Home خاص کالم سنگِ مرمر کا خواب

سنگِ مرمر کا خواب

by قندیل


سعودعثمانی
سنگِ مرمر کے ٹھنڈے فرش پر میں سنگِ مرمر کی جالی پر ہاتھ رکھے دریائے جمنا کے پار دیکھ رہا تھا۔میرے جوتوں پر ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے کا غلاف چڑھا تھا۔جو سنگ مرمر کو گرد ،مٹی اور خراشوں سے محفوظ رکھنے کی احتیاطی تدبیر تھی۔تاج محل آگرہ کی اس بلند کرسی سے بل کھاتی جمنا کو دیکھنا ایک مبہوت کن نظارہ تھا۔اس بلندی سے میں نے نیچے جھانک کر دیکھا۔ میرے بالکل نیچے سرخ اور سفید پتھروں کا گنگا جمنی چبوترہ تھا۔وہ چبوترہ جس کے چاروں کونوں سے تاج محل کے سفید سبک اور نازک مینار آسمان کی طرف بلند ہوتے تھے۔اس چبوترے سے اور نیچے سرخ اینٹوں کا فرش تھا۔ذرا آگے مٹی کا کنارہ جس سے دریائے جمنا کی لہریں ٹکراتی تھیں۔
لیکن یہ آج اچانک تاج محل کیوں یاد آگیا۔27 دسمبر1997کی وہ ابر آلود صبح اورپندرہ اکتوبر 2006کی دھوپ بھری دوپہر آنکھوں کے عدسوں میں کیسے لوٹ آئیں۔؟کوئی سبب تو ضرور ہوگا۔
شاید اخبارات میں چھپنے والی یہ خبر کہ130کلو میٹر کی رفتار والی تند و تیز ہواؤں اور بارش میں تاج محل کے احاطے کے جنوبی دروازے ‘ ‘ دروازہء روضہ’ ‘ کا 12میٹر لمبا ستون اور اس سے منسلک مینار اور گنبد زمین پر گر پڑے اور ان کے کئی ٹکڑے ہوگئے۔ایک ٹکڑا دل میں بھی پیوست ہوگیا۔کسی نے کان میں سرگوشی کی۔یہ تو وہی دروازہ ہے نا جہاں سے تاج محل کی پہلی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
تاج محل کی پہلی جھلک اور ‘ ‘ دروازہ ء روضہ’ ‘ ۔27 دسمبر کی صبح ایک دم عدسوں میں جھلملانے لگی۔نیم روشن راہداری کے دوسرے خم دار سرے پر جڑا ہوا تاج محل ،جیسے نقرئی تصویر،جیسے رُو پہلا منظر ،جیسے پہلو دار ہیرا،جیسے تاج محل ۔جیسے سانس لیتی ہوئی صبح۔نو زائیدہ کرنوں نے ابھی کہرے اوردُ ھند کو دور نہیں کیا ۔د ُھند کے جھالے سے رہ رہ کر گزر رہے ہیں۔اس چلمنی جھلملاہٹ میں کچھ روشن کچھ روپوش۔کچھ خواب کچھ بیداری۔ کچھ نقرئی شب۔کچھ ماہ نما سورج۔
پتھر ہے مگر پھول کے پیکر سے بنا ہے
کیا خواب ہے جو سنگِ منور سے بنا ہے
