(سفرِ حج کی روداد)
(پہلی قسط)
فاروق اعظم قاسمی
بنیاد:
ابا کے کسی حاجی دوست نے مکہ مدینہ کی تصاویر دیکھنے والی، سرخ رنگ کی ایک کیمرہ نما مشین ہدیہ کی تھی، جو آج بھی سعودی کے بازاروں میں دستیاب ہے، مکہ مدینہ سے شناسائی کا پہلا ذریعہ شاید یہی کیمرہ تھا،بچپن کا معصوم ذہن یہ سوچتا تھا کہ مکہ مدینہ ایک ہی چیز ہے، ہاں اتنا ضرور تھا کہ ایک چوکور کالا سا گھر اور اس کے پیچھے کھڑے ایک مینارسے ذہن میں مکہ کی تصویر ابھرتی اورمینار سمیت ایک ہرے رنگ کے گنبد سے مدینہ کی۔اب میں کبھی کبھی اماں سے کہتا اماں! میں آپ کو مکہ مدینہ لے جاؤں گا اور میں آپ کو حج کراؤں گا،اسی وقت سے دل میں شوق کی ایک نادیدہ چنگاری سلگنا شروع ہوگئی،ایک ایسی چنگاری ،جس سے وہ دل بھی واقف نہیں تھا ،جہاں وہ سلگ رہی تھی۔
نیک نیتی کی برکت:
1997۔ 1998کا زمانہ تھا، اس وقت بڑے بھائی جان فقیر باڑہ پٹنہ کی مسجد میں نائب امام کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے، انھوں نے اپنے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی ،تو لگے ہاتھوں میرے پاسپورٹ کے اجرا کے لیے بھی ایک درخواست ڈال دی،1999 میں پاسپورٹ میرے ہاتھوں میں تھا؛لیکن میرے لیے اس کی حیثیت محض ایک قومی شناختی کارڈ کی رہی اور ذہن اس کے استعمال سے خالی؛چنانچہ بغیر کسی استعمال کے پاسپورٹ اپنی دس سالہ مدتِ کار گزار کر اختتام کو پہنچ گیا،اب اس کی تجدید کی فکر لاحق تھی،میرا گریجویشن مکمل ہو چکا تھا اور اب جے این یو نئی دہلی میں داخلے کی تیاری تھی۔خیر کچھ مشقت کے بعد پاسپورٹ ری ایشو ہو گیا،پاسپورٹ بننے کے بعد اس اٹھارہ سالہ عرصے میں ایک سے زائد ممالک کے سفر کا پلان بھی بنا؛ لیکن منصوبہ منصوبہ ہی رہا، تاہم شروع ہی سے دل میں ایک تمنا ضرور انگڑائی لیتی رہتی اور اس کے لیے گا ہے بگاہے دعائیں بھی اپنے رب سے کرتا کہ الٰہی اگر اس پر پہلا ٹھپہ لگے ،تو دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا لگائیو،اللہ نے اس گنہگار کی صدا سن لی،اللہ ہماری نیتوں کو درست فرما دے کہ اعمال پر نیتوں کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے، انما الاعمال بالنیات!
