سنبھل اور رام پور کے چند فکشن نگار
عزہ معین ۔سنبھل
سنبھل اور رام پور یہ دو الگ الگ شہروں کے نام ہیں جن کی ادبی اور ثقافتی روایتوں نے ا نہیں تاریخی شہر کا درجہ عطا کیا ہے۔ علم کے مختلف شعبوں کی نامور ہستیوں نے یہاں اپنی آنکھیں کھولی ہیں ۔ یہاں کی علمی و ادبی روایت کافی مضبوط رہی ہے ۔ اردو ادب کے فروغ میں یہاں کے قلم کاروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ خاص کر فکشن کی دنیا کو آب و تاب اور شان و شوکت عطا کرنے میں یہاں کے لوگ پیش پیش رہے ہیں۔سنبھل سے تعلق رکھنے والے نصف درجن کے قریب ایسے مصنفین ہیں جو فکشن نگاری میں اعتبار کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب بھی اور جہاں بھی افسانوی ادب پر گفتگو کی جائے گی ان کے نام کے ذکر کے بغیر بات نا مکمل اور ادھوری رہے گی۔فکشن لکھنے والوں میں بعض ایسے بھی ہیں جن کی ادبی کاوشیں خوب ہیں لیکن ادبی منظر نامے پروہ ابھر کر سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ اس میں ان کی تخلیقی ہنر مندی یا فنی رچاؤ کی کمی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ان کی گمنامی کے ذمہ دار ایک طرف بے ذوق قاری ہیں جن کا متن سے رشتہ کمزور پڑتا جا رہا ہے تو دوسری طرف ہمارے وہ متعصب نقاد ہیں جنہوں نے نئے لکھنے والوں کو اپنے حوالے میں شامل نہیں کیا۔اس وقت تو اور زیادہ افسوس ہوتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سنبھل کے اساتذہ بھی ہماری نئی نسل کے قاری سے نئے لکھنے والوں کا تعارف کرانے میں سرد مہری کا شکار ہیں۔بہر کیف مجھے کہنا یہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں یہاں ہر دور میں نمایاں کام ہوا ہے۔ البتہ تحقیق کے سوتے خشک نظر آتے ہیں۔ میں یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اگر کوئی طالب علم یہاں کے گوہر تاباں کو تلاش کرنے کی ایماندارانہ کوشش کرے تو ہم بہت سی ایسی شخصیات سے متعارف ہو سکتے ہیں جن کے قلم کا رشتہ فکشن سے بہت گہرا رہا ہے۔جہاں تک رام پور کا تعلق ہے تو ہم اور آپ اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں کہ اس شہر کی حیثیت ایک دبستان کی رہی ہے۔یہاں شاعری ،تحقیق ، فکشن اور صحافت کے علاوہ علم و ادب کے دیگر اصناف میں بھی بیش بہا کام ہوئے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر شاید بے جا نہ ہو کہ شریف احمد قریشی نے رام پور کی ادبی خدمات کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں یکجا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کی سمت میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔میں نے اپنے اس مقالے میں سنبھل اور رام پور کے فکشن نگاروں کا تعارفی ذکر کیا ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف رام پور کے فکشن نگاروں کی تعداد اتنی ہے کہ ا ن تمام لوگوں پر گفتگو کر نا ایک مقالے کی وسعت سے باہر کی چیز ہے۔اس لئے طوالت کے خوف سے بچتے ہوئے میں نے سنبھل اور رام پور فکشن نگاروں پر اختصار کے ساتھ گفتگو کی ہے۔
