Home تراجم سکوتِ خوف یہاں کوبہ کوپکارتاہے!

سکوتِ خوف یہاں کوبہ کوپکارتاہے!

by قندیل

تحریر: برکھادت
ترجمانی: نایاب حسن
میرے پیارے ہندوستان!ہماراکینڈل مارچ کلچر،عوامی غم و غصہ و احتجاج کہاں ہے؟ہم ایک آٹھ سالہ بچی اور دوسری کم عمر لڑکی کے ساتھ ہونے والی عصمت دری پرخاموش کیوں ہیں؟اور ہاں،ان معمولی ٹوئٹس یا ہیش ٹیگس سے کچھ نہیں ہونے والا!
اس ہفتے کشمیر اور اناؤمیں رونما ہونے والے عصمت ریزی و قتل کے دوواقعات قومی شرمساری وخواری کی علامت کے طورپرسامنے آئے ہیں،ان واقعات میں نہایت توا ناسازش کے تحت ملزموں کوبچانے کا نمونہ بھی سامنے آیاہے،ان واقعات نے ہندوستان کی قبیح ترین تصویرپیش کی ہے،ریپ اور قتل کے ان واقعات میں سماجی و سیاسی طبقات کے Responseسے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ہندوستان میں عورتوں کے تئیں نفرت کے انتہاپسندانہ جذبات،مذہبی منافرت اور نسلی امتیازکس درجہ اندوہناک صورت اختیار کرچکے ہیں،ان واقعات نے ہم سب کے خبثِ باطن کوآئینہ دکھایاہے۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہندوستان،جس کے بارے میں ہم سوچ رہے تھے کہ بدل گیا یا بدل رہاہے،وہ ہرگزنہیں بدلا،2012میں دہلی میں ایک میڈیکل طالبہ کی عصمت دری کے بعد زبردست احتجاجات ہوئے،جس کے بعد اس وقت کی حکومت کو ریپ کیسز کے سلسلے میں سخت قانون بنانا پڑا،جسے صنفی انصاف کے حوالے سے نقطۂ انقلاب سمجھاگیا،مگر ہمیں معلوم ہے کہ صورتِ حال میں کچھ بھی بدلاؤ نہیں آیا،نہ سیاست دان بدلے،نہ نفرت کے سوداگربدلے؛بلکہ ہم عوام کے مجموعی طرزِ فکروعمل میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ـ
اناؤاورکٹھواجیسے واقعات موجودہ حکمراں پارٹی،بطورِ خاص "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ "کانعرہ دینے والے پی ایم نریندرمودی کے لیے بھی شرمناک ہیں؛ بلکہ اناؤکیس میں توعصمت دری کاملزم خودبی جے پی کاممبراسمبلی ہے اورمتاثرہ خاتون حصولِ انصاف سے مایوس ہوکر یوپی کے بھگوادھاری وزیرِ اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی رہایش گاہ پرجاکرخودکشی کی کوشش کرچکی ہے، اس کاالزام ہے کہ انتظامیہ نے اس کی شکایت پرکوئی ایکشن نہیں لیا؛ بلکہ اس کے برعکس اس کے والدکوگرفتارکرلیاگیا، جس کی پولیس کسٹڈی میں ہی موت ہوگئی، ہاسپٹل رپورٹ نے کنفرم کیاہےکہ اس کے بدن پرزخم کے کم وبیش اٹھارہ نشانات تھے اور اس نے مرنے سے پہلے باقاعدہ ان تمام لوگوں کے نام بتائے تھے، جنھوں نے اسے بری طرح پیٹاتھا، ان لوگوں میں ریپ کے ملزم ممبرِ اسمبلی کابھائی بھی تھا ـ
کٹھواکے واقعے کی تفصیلات کے لیے آپ پولیس کے ذریعے تیارکی گئی چارج شیٹ پڑھ سکتے ہیں؛ حالاں کہ اسے پڑھنے کے لیے بھی آپ کو بڑی ہمت کی ضرورت ہوگی، چارج شیٹ میں مکمل تفصیل درج ہے کہ کس طرح بکروال قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک آٹھ سالہ بچی گھوڑاچرانے کے لیے قریب کے جنگل میں گئی اورپھرہمیشہ کے لیے چلی گئی،اس میں مذکورہے کہ اس معصوم بچی کو بے ہوش کرنے کے لیے کئی بار نشہ آوردوائیاں دی گئیں، اسے ایک مندرمیں بندھک بناکررکھا گیا، عصمت دری کرنے والوں میں سے ایک باقاعدہ اسی مقصدسے میرٹھ سے بلاگیاتھا، جبکہ آٹھ ملزمین میں سے ایک لوکل پولیس افسربھی تھا، اسی کادوپٹہ لپیٹ کربچی کا گلہ گھونٹاگیا، پھراس کی موت کوحتمی بنانے کے لیے اس مردہ بچی کے سرکوپتھرسےکچل دیاگیاـ آٹھ سالہ آصفہ کی ایک تصویرہے مسکراتی ہوئی، بڑی بڑی اورمستقبل کے تئیں پرامیدآنکھوں والی، جبکہ اسی کی ایک دوسری مسخ شدہ تصویرہے، جوجنگل میں پھینکی گئی اس کی لاش کی ہے، آپ ان دونوں تصویروں کوبہ یک نظردیکھنے کی ہمت نہیں کرسکتےـ