زمانۂ طالب علمی میں دیدارِ دیارِ شوق کا عالم:
دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں ایک مرتبہ سفر نامہ حج کے پڑھنے کا سودا سوار ہوا۔قصہ یوں ہوا کہ کسی دوست نے مولانا اعجاز احمد اعظمی کی’’بطوافِ کعبہ رفتم‘‘ پڑھنے کا مشورہ دیا، اس پر عمل کیا گیا،کتاب عشقِ رسول سے لبریز اور شوق و وارفتگی کا ابلتا چشمہ محسوس ہوئی،کتاب کے مطالعے نے اس بات پر ابھارا کہ اس سلسلے کی مزید کتابوں کا مطالعہ کیا جائے،اس تحریک کے زیر اثر مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی ”سفر حجاز ”، ماہر القادری کی ”کاروان حجاز”، علامہ سید مناظر احسن گیلانی کی ”دربار نبوت کی حاضری”، شورش کاشمیری کی ”شب جائے کہ من بودم” اور ڈاکٹر کلیم احمد عاجز کی ”یہاں سے کعبہ،کعبہ سے مدینہ” وغیرہ کے مطالعے کا شرف حاصل ہوا۔
یہ کتابیں اس وقت پڑھی گئی تھیں، جب شعور نے اپنے بال و پر جمانے شروع ہی کیے تھے،پوری بات نہ سہی، تاہم ایک حد تک مصنف کا مدعا سمجھ میں آگیا، بارہ چودہ سال کے اس طویل عرصے میں آنکھوں نے بڑے انقلابات دیکھے،اس وقت کی سمجھ اور آج کی قوتِ فہم میں بڑا تفاوت ہے۔الحاصل ہر کتاب کی اپنی الگ شان اور جدا مقام و مرتبہ ہے،ہر مصنف نے عشق و محبت میں فنا ہو کر اپنے احساسات کا اظہار کیا ہے،اس راہ میں بعض لکھاریوں کے احساس و قلم ہم دوش رہے؛ لیکن اکثر کے قلم جذبات سے پیچھے رہ گئے،درحقیقت الفاظ کی درماندگی ہی کا نام جذبات ہے،ان میں سے ہر کتاب عشق و سرشاری میں ڈوبی اپنے اپنے لکھنے والوں کی دیوانگی کا پتہ دیتی ہے، تاہم شورش کی ”شب جائے کہ من بودم” دل و دماغ میں ہل چل سی پیدا کرکے رکھ دیتی ہے،اس کتاب کے انداز و اسلوب اور مصنف کے خلوص نے اسے اس قدر پرکشش بنا دیا ہے کہ جی اسے حفظ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
تقریباً ایک سال قبل میرے مشفق ومربی، استاذ اور بڑے بھائی جان قاری سید منظر الحسن صاحب نے مجھے یہ اطلاع دی کہ اس سال تمہیں حج کے مقدس سفر پہ جانا ہے،یقین جانیے اس گنہگار کو اس خوش خبری سے کوئی خاص مسرت نہیں ہوئی،اولاً تو اسے میں اپنی سیاہ بختی ہی سمجھتا ہوں،اللہ معاف فرمائے ؛لیکن اس پاک پروردگار اور ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندوں کے لیے ممتا رکھنے والے کا شکر کیسے ادا کیا جائے کہ مجھ ایسے پلید کو بھی اپنے در پر حاضری کا موقع دیتا ہے، اللہ ٹوٹی پھوٹی نقل و حرکت کو بیحد قبول فرمائے!
سچی بات یہ ہے کہ مجھے اس سفر پر بالکل بھی انشراح نہیں تھا،ان ایام میں میری پی ایچ ڈی میرے اعصاب پر چھائی ہوئی تھی اور مجھے بہر صورت جولائی 2018 تک تھیسس جمع کرنی تھی؛ اس لیے کہ میری اسکالر شپ کی مدت جون 2017 ہی کو ختم ہوچکی تھی اور آمدنی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں رہ گیا تھا،اس دوران نفس نے کئی بار یہ کوشش بھی کی کہ یہ پروگرام ٹل جائے یا سرے سے یہ سفر ہی ملتوی ہو جائے،اس وسوسے کی آگ میں تیل کا کام بی پی ایس سی کی اس افواہی خبر نے بھی کیا،جس میں کہا گیا تھا کہ ماہِ ستمبر 2018 کو پٹنہ میں اردو سبجیکٹ کا انٹرویو ہونے والا ہے،اسی ادھیڑ بُن میں چھپا اوجھل سا یہ جذبہ بھی اگتا اور ڈوبتا رہا کہ بغیر کسی تیاری کے اتنے عظیم سفر کا قصد مذاقِ محض ہے ؛بلکہ اللہ کے گھر کی توہین ہے کہ منہ اٹھایا اور چل دیے؛لیکن اس رب ذوالجلال اور وہاب کی بے پایاں کی عنایات اور بے کرنی دھرنی کی داد و دہش دیکھیے کہ یہ سارے حیلے بہانے دھرے کے دھرے رہ گئے اور اس کاتبِ تقدیر کے نوشتے میں جو رقم ہواتھا، وہ پورا ہوا۔ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