سنبھل میں فکشن نگاری کے حوالے سے بات کریں تو جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا نصف درجن سے زیادہ فکشن نگار ایسے ہیں جن کی ادبی حیثیت مسلم ہو چکی ہے ۔ ان میں مصور سبزواری،تسکین زیدی،قیوم راہی،شمع رخ بانو، یامین سنبھلی ،فرقان سنبھلی ،نفیس سنبھلی وغیرہ کے نام خاص طور پر لئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے جو افسانے اور ناول تخلیق کئے ان میں ان کی فکری بلند پروازی ،وسعت نظری اور فنی چابکدستی کی کا ر فرمائی صاف نظر آتی ہے۔انہوں نے زندگی کی حقیقتوں، عصری واقعات کی پیچیدگیوں ، سماجی مسائل اور معاشرتی انتشار کو اپنا موضوع بناکر فکشن کے قالب میں ڈھالا ہے۔سنبھل کے کچھ فکشن نگار وں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے سنبھل کی ادبی فضا کو خوشگوار بنانے میں حصہ لیا ہے۔
مصورؔ سبزواری۔ سید ظفر حسین مصورؔ سبز واری کی پیدائش ۱۹۳۲ء کو سنبھل کے محلہ چودھری سرائے میں ہوئی ۔ان کے والد کا نام سید حامد علی تھا ۔جو فارسی اور اردو کے جید عالم تھے ۔عمائدین میں ان کی بہت عزت تھی ۔ آنکھ کھولتے ہی اپنے اطراف و جوانب علم و ادب کا ماحول دیکھا۔والد کی علمی صحبت اور پھر ان کی تربیت و نگہداشت نے مصور ؔ سبزواری کو بھی وہی ذوق و شوق عطا کیا جو ان کے والد میں تھا۔ سنبھل سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعداعلی تعلیم کے لئے چنڈی گڑھ چلے گئے ۔اے ایم یو سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور گڑ گاؤں میں مدرس کے عہدے پر فائض ہوگئے۔ شاعری میں یدطولی رکھنے والے مصور ؔ سبزواری نے فکشن میں اپنا منفرد مقام بنایا ۔ ان کے تقریباً پانچ ناولٹ ’عمر بھر کی تنھائی‘،’ کوئلہ بھئی نا راکھ‘، ’ ہمارے بعد اجالا ہے‘، ’ پت جھڑ کے مسافر‘،’ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘ا ور ایک ڈرامہ’ گھاؤ ایک سمندر کے ‘ شائع ہو چکے ہیں۔ان کی دیگر تخلیقات کو محققین ترتیب دے رہے ہیں جن کے جلد منظر عام پر آنے کی امید ہے۔ مصور ؔ سبزواری کی تصانیف مختلف علوم پر ان کی اچھی پکڑ کو ظاہر کرتی ہیں ۔وہ معاشرے سے ایسے موضوعات کو اپنے قلم کے لئے منتخب کرتے ہیں جن پر لکھنا دیگر ادیب و قلم کاروں کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔گہری بصیرت اور شعوری احساس نے انھیں منفرد لہجہ عطا کیاہے ۔ان کی تحریریں آج بھی نئے لکھنے والوں کے لئے مشعل راہ کا کام انجام دے رہی ہیں ۔
محمد یامینؔ سنبھلی۔ نام محمد یامین ۱۹۴۵ ء کو سنبھل میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام علی حسین تھا ۔ ان کی ابتدائی تعلیم سنبھل میں ہی ہوئی ۔ اس کے بعد مرادآباد اور علی گڑھ سے ایم اے اوربی ایڈ کے اسناد حاصل کئے۔ سرسی میں استاد کے عہدے پر ان کی تقرری ہوئی ۔ سرسی سے سنبھل آنے جانے کے روزانہ سفرمیں صرف ہونے والے وقت کو افسانہ نگاری کے لئے استعمال کیا ۔