اردو ادب و شاعری کا ایک زریں عہد اختتام پذیر،ادبی حلقوں میں رنج و غم کی لہر
نئی دہلی،(قندیل نیوز)اردو دنیا کی عظیم شخصیت،ادیب،شاعر و ناظم مشاعرہ انور جلال پوری کے انتقال سے ادبی حلقوں میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔مرحوم ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے اور ان کی ذات و اخلاق میں اردو زبان کی تہذیب و شایستگی رچی بسی ہوئی تھی،ڈاکٹر ملک ز ادہ منظور احمد نے اردو مشاعروں کی نظامت کا جو ایک الگ اسلوب و اسٹائل قائم کیا تھا،اسے انور جلال پوری نے نہایت خوبی و خوب صورتی کے ساتھ آگے بڑھایا اور دنیاے ادب میں اپنے منفردطرزِ گفتگو،اندازِ نظامت اور پر کشش پیرایۂ اظہار کی وجہ سے شہرت و مقبولیت حاصل کی۔اردو دنیا کا کوئی بھی قابل ذکر مشاعرہ ان کی نظامت کے بغیر ناکامیاب سمجھا جاتا تھا اور وہ جس مشاعرے کی نظامت کرتے تھے وہ سو فیصد کامیابیوں سے ہم کنار ہوتیا تھا۔واضح رہے کہ انور جلال پوری خود بھی ایک بہترین اور قادرالکلام شاعر تھے،ان کی شاعری میں سماج و سیاست کے مختلف احوال و مسائل پر اپنے دوٹوک خیالات و افکار کا اظہار پایا جاتا ہے،وہ صاحب تصنیف بھی تھے اورمختلف شعری مجموعوں کے علاوہ کئی نثری تصانیف بھی ان سے یادگار ہیں۔ خلفائے راشدین کی منظوم سیرت’’راہبرسے راہروتک‘‘،مشہور ہندوستانی شاعر رابندرناتھ ٹیگورکی’’گیتانجلی‘‘کا منظوم ترجمہ’’اردو شاعری میں گیتانجلی‘‘اور ہندومذہب کااہم ترین ماخذ شریمد بھگوت گیتاکامنظوم ترجمہ’’اردو شاعری میں گیتا:نغمۂ علم وعمل‘‘ان کی قابل قدر تصنیفی کاوشیں ہیں۔ان کی وفات سے ادبی دنیا صدمے میں ہے اور مشہورادباوشعراواہل قلم نے اپنے قلبی رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی ہے۔