تاج محل عمارات کا ایک مجموعہ ہے ۔ بیرونی احاطے، مہمان خانہ ، مسجد اور مرکزی مقبرہ ۔ کھلے قطعات ،چمن زار، دروازے ، غلام گردشیں ، حجرے اور رہائشی کمرے اس کے علاوہ ہیں۔تاج محل کو خود دیکھنے سے پہلے میں اس کی لا تعداد تصویریں ، ٹرانس پیرنسیز ،فلمیں وغیرہ دیکھ چکا تھا لیکن سچ اور بالکل سچ یہ ہے کہ کوی بھی کیمرہ اس حسن، اس خوب صورتی، اس نزاکت، اس جمال کو بیان نہیں کر سکتا جس کا احساس تاج کے سامنے ہوتا ہے(ویسے بھی بہترین کیمرہ بہترین کیمرہ مین کے ساتھ بھی کسی منظر کا جو حصہ محفوظ کرنے پر قادر ہے وہ تمام تر منظر کا بہت ہی چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔اگر کسی عدسے کا مقدور ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جزئیات کے ساتھ منظر محفوظ کرسکے تو وہ انسانی آنکھ ہے )۔اتنی بڑی عمارت اور اتنی نازک ؟ اتنی سبک؟۔ ہمیشہ یہی دیکھا کہ وسعت،بلندی اور عمارت کی لمبائی چوڑائی نزاکت کو ختم کردیتی ہیں۔ بڑی اور بلند عمارتوں میں رعب ،جاہ وجلال ملتا ہے ۔ نزاکت اورسبک پن دور دور نہیں ملتا۔ لیکن اس کلیے کو تاج محل ختم کرکے رکھ دیتا ہے ۔
بات صرف تناسب ،تعمیری کمال اورنزاکت پر ختم نہیں ہوتی۔تاج محل خوب صورتی، اداسی،دل گرفتگی اور ان کیفیات کا مجموعہ ہے جن کے لیے میں ابھی تک موزوں الفاظ ڈھونڈ رہا ہوں۔ہر خوبصورت چیز میں ایک اداسی ہوتی ہے ۔ ذرا سی اوٹ میں ۔ ذرا سا جھانکنے پر یہ اداسی اپنے پٹ کھول دیتی ہے ۔آ پ اس دریچے سے اس کے دل میں اترتے ہیں اور یہ اداسی آپ کے دل میں اترتی ہے ۔ زینہ بہ زینہ ۔ہر قدیم عمارت میں یہ کیفیت شامل ہوتی ہے لیکن تاج محل میں شاید شاہ جہاں کا دکھ بھی شامل ہوگیا ہے ۔ کہیں پڑھا تھا (ممکن ہے روایت درست نہ ہو یا مبالغہ آمیز ہو)۔شاہ جہاں خود اس عمارت کی تعمیر کی نگرانی کرتا رہا۔ بائیس سال کے بعد جب مقبرہ مکمل ہوا تو بادشاہ اسے دیکھنے آیا۔اور درباریوں کو حکم دیا کہ ایک رات کے لیے مجھے یہاں اکیلا چھوڑ دو۔
رات بھر اس سوگوار نے محبوبہ کا غم کیا ۔ صبح جب درباری بادشاہ کو لینے آئے تو وہ پہچانا نہ جاتا تھا۔ بال سفید، رنگ پھیکا، حالت دگرگوں۔
کیا تھا ایسا اس ملکہ میں کہ شاہ جہاں جس کی ایک نظر کو حسین شہزادیوں کی کہکشاں ترستی تھی،اس کے سوگ میں ساری عمر مبتلا رہا ؟ممتاز محل کی محبت میں آخری عمر میں اس نے قلعہ آگرہ کا وہ برج منتخب کیا جسے مثمن برج(ہشت پہلو برج) کہتے تھے کیوں کہ وہاں سے تاج محل چند میل کے فاصلے پر صاف دکھائی دیتا تھا۔پھر جب بادشاہ بستر سے اٹھنے کے قابل بھی نہ رہا تواس نے بستر کا وہ رخ اختیار کیا جہاں دیوار میں جڑے ہوئے ایک ہیرے سے تاج محل کا عکس نظر آتا تھا۔ایسی لازوال محبت،؟ایسا کیا تھا اس باکمال ملکہ میں؟