ایک مرتبہ ظہیر احمد ایڈووکیٹ کی تحریک پر ایک رومانی افسانہ ’سراب‘ شائع کرانے کے لئے ان کے سپرد کیا ۔وہ افسانہ مدیر نے اسی مہینے کے رسالے میں شائع کیا۔جس کی بہت تعریف ہوئی ۔لیکن مدیر رسالہ کی تلخ زبانی اور لالچی فطرت سے یامین صاحب کی حساس طبیعت کو ٹھیس پہنچائی اور انھوں نے لکھنا ترک کردیا ۔بیس بائیس سال کے طویل عرصے کے بعد پروفیسر ارشد کی تحریک پر ایک بار پھرقلم اٹھایا لیکن وہ روانی قلم میں نہ آ سکی جو نو جوانی کے دنوں میں ان کے قلم کا حصہ ہوا کرتی تھی ۔ لیکن یہ عمل اپنے آپ میں بڑی بات ہے کہ انہوں نے از سر نو لکھنا شروع کیا۔ یامین صاحب کہتے ہیں کہ وہ احباب کے مسلسل مطالبے اور بار با ر رغبت دلانے کی وجہ سے دوبارہ افسانے کی طرف متوجہ ہوئے۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’’گھٹن‘‘ اور ’’خزاں کے پھول ‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں جو افسانوی ادب کے ذخیرے میں قیمتی اضافہ ہیں۔
یامین ؔ سنبھلی نے اپنے افسانوں میں عہد حاضر کی بد نظمی ،معاشرے کی برائی ،فرقہ واریت ،دہشت گردی کو اپنا موضوع بنا کر بہترین افسانے تخلیق کئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ سماج کی بد نظمی ، معاشرے کی برائی ، فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے خلاف احتجاج درج کراتے ہوئے افسانے کی فنی خوبیوں اور نزاکتوں کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھتے ہیں۔ان کا اسلوب اور طرز تحریراتنااثر انگیز ہے کہ جب قاری افسانہ ختم کرتا ہے تو اپنے آپ کو محبت وایثار کے جذبے سے سر شار پاتا ہے۔ پریم چند نے امراء و رؤو سا کے خلاف جس قلمی جنگ کا آغاز کیا تھا یامین سنبھلی اسی روایت کو سامنے رکھ کر اپنے افسانے کا تانا بانا بنتے ہیں ۔ افسانہ ’’دوج ‘‘ میں ایک بہن کی ایثار اور قربانی کی عظیم مثال بیان کی گئی ہے۔ ’راکھی‘ بھی اسی موضوع پر لکھا گیا افسانہ ہے ۔ ’ خزاں کے پھول ‘ میں شامل افسانہ ’حسن کا جادو‘ انسان کی فطری عیاری اور مکاری پر لکھا گیا ہے۔ موجودہ دور میں غلط رسم و رواج کو ختم کرنے کی کوشش ان کے افسانے ’اشتہاری شادی ‘ میں کی گئی ہے۔ سماجی بیداری کے موضوع پر لکھے گئے افسانے ’ بانجھ اور ’ عزت ‘ بد عنوانی اور لالچ پر گہرا طنز کرتے ہیں۔یہ افسانے یامین سنبھلی کے افسانوی مجموعے کی اہمیت کو بڑھاتے ہیں ۔’ میرا بھارت مہان‘ بھی اسی ضمن میں ایک بہترین افسانہ ہے ۔ افسانہ ’ایکتا‘ میں جس طرح عورتوں کے درمیان مکالمے ہوئے ہیں ان سے صاحب تخلیق کی کردار نگاری کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے ۔ ’سراب ‘،’ مسیحا‘، ’فنکار‘جیسے افسانوں سے اسلوب کی صفائی اور فکر کی پختگی واضح ہوتی ہے ۔’ کٹی پتنگ ‘ میں طلاق شدہ عورتوں کے جذبات اور نفسیات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ مطلقہ عورتوں کی دوبارہ شادی کی طرف سماج متوجہ ہو ۔اس افسانے سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے تاکہ یامین سنبھلی کے حوالے سے اب تک جو بات کہی گئی ان کی تصدیق ہو سکے۔
