Home نظم سیاہ دسمبر

سیاہ دسمبر

by قندیل

تازہ ترین، سلسلہ 75

 فضیل احمد ناصری

گزر بھی گیا غفلتوں کا زمانہ، اٹھو مومنو اپنے دیں کو بچانے
زمانے کے بوجہل و عتبہ نے پھر سے، بنے ہیں تمہارے لیے تانے بانے

ترے دین و مذہب پہ حملے ہیں ہرسو، نشانے پہ ہیں مذہبی کارخانے
طلاقِ ثلاثہ کا عنوان لے کر اٹھی ہے حکومت بہانے بہانے

بڑھا جا رہا ہے ستم ظالموں کا، بڑھے جا رہے ہیں قدم مفسدوں کے
اگر اب بھی تم سنبھلنا نہ سیکھا، تو جل جائیں گے سب کےسب آشیانے

وہ بھاجپ ہو یا کانگریسی جماعت، نہیں کوئی اپنا، نہیں کوئی اپنا
عمل مختلف ہے، ہدف سب کا یکساں، سبھوں کے نشانے پہ تیرے ٹھکانے

نہ بھولیں گے ہم لوگ ماہِ دسمبر، نہ اس کے اوائل، نہ اس کے اواخر
اسی ماہ میں ہم نے کھوئی تھی مسجد،پڑے دوسرے اور صدمے اٹھانے

طبیعت پہ مایوسیوں کا ہے غلبہ، نہ کھانے میں لذت، نہ پینے میں لذت
یہی دل کرے ہے کہ جی بھر کے روؤں، نکل جاؤں صحرا کو آنسو بہانے

سیاست سے کیوں تم نے پیچھا چھڑایا، شریعت کو کیوں اپنے گھر سے نکالا
نہ تم توڑتے کوئی فرمان رب کا، نہ ہوتے مخالف تمہارے زمانے

فرنگی تمدن کو دے دو طلاقیں، خدا کی طرف لوٹ کر آ بھی جاؤ
ذرا ہوش میں اپنے اعدا کو دیکھو! کھڑے ہیں شریعت پہ نشتر لگانے

You may also like

Leave a Comment