوگوں کوبتایاجائے کہ فلسطین کامسئلہ صرف فلسطینیوں اورعربوں کامسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک اسلامی قضیہ ہے جس پردنیاکے ہرمسلمان کاحق ہے ـ
مستفاداز:
۱ـ *شہرقدس تہذیبی چیلنج کے نشانے پر* ـــــ مترجم: ڈاکٹرعبدالحمداطہرندوی
۲ـ *مسجداقصی سے متعلق چالیس حقائق* ــــــ مترجم: ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی
۳ـ مولانامجیب الرحمن عتیق ندوی صاحب کی تحریر سے بھی بعض جملے مستعارلیے گئے ہیں ـ