’’ تبھی اس کی نگاہ دور سے آتی ایک کٹی پتنگ پرپڑی ۔اس کو پکڑنے کے
لئے بھی حسب معمول لڑکے دوڑے ۔لیکن پتنگ ان سب سے بے نیاز آگے بڑ
ھتی رہی ۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا کہ اب پکڑی گئی مگر وہ ان لٹیروں کا منھ چڑاتی ان کو
ٹھینگا دکھاتی آگے بڑھ جاتی ۔اب اس کے سامنے کھجور کا ایک اونچا پیڑ آگیا اور
آرام سے اس میں اٹک کر رہ گئی ۔لڑکے مایوس ہو کر لوٹ آئے ۔
فائزہ نے سوچا ایک بے جان پتنگ نے اتنوں کو شکست دے دی ۔اور
صحیح و سالم پیڑ میں اٹک گئی ۔یہ سب مل کے بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔مجھے تو خدا
نے انسان بنایا ہے ۔اشرف المخلوقات ۔تو کیا میں کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘ ۱
ڈاکٹر محمدفرقان۔ انجینئر فرقان ۲۰ جون ۱۹۷۳ ء کو دیپا سرائے سنبھل میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام محمد غفران تھا ۔انٹر تک کی پڑھائی سنبھل میں حاصل کی ۔ اس کے بعد مراد آباد سے انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا۔ بی اے اور ایم اے کی ڈگری آگرہ سے حاصل کی ۔ اس بیچ اردوصحافت سے ان کا رشتہ قائم ہوا اور اس میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔بچپن سے ہی مطالعے کا بے حد شوق تھا اسی لئے حد درجہ معاشی پریشانیوں میں گھرے رہنے کے باوجود یو جی سی نیٹ کا امتحان پاس کیا ۔ ادبی ذوق کی تسکین کے لئے افسانے بھی لکھتے رہے اور مقامی ر سائل میں شائع کرواتے رہے۔قلم کار کے طور پر پہچان بنی تو میرٹھ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اور عہد حاضر کے مشہورافسانہ نگار اسلم جمشید پوری نے ایک ادبی پروگرام میں انہیں مدعو کیا ۔ اس سے ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی اورقلم کو مہمیز کرنے کی تحریک بھی ملی۔یہاں سے انہوں نے جو افسانہ لکھنا شروع کیا تو پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ حال ہی میں علی گڑھ مسلیم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اب ویمنس کالج علی گڑھ میں لکچرر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ موجودہ دور کی ہنگامہ خیزی ،عصری نظام کے کھوکھلے پن اور نوجوان طبقے کی حالت زار یہ وہ ڈائمینشن (Dimension ( ہیں جہاں سے فرقان سنبھلی اپنے افسانوں کے لئے موضوعات منتخب کرتے ہیں۔
فرقان سنبھلی کی افسانہ نگاری پر ان کی صحافت کا ،ان کی ذہنی تشکیل میں سائنس اور ان کی شخصیت پر مذہب کا گہرا اثر ہے جو ان کی تخلیق میں بھی جھلکتا ہے ۔ ان کی کہانی کی فضا ہمیں بہت مانوس نظر آتی ہے ۔افسانے میں کہانی پن پیدا کرنے کے لئے بزرگوں کے سبق آموز واقعات کا سہارا لیتے ہیں ۔ ہمیں ان کے افسانوں میں معاشرے کی بے راہ روی کے خلاف آواز سنائی دیتی ہے۔ سماج کے اندر پائی جانے والی وہ بیماریاں جو ہمارے سماجی ڈھانچے کو دھیرے دھیرے کمزورکر دیتی ہیں جس کا ہمیں احساس نہیں ہوتا ۔ ان بیماریوں کی طرف فرقان سنبھلی اپنے افسانوں میں قاری کی توجہ بڑی ہوشیاری سے مبذول کراتے ہیں ۔’طلسم‘ ،’دائمی جہیز‘ ،’اور سرحد کھو گئی‘ ،’تقسیم کے داغی ‘ وغیرہ اسی ذیل کے افسانے ہیں ۔ افسانہ ’آب حیات‘ سائنس اور موجودہ دور کی سب سے بڑے مسئلے یعنی پانی کی بڑھتی ہوئی کمی پر لکھا گیا بہترین افسانہ ہے ۔سائنسدانوں کے ذریعے تلاش کی جارہی دوسری دنیا جہاں انسان اپنی رہائش کا انتظام کر سکے اس دنیا کو افسانے میں تلاش کر لیا گیا ہے ۔ یہاں ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے جس میں کرۂ ارض سے ختم ہو رہے پانی کے اسباب کی طرف کی اشارہ کیا گیا ہے ۔
’’ ہمارے سیارے پر ہر سہولت اور ہراشیاء موجود ہے جو کسی بھی آکاش
گنگا میں پائی جاتی ہوگی ۔لیکن ہمارے بزرگوں نے ترقی کی اندھی خواہش میں
نہ صرف کنکریٹ کے جنگل کھڑے کئے بلکہ تالاب پاٹ ڈالے،ہرے بھرے
پیڑ کاٹ ڈالے اور یہاں تک قدرت کے ساتھ دشمنی کی کہ سیارے کی آب و ہوا
آلودہ ہو گئی ،پانی سوکھ گیا ۔ ندی نالے ختم ہوگئے۔یہاں کی مخلوق پانی کی قلت
سے تل تل کر مرنے لگی ۔اور دیکھتے دیکھتے کنکریٹ کے جنگل سونے ہو گئے ۔‘‘۲
سید نفیس احمد نفیس ؔ سنبھلی ۔نفیس احمدکا شمار سنبھل کے گنے چنے فکشن نگاروں میں ہو تا ہے۔یہ بہ یک وقت فکشن بھی تخلیق کرتے ہیں اور بہترین شاعری بھی کرتے ہیں ۔نفیس سنبھلی محلہ پنجو سرائے کے ایک سید خاندان میں داؤد حسین کے گھر پیدا ہوئے ۔ایم اے اور بی ٹی سی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے ۔علمی و ادبی کاموں میں فکشن اور شاعری دونوں کی طرف یکساں طور پر ذہن مرکوز کیا ۔ان کا شاہ کار ناول’ کنیا دان ‘ نہ صرف سنبھل کے ادبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہے بلکہ اردو کے ذخیرۂ ادب میں بھی ایک بیش بہا اضافہ ہے۔انھوں نے اب تک تقریباً پندرہ کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ان کے افسانوی مجموعے ’ لمحوں کی گرفت‘ ،’حرفوں کے چراغ ‘،’ سوگند تیری سوگند ‘ وغیرہ کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا ۔انہوں نے مغربی اتر پردیش کی دیہی زندگی کو اپنے افسانے میں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔زبان و بیان پر قدرت حاصل ہونے کی وجہ سے کہانی کے بیانیہ (Narration ) میں جان ڈال دیتے ہیں۔کردار نگای اور مکالمہ نگاری کے باریکیوں سے خوب واقف ہیں۔ ایک اقتباس پیش کئے دیتی ہوں جس سے ان کی مکالمہ نگاری کی خوبصورتی اور سلیقگی کا اندازہ ہو سکے۔
’’ پتاجی نے سوبھا کی سادی ساگن پور میں پکی کردئی ۔ہم سے بوجا بی نہ ۔ ‘‘
’’ ہم سے کیوں بوجیں گے بوجیں گے ہیم پال سے۔ ‘‘
’’ ہاں بھیا تو ٹھیک کہوے ،یو میری بھی سمجھ میں نہ آتا۔ ‘‘
’’مجھے تو ایسا لاگے ایک دنا ایسا آگا یہ جمین بھی ہیم پال کی ہوگی ۔‘‘
’’اس کا کوئی اپائے کرنا ہی پریگا ،بھیا !۔‘‘ ۳
شمع رخ بانو ۔ یہ حکیم رئیس کی بیٹی ہیں۔ کم عمری سے ہی ادب کی طرف ان کا رجحان رہا ۔اگرچہ گھر میں شعر و شاعری کا ذکر زیادہ ہوتا تھا لیکن انہوں نے اپنا راستہ الگ چنا۔ یعنی وہ فکشن کی طرف آگئیں۔ان کا ایک ناولٹ ’’پتھر کا گلاب ‘‘شائع ہو چکا ہے ۔تخلیقی عمل جاری ہے اس لئے مستقبل میں دیگر تصانیف کے منظر عام پر آنے کی امید ہے۔