ذہن بری طرح منتشر تھا، سفر بالکل قریب تھا، پی ایچ ڈی جمع کرنا بھی ضروری تھا اور اس مقدس سفر کو ملتوی کر دینا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پی ایچ ڈی کا مرحلہ یوں بھی طے کرنا ضروری ہو گیا تھا کہ یونیورسٹی کیمپس میں مزید قیام کا اردہ میں نے ترک کردیا تھا ؛ حالاں کہ بہ سہولت مجھے اور ایک سال کے قیام کی مہلت مل سکتی تھی۔ سفر حج اس لیے بھی کینسل نہیں ہو سکتا تھا کہ سفر کی تقریباً ساری کاروائی مکمل ہو چکی تھی، یہاں تک کہ پرواز کی تاریخ کا بھی اعلان آچکا تھا۔
رمضان میں تو میری حالت قدیم ہندوستان کی جدید صورت کی سی ہو گئی تھی یعنی میں تین حصوں میں منقسم ہو گیا تھا۔ ایک طرف رمضان، دوسری طرف تراویح کی تیاری اور تیسری طرف پی ایچ ڈی مقالے کا تکمیلی مرحلہ۔ ایک خوف یہ بھی ہمیشہ دامن گیر رہتا کہ میرے استاذ و نگراں پروفیسر مظہر مہدی صاحب کی مقالے کے تکنیکی ڈھانچے پہ گہری نظر رہتی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ عین وقت پر ان باریکیوں کے برتنے میں کوتاہی واقع ہو جائے اور استاذ کی ڈانٹ کھانی پڑے یا وہ سرے سے مقالے کو مسترد ہی کر دیں۔ ان کی ہدایت ہوتی کہ مقالہ جب بالکل مکمل ہو جائے ،جبھی اسے میرے پاس لاؤ، ناقص نہ رہے، کتابت و سیٹنگ وغیرہ درست ہو، کتابیات بالکل سائنٹفک اور موجودہ معیار کے مطابق ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اللہ بھلا کرے میرے ایک دوست عمران عاکف خان کا کہ بخار میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ مسلسل بارہ چودہ گھنٹے میرے ساتھ بیٹھے رہے اور انتہائی خلوص کے ساتھ سیٹنگ کا دشوار گزار کام انجام دیا۔ اللہ انھیں اس ہمدردی کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔
اسی کے دوران دیگر دفتری کاروائی بھی چلتی رہی، ساتھ ہی جلد سازی کا مرحلہ بھی طے ہوا۔ بالآخر لشتم پشتم10جولائی 2018 کو میری جہالت کے اس طومار کو پی ایچ ڈی کا مقالہ بننا نصیب ہو ہی گیا اور یوں اپنی تما نزاکتوں کے ساتھ مقالہ جمع ہوگیا؛ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی کہ اب آپ منہ اٹھائیں اور گھر کی راہ لیں؛ بلکہ یونیورسٹی سے اور بھی بہت سے معاملات صاف کرانے ہوتے ہیں۔ مثلاً کمرہ خالی کرنا اور ہوسٹل چھوڑنا وغیرہ۔ خیر روم خالی کر کے تمام کتابوں کو پیک کیا گیا، تقریباً سو کتابیں احباب کو ہدیہ کر نے کے با وجود بھی دس کارٹون تیار ہو گئے۔ آدھے کو رفیق عزیز تفسیر حسین ندوی کے کمرے میں اور آدھے کو اپنے لنگوٹیے شمشاد عالم قاسمی کے کمرے میں ٹھکانے لگایا اور جولائی کی گیارہ تاریخ کو گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔
شہرِ شوق کا دیدار
previous post