Home بین الاقوامی خبریں شامی جنگ سے بچ گئے ؛لیکن ابھی سردیوں سے جنگ جاری

شامی جنگ سے بچ گئے ؛لیکن ابھی سردیوں سے جنگ جاری

by قندیل

برلن 26دسمبر (قندیل نیوز)
خانہ جنگی سے نجات حاصل کرنے والے شامی مہاجرین نے تو اپنی جانوں کو خانہ جنگی سے بچالائے ؛ لیکن اب انہیں سردیوں سے جنگ کرنی پڑ رہی ہے ۔اس سلسلے میں ایک سروے ٹیم نے اپنی لرزہ خیز رپورٹ تیار کی ہے جس میں ہولناک نتائج سامنے آئے ہیں ان متاثرین میں سے ایک خدیجہ العوش کا تعلق رقہ سے ہے اور وہ شامی خانہ جنگی کا بدترین وقت دیکھ چکی ہیں، مگر بے گھروں کے ایک کمیپ میں مقیم پانچ بچوں کی والدہ العوش شدید سردی کی وجہ سے اپنا ایک سات سال بچہ کھو چکی ہیں۔خانہ جنگی کی وجہ سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہزاروں شامی باشندے مختلف مہاجر کیمپوں میں پلاسٹک کے خیموں یا تباہ حال عمارتوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور دوسری جانب ان افراد کو شدید سردی کا سامنا ہے۔ان مہاجروں کو نہ تو گرم کپڑے دستیاب ہیں اور نہ ہی ہیٹنگ کا کوئی انتظام ہے، حتیٰ کہ ان کے پاس علاج معالجے تک کی سہولت بھی میسر نہیں اور اس صورت حال میں سردی بھی ان کی اموات کا سبب بن رہی ہے۔خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے 35 سالہ خدیجہ العوش نے بتایا کہ میرا بچہ سردی کی وجہ سے جاں بحق ہو گیا ۔سنہرے رنگ کے کمبل پناہ گزینوں کی ایک طرح سے پہچان بن گئے تھے تاہم اب اقوام متحدہ کی جانب سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے سرمئی رنگ کے کمبل دیے جا رہے ہیں۔ ابھی ہفتے کے روز ہی چار ہزار کے قریب مہاجرین یونان میں داخل ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ داعش کے مضبوط گڑھ الرقہ میں لڑائی شروع ہونے کے بعد اپنے بچوں کے ہم راہ علاقے سے نکلیں تھیں اور عین العیسیٰ نامی مہاجر کیمپ تک پہنچی تھیں۔ یہ مہاجر بستی الرقہ سے 50 کلومیٹر دور ہے۔انہوں نے بتایا کہ رات کے اوقات میں یہاں درجہ حرارت چار ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اور ان کے پاس نہ گرم لباس ہے اور نہ ہیٹنگ کا کوئی انتظام۔العوش کے مطابق، ’’وہ کھانستا رہا اور نصف شب کے وقت اسے شدید بخار ہو گیا اور اگلے روز وہ فوت ہو گیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے العوش نے اپنے باقی چار بچے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیے۔ ’’خدا ہمیں اس سردی سے محفوظ رکھے۔‘‘یہ بات اہم ہے کہ قریب 17 ہزار افراد اس وقت عین العیسیٰ کی مہاجر بستی میں مقیم ہیں اور اس مقام پر مجموعی طور پر ڈھائی ہزار ٹینٹ نصب ہیں۔ یہاں موجود افراد میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو الرقہ سے فرار ہو کر یہاں پہنچے تھے۔ دیرالزور صوبے کا علاقہ الرقہ کئی برس تک شدت پسند تنظیم داعش کا مضبوط ترین مرکز رہا تھا جب کہ یہ خودساختہ خلافت الرقہ اپنا دارالخلافہ بھی قرار دیتی تھی۔

You may also like

Leave a Comment