رضیہ سجاد ظہیر ۔بہت کم لوگ جانتے ہوں گے رضیہ سجاد ظہیر سنبھل کی متوطن تھیں ۔ لکھنے پڑھنے سے بچپن ہی سے شغف رہا ۔ سجاد ظہیر کے ساتھ شادی ہو نے سے پڑھنے لکھنے کا ماحو ل مل گیا جس سے انھیں مزید تصنیف و تالیف کی تحریک ملی ان کے افسانوی مجموعے’ اللہ دے بندہ لے ‘،’زردگلاب ‘اور’ اللہ میگھ دے ‘ شائع ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ ایک کتاب کشمیر کے بادشاہ ’سلطان زین العابدین۔ بڈشاہ ‘ کی تاریخی کہانی بھی لکھی ہے ۔یہ بے حد دلچسپ کتاب ہے ۔
رام پور میں فکشن خوب لکھے گئے ہیں۔ اس خطے میں مرد حضرات کے ساتھ خواتین نے بھی فکشن میں اپنی ایک شناخت قائم کی ہے۔ شروعاتی دور کے افسانہ نگار ایس ایم شاہ نوازرام پور کی افسانہ نگاری میں بنیادی اور اہم مقام رکھتے ہیں۔ ملک کی آزادی کے بعد رام پور میں بہت تیزی سے افسانوی ادب تخلیق ہوا ۔ناول کا میدان کافی ہرا بھرا ہے ۔ حال ہی میں شریف احمد قریشی نے رام پور کے افسانہ نگاروں پر اہم کام کیا ہے ۔ انہوں نے تقریباً تمام افسانہ نگاروں کو ایک مجموعے میں شامل کر دیا ہے۔ ایک چھوٹے سے مقالے میں سارے فکشن نگاروں پر گفتگو کرنا محال ہے۔ اس لئے مقالے کی تنگ دامنی اور وقت کی قلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں چند فکشن نگاروں پر ہی گفتگو کر رہی ہوں۔
نعیمہ مسعود۔ نعیمہ مسعود رام پور کے دورِ اول کی افسانہ نگار ہیں ۔ان کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس وقت کی پہلی افسانہ نگار تھیں جب رام پور میں افسانہ نگاری کا آغاز ہوا تھا ۔بعد میں انھوں نے مستقل طور پر پاکستان میں سکونت اختیار کر لی ۔شہر کراچی میں ادبی شغف رکھنے کے سبب آج بھی جانی جاتی ہیں ۔ تقریباً ۱۵۰ افسانے تخلیق کئے ۔ان کے افسانے بہترین طرز بیان کے لئے جانے جاتے ہیں۔ افسانے اور ناول کے علاوہ انہوں نے بچوں کے ادب پر بھی بہت کام کیا ہے ۔نعیمہ مسعود نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ۔ان کے بہترین گیت اور اشعار آج بھی لوگوں کی زبان پر رہتے ہیں ۔ بنیادی کام فکشن نگاری ہی کا کیا ہے ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے مسائل کو بنیاد بنایا ہے ۔ان کی فکر نذیر احمد سے متاثر ہے ۔
نصرت شمسی۔نصرت شمسی عہد حاضر کی ابھرتی ہوئی فکشن نگار ہیں۔ ان کی ولادت رام پور میں ۱۲ جون ۱۹۷۳ ء میں ہوئی ۔ان کے والد شیخ فرید الدین میرٹھ کے تاجرتھے ۔والدہ ذوالفقار شمسی رام پور کی رہنے والی تھیں ۔ انھیں کو ڈائری لکھتے دیکھ کر نصرت شمسی لکھنے کی طرف متوجہ ہوئیں ۔روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شمسی گرلزانٹر کالج میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئیں اسکول اوراپنی گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد جو وقت انہیں میسر ہوتا ہے اسے تخلیقی کام میں صرف میں کرتی ہیں ۔