اکتوبر کی ایک دھوپ بھری دوپہرسنگ ِسرخ سے بنے ہوئے مثمن برج میں کھڑے ہوکر میں نے سامنے کھلے منظر کو دیکھا تھا۔قلعہ آگرہ کی فصیل کے پار جمنا ۔کھلے دریائی بستر میں لہریں لیتی اور بل کھاتی ہوئی ـ آتی ہے اور ممتاز محل کے پاؤں کو بوسہ دے کر قلعے کے پاؤں چومنے آتی ہے اور پھر الٹے پاؤں دور ہٹتی جاتی ہے۔
شمشیر کے مانند یہ مڑتی ہوئی جمنا
یہ آب کہ جو پگھلے ہوئے زر سے بنا ہے
تاج محل کے ٹھنڈے فرش پر جمنا کے اس پار دیکھتے ہوئے میںنے وہ برجیاں اور آثار دیکھے جو تاج محل کے ٹھیک سامنے دریا کے پار سیاہ تاج محل کے تھے۔ ۔شاہ جہاں دریا کے دوسری طرف اپنے لیے سنگ ِ سیاہ کا بالکل ایسا ہی مقبرہ چاہتا تھا۔ہو بہو تاج محل کا عکس لیکن سیاہ پتھر میں ۔سفید اور سیاہ تاج محل آمنے سامنے اور دونوں کے درمیان چاندی کا پل ۔کام کا آغاز ہوا لیکن گردش نے شاہ جہاں کا یہ خواب پورا نہ ہونے دیا۔ عنانِ مملکت شاہ جہاں کے ہاتھ میں نہ رہی ۔پھر ایک دن چند وفاداروں نے مثمن برج آگرہ سے چوہتر سالہ بوڑھے کی لاش اتاری ۔ کشتی میں رکھی اور لہروں پر ممتاز محل کے پاس لے گئے ۔اسی خواب گاہ میں جہاں ملکہ سو رہی تھی بادشاہ بھی ابدی نیند سو گیا ۔ تاج محل کے ہر تناسب اور موزونیت میں بادشاہ کی قبرایک غیر موزوں اضافہ ہے ۔ ہال کے وسط سے ہٹی ہوئی قبر ۔ اس لیے کہ مقبرہ بناتے ہوئے اس قبر کی گنجائش کا سوچا بھی نہیں گیا تھا۔یہ قبر تو دریا کے پار بننی تھی ۔لیکن قسمت کا فیصلہ یہی تھا کہ دونوں محبت کرنے والے پہلو بہ پہلو سوئیں ۔
میں ممتاز محل کے مقبرے میں داخل ہوا میں نے ارجمند بانو اور شہزادہ خرم کو یاد کیا۔جو ممتاز محل اور شاہ جہاں کے لقب سے امر ہونے والے تھے۔ان کی امر محبت کو یاد کیا جو سنگ مرمر میں مجسم ہونے والی تھی ۔کتنے حرف سازوںنے اس محبت کو یاد کیا ۔ کتنے شاعروں نے اس پر شعر لکھے ۔ کیا میں بھی کبھی اس کیفیت کو بیان کرسکوں گا ۔
اس خواب نے تو مجھ میں پلک تک نہیں جھپکی
یہ خواب تو آنکھوں کے مقدر سے بنا ہے
اس حُسن کو تو ہاتھ بنا ہی نہیں سکتے
یہ حسن تو معمار کے اندر سے بنا ہے
یہ صبحِ از ل رنگ کہ چاندی سے سجی ہے
یہ ماہِ ابد گیر کہ مرمر سے بنا ہے
یہ آئنہ خانے کے شکستہ د ر و دیوار
یہ عکس جو ٹوٹے ہوئے منظر سے بنا ہے
یہ حجرئہ ویران میں آباد کبوتر
یہ گھر جو اسی اجڑے ہوئے گھر سے بنا ہے
سینے سے گزرتا ہوا یہ لمحہ ئ موجود
ایسا ہے کہ جیسے کسی خنجر سے بنا ہے
دل حُسن کے اس حزن پہ شق کیوں نہیں ہوتا
معلو م نہیں کون سے پتھر سے بنا ہے

You may also like

Leave a Comment