پولیس کاکہناہے کہ عصمت دری اورقتل کایہ واقعہ علاقے کے مسلم قبیلے کووہاں سے بھاگنے پرمجبورکرنے کی سازش کاحصہ ہے،اس واقعے کوبعض شدت پسندہندو گروپ کی جانب سے قبیح مذہبی رنگ دے دیاگیاہے؛ چنانچہ یہ لوگ پوری بے حیائی اورانسانیت دشمنی کے ساتھ ریپ کے ملزمین کے دفاع میں مارچ نکال رہے ہیں، قوم پرستانہ نعرے لگارہے ہیں اورترنگالہرارہے ہیں، جموں وکشمیرکے دووزرانے بھی پولیس جانچ پر تنقید کی ہے، حتی کہ بعض علاقائی کانگریسی لیڈران بھی پولیس کے اقدام پرسوال اٹھارہے ہیں، اس سے بھی زیادہ شرمناک صورتِ حال یہ ہے کہ بچی کے اہلِ خانہ کی جانب سے چارج فائل کرنے کے لیے جب چند وکلاکورٹ جارہے تھے، تووکیلوں کی ایک بھیڑنے ان کاراستہ روک لیا، یہ لوگ بھی ترنگالہراتے ہوئے نعرہ بازی کررہے تھےـ
کٹھواوراناؤ کے حادثات پر مودی کابینہ کی خاتون وزراکی خاموشی بڑی معنی خیزوتشویش انگیزہے اوران کے رہنمایانہ کردارپرسوال کھڑے کرتی ہے، مودی حکومت میں دفاع، امورِ خارجہ اوراطلاعات ونشریات جیسی اہم وزارتیں خواتین کے پاس ہیں، مگران وزارتوں کاکیافائدہ، جب ان عورتوں کی زبانیں ہی اپنی ہم جنسوں کے خلاف ہونے والے ظلم وزیادتی پرگنگ ہوجائیں، یہاں ہم مردوں کی مثال بھی نہیں دیناچاہتے؛ کیوں کہ 2012میں نربھیااجتماعی آبروریزی کے موقعے پر بھی اسی طرح کاسوال اٹھایاگیاتھاکہ دہلی اورمرکز؛ دونوں جگہ حکومت کی کمان عورتوں کے ہاتھ میں ہے(تھی)
اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہرشخص کوانفرادی طورپراپنی ذمے داری محسوس کرناہوگی، یہ سچ ہے کہ ابھی پورے ملک میں شدیدغم وغصہ کی لہرہے، ہم اپنے فیس بک،ٹوئٹرپیجزپرنہایت غضبناک پوسٹس لکھ رہے ہیں، مگریہ بھی ایک سچائی ہے کہ حالیہ دونوں سانحوں میں ہمارے درون میں پوشیدہ جانب داری کے جراثیم باہرآگئے ہیں، 2012کاحادثہ چوں کہ دہلی میں ہواتھا اورہرشخص کواس کے بارے میں پتاتھا یاجلدہی پتاچل گیاتھا؛ اس لیے اس پر فوری اورسخت ترین عوامی ردِ عمل سامنے آیا، مگراناؤاورکٹھوا کے سانحات کومین سٹریم نیوزچینلزکے پرائم ٹائم کاحصہ بننے میں کئی ماہ لگ گئے اورابھی بھی ہم میں سے کتنے لوگ ہیں، جو ان مظلوموں کوانصاف دلانے کے لیے "کی بورڈ "سے آگے بڑھ کر اُسی طرح گلیوں اورسڑکوں پراحتجاج کریں گے،جیسانربھیاسانحہ میں کیاتھا؟
کٹھوااوراناؤسانحے کی چرچااب قومی ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پربھی ہورہی ہے، ایسے میں کچھ لوگوں کو اس کالم کے غیرملکی اخبارمیں شائع ہونے پر تکلیف ہوگی اوروہ اپناآپاکھوکرسوشل میڈیاپر مجھے "اینٹی نیشنل "کے لقب سے نوازیں گے، یادرکھیے، یہ وہی کٹرہندونیشنلسٹ ہیں، جنھوں نے ریپ کے ملزموں کادفاع کرکے ہمارے ملک، دستورِ ہند؛ بلکہ ہندوازم کی ذلت و خواری کاسامان کیاہے ـ
(اصل انگریزی مضمون 11اپریل کوامریکی اخبار "واشنگٹن پوسٹ "میں شائع ہواہے)

You may also like

Leave a Comment