ان کے کئی افسانے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے ناول ’اوڑھنی ‘ کی کافی پذیرائی کی گئی ہے۔ افسانوی مجموعہ ’ماہ تمام ‘ اور زیر ترتیب مجموعہ ’تاج محل‘ ان کی فکشن نگاری کی صلاحیت کا غماز ہیں۔نصرت شمسی انسانی رشتوں اور ان کے درمیان سر اٹھانے والے مسائل کی کھل کر عکاسی کرتی ہیں ۔ان کا قلم ایسی نثر تحریر کرتا ہے جو دل کے تاروں کو چھیڑتی ہے ۔وہ اپنی کہانیوں میں خشک موضوع اور دردوغم کی فضاکو مزاح انگیز جملوں سے مزین کرتی ہیں ۔ یہ در اصل وہ انداز اور اسلوب ہے قاری کو آخر تک کہانی سے جوڑے رکھتا ہے۔
اطہر مسعود۔ محمد اطہر مسعود خاں ۱۹۶۱ ء کو رام پور میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام محمد غوث خاں تھا ۔ایم اے اور یو ٹی سی کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔افسانہ لکھنے اور تحقیقی کام کے ساتھ ساتھ ادب اطفال پر بھی بہت کام کیا ہے ۔ تقریباً بارہ کتابوں کے مصنف ہیں ۔’ٹھنڈا خون ‘ حال ہی میں شائع ہوا ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔بہت سادہ اور پر اثر تحریر لکھتے ہیں ۔ان کا ایک مشہور افسانہ’ کفن ‘ عہد حاضر کی بے روزگاری اور بھوکے بے بس پریشان حال بچوں کی حسیات کے ختم ہو جانے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔افسانوں میں سادہ زبان اور پراثر انداز ان کی تحریر کا خاصہ ہے ۔ان کا سب سے بڑا کام’ اشاریے ‘ کے ضمن میں ہے
وصی اقبال۔ رام پور کے متوطن ہیں ۔ اقبال صاحب کے افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔’آواز کو پہچانوں‘ ،’کعبہ میرے آگے ‘ ،’ گرتی دیواریں‘ اور ’’آندھی میں چراغ آئے‘‘ان کی تخلیقی قوتوں کے غماز ہیں ۔
ناظمہ جبیں ۔ موصوفہ دلی میں لکچرر ہیں اور افسانوی ادب میں بہترین کار کردگی کے لئے دور دراز تک پہچانی جاتی ہیں ۔ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’رائیگاں بلندی ‘ منظر عام پرآچکا ہے۔
ابن فرید۔ فرید صاحببہت عمدہ لکھنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ بقول اطہر مسعود ؛’’مرحوم بے حد اچھے عادت اخلاق کے مالک تھے ‘‘۔ آپ لکھنے کے لئے بہترین موضوع منتخب کرتے ہیں۔ان کے افسانوی مجموعے ’ یہ جہاں اور ہے ‘اور ’خون آشام ‘شائع ہو چکے ہیں۔
انجم بہار شمسی ۔بہترین اسلوب اور پر اثر انداز بیان سے اپنی بات افسانے کے ذریعے کہ دینے والی خاتون ناول نگاری میں بھی پہچان بنا چکی ہیں ۔ناول ’’قصر دل ‘‘اورافسانوی مجموعہ’’ آ واز کا سفر‘‘شائع ہوچکا ہے۔
نکہت اخلاق۔موصوفہ وزیر شہری تر قیات محمد اعظم خاں کی بڑی بہن ہیں۔بہت اچھے مزاج کی اور بہترین طرز تحریر لکھنے کی ماہر ہیں ۔تین مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔’پلکوں سے پلکوں تک ‘ اور’ناچیز‘ بہت مشہور ہوئے ۔’ناچیز ‘میں خواتین کے متعلق افسانے لکھے گئے ہیں ۔
