Home نظم شاہ و گدا تو ہے

شاہ و گدا تو ہے

by قندیل

تازہ ترین، سلسلہ 100
فضیل احمد ناصری
حدِ ادراکِ انسانی سے یارب ماورا تو ہے
ازل تو اور ابد تو، ابتدا تو، انتہا تو ہے
تو معبودِ خلائق، تو ہی مسجودِ دو عالم ہے
مسلماں ہو کہ کافر ہو، سبھوں کا مدعا تو ہے
ترےسرپر ہی جچتی ہےیہ دستارِشہنشاہی
زمانہ معترف ہے مالکِ ارض و سما تو ہے
گرہ کھلتی ہےدنیاکی،تری مشکل کشائی سے
امید و آرزو تو، محورِ شاہ و گدا تو ہے
زمین و آسماں ادنیٰ کرشمہ ہے ترے "کن” کا
خداوندا! جہانوں کے لیے وجہِ بقا تو ہے
وہ سینائی تجلی ہو کہ فارانی شعاعیں ہوں
یہ سب جس مبتدا کی ہیں خبر، وہ مبتداتوہے
ترا جلوہ فضاؤں میں، خلاؤں میں، ہواؤں میں
چمک مہتاب کی،خورشیدِ تاباں کی ضیا تو ہے
بساطِ دہر کی ہر چیز ہے تسبیح خواں تیری
مؤذن کی صدا تو ہے، مجاھد کی نوا تو ہے
خزاں کا روپ ہو، یا موسمِ بادِ بہاری ہو
خدائے مہرباں! ہر رنگ میں جلوہ نما تو ہے
مصائب میں زمانہ بس تجھی کو یادکرتا ہے
غریبوں، بے کسوں کا یا الہی آسرا تو ہے

You may also like

Leave a Comment