ابن حسن خورشید ۔’ہنر مندان رامپور ‘ ایک ایسی کتاب ہے جس میں بظاہر چھوٹے لیکن بہت اہم کام کرنے والے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ابھی کوئی افسانوی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔
ایس فضیلت۔ ایس فضیلت رام پور کے حوالے سے اہم نام ہے۔ بہت عمدہ نثر لکھتے ہیں ۔ بارہ ناول تخلیق کئے ہیں ۔جن میں سب سے زیادہ مشہور ناول ’محلوں کے اندھیرے‘ ہے ۔ ایک افسانوی مجموعہ ’اوئی اللہ ‘ شائع ہوا ہے۔
مر تضی ساحل تسلیمی ۔ ادارۃ الحسنات میں ملازم تھے آپ کا کام بچوں کے ادب میں بہت اہم ہے۔ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ’ آخری تعاقب‘ شائع ہو چکا ہے۔
مسعود ظفر ایڈووکیٹ۔آپ کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے ۔ مسعود ظفر کے افسانے ’چادر ‘نے منظر عام پر آکر بہت شہرت حاصل کی ۔اس کے علاوہ مرحوم کے افسانے ’حفاظت‘ نے بھی قاری کو متاثر کیا ۔مختصر افسانے لکھتے تھے لیکن ابھی مجموعہ نہیں چھپ سکا ہے ۔
رام پور کے دیگر فکشن نگار اپنے مشہور افسانوں کے حوالوں سے دئے جارہے ہیں۔انجم بہار شمسی مصنف ’بن باس‘ ،ڈاکٹر محمد اطہر مسعود ’دوگز زمین ‘ اور’ معیار‘،سمیع الدین خاں شاداب ’ تناسخ ‘ اور ’جو نہیں جانتے وفا کیا ہے ‘ ،سعادت اللہ خاں’ازدیدہ گر چہ می رود ازدل نمی رود‘ ،ناظمہ جبیں ’ رائیگاں بلندی ‘ ،نصرت شمسی ’ آئینہ وقت ‘ ،منظور فاخر ’ بے وفا کون ‘ ،مرتضی فرحت ’ اچھن بے ‘ ،پروفیسر اوم راز’ منتر کی طاقت ‘، ابن حسن خورشید’ ادھورا سماج ‘ ،سعید فرحت ’راستے کا کانٹا ‘ افسانہ بہت مشہور ہوا ۔ابھی کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے۔ ، وصی اقبال ’ روشن چہرہ ‘ ،خلیل خان کاشمیری ’ ڈبلیو ایس سی ‘ نئے انداز اور حسین پیرائے میں لکھنے کے لئے جانے جاتے ہیں ۔افسوس کہ ان کی تحریریں لاپروائی کی نظر ہو گئیں ۔ ،پرویز اشرفی افسانوی مجموعہ ’ ماں کی آنکھ سے ٹپکتا خون‘ شائع ہو چکاہے ۔ راز یزدانی آج سے پچاس پچپن برس پہلے ان کا قلم رواں تھا اب تک مجموعہ شائع نہیں ہو سکا ہے ۔ عتیق جیلانی سالک رضا لائبریری میں ملازمت کرتے تھے مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے لیکن ایک بہت فیض بخش کتاب ’ رام پور شناسی ‘ ان کے فن کی داد دینے کو مجبور کرتی ہے۔ ان کے علاوہ سعید ریاض ،ناظمہ جبین ، ڈاکٹر ابن فرید،ایس ایم شاہنواز، جاوید نسیمی،رفیع الشرف خاں، اختر اللہ خاں منظر ریحا نی وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔
مذکورہ بالا حقائق سے یہ ظاہر ہے کہ رام پور اور سنبھل کا فکشن نگاری میں اپنا ایک مقام ہے ۔اور مستقبل میں بھی اس کے امکانات روشن ہیں ۔یہ علاقے فکشن کے میدان میں کافی زرخیز رہے ہیں اور آئیندہ بھی رہیں گے ۔
اشاریہ ۔
۱۔ افسانوی مجموعہ ’’خزاں کے پھول‘‘ یامین ؔ سنبھلیِ ، کاک آفسٹ پرنٹرس دلی۔۲۰۰۹
۲۔ افسانوی مجموعہ ’’طلسم‘‘ ،فرقان سنھلی ،مکہ پبلشر ۔دلی ۔۶۔۲۰۱۵
۳۔ افسانوی مجموعہ ’’ سوگند تیری سوگند ‘‘ نفیس سنبھلی ،دلی اشاعت ۔۲۰۰۲
۴۔ شریف احمد قریشی ۔رام پور میں اردوافسانہ ۔رضالائبریری رام پور ۔۲۰۰۹