Home نقدوتبصرہ سفر نامہ لکشمن ریکھا کے پار کی ادبی و تاریخی اہمیت

سفر نامہ لکشمن ریکھا کے پار کی ادبی و تاریخی اہمیت

by قندیل

اقبال حسین دہلی

الیاس احمد گدی چودہ اپریل انیس سو بتیس کو جھریا کے گدی محلہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عمر میں پڑھائی لکھائی کی طرف طبیعت مائل نہ تھی پھر بڑے بھائی کے ترغیب دلانے پڑھنے لکھنے سے رغبت بڑھتی چلی گئی۔۔ انٹرمیڈیٹ میں تعلیمی عمل سے ذرا دم لیا ہی تھا کہ غم روزگار نے آ لیا۔ بھائی غیاث احمد گدی کی افسانہ نگاری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ خود بھی ادیب بن گئے۔ پہلا افسانہ سرخ نوٹ ماہنامہ افکار بھوپال میں انیس سو اڑتالیس میں شائع ہوا۔ پھر تو یکے بعد دیگرے کئی افسانے شائع ہونے لگے۔ اپنے دور کے مؤقر ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے اور ادبی دنیا سے اپنے فن اور اسٹائل پر داد و تحسین وصول کرتے رہے۔ تین مکمل ناول زخم مرہم اور فائر ایریا کی تخلیق کی۔ مختلف اکیڈمیوں اور اداروں سے ادبی خدمات کے اعتراف میں انعامات و اعزازات سے نوازے گئے۔ انتقال سے ٹھیک ایک سال پہلے یعنی انیس سو ستانوے میں ناول فائر ایریا پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیا۔
اردو فکشن کا یہ ادیب اپنے فن کی انفرادیت اور موضوع کے اچھوتے پن کے لئے مشہور ہے۔ فکشن کے زریں دور میں بھی یہ علاقائی فنکار اپنی منفرد پہچان کی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہا۔ جس دور میں ترقی پسند مصنفین کا طوطی بولتا تھا اور سعادت حسن منٹو قرۃالعین حیدر راجندر سنگھ بیدی کرشن چندر سہیل عظیم آبادی اختر اورینوی احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے قلم کا اردو فکشن پر پرچم لہرا رہا تھا انہی دنوں میں اردو کا یہ غیر معمولی فکشن نگار اردو میں اپنے علاقائی لب و لہجہ اور محاوروں کے ساتھ داخل ہوا تھا۔ ہمیشہ اپنے اخلاق و کردار سے دوسرے تخلیق کاروں کو متاثر کیا ان کی شخصیت اور کام کو احترام کی نگاہ سے دیکھا۔ کبھی اپنی کامیابی سے بد دماغ نہیں ہوا کبھی اپنی تخلیقات پر سخت تنقیدوں کا برا نہیں مانا بلکہ اپنے کام میں مصروف رہا اور اس سے محضوظ بھی ہوا۔ اپنے فن اور شوق کو درکار مہارتوں اور وقت سے کبھی مصالحت نہیں کی۔
الیاس احمد گدی نے ہندی کے مشہور فکشن نگار فنیشور ناتھ رینو کی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کی تخلیقات میں ایک بہت ہی معلوماتی اور دلچسپ روداد سفر بھی شامل ہے۔ کتابی شکل میں یہ سفر نامہ انیسویں سو اٹھانوے میں کیریٹو لنکس سے لکشمن ریکھا کے پار کے نام سے شائع ہوا تھا جس کی کاپیاں ان دنوں ناپید سی ہو گئیں تھیں۔
محمد علام الدین جو کہ بہت ہی محنتی اور پر حوصلہ نوجوان محقق ہیں۔ انہوں نے بڑی محنت اور دلچسپی سے الیاس احمد گدی کے سفر نامہ لکشمن ریکھا کی دریافت کی اس پر ایک شاندار مقدمہ لکھ کر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع کروایا ہے۔ تاریخی اور ادبی اہمیت کے تقریباً ناپید اس سفرنامے کی دریافت کو مستحسن نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ گرچہ اصل متن کے مطالعہ میں عجلت اور کم تجربہ کاری عیاں ہے مگر کام کی اہمیت اور نوجوان محقق کی لگن نے اس نقص کو پس منظر میں ڈال دیا ہے۔
ابتدا سےاردو فکشن میں شمال مغربی اور وسطی ہندستان کے احوال و آثار اور تہذیب و معاشرت کا ذکر دوسرے علاقوں کے مقابلے زیادہ ملتا ہے۔ جنوب مشرقی ہند کا بیان قدرے مختصر ہے۔ بنگال کی سر زمین کے آفاقی طلسمی حسن کا بیان قرۃالعین حیدر کے ناول آگ کا دریا اور آخر شب کے ہمسفر میں قدرے تفصیلی ہے۔ علاقائی ادیبوں کی اکثریت بھی کلکتہ مرشد آباد اور ڈھاکہ کے ذکر تک ہی محدود ہے۔ اس حوالے سے اردو میں الیاس احمد گدی کا یہ سفر نامہ لکشمن ریکھا کے پار کافی معلوماتی ہے۔
بنگلہ دیش کا وجود عمل میں آنے سے ٹھیک تین سال پہلے یعنی انیس سو اڑسٹھ میں گدی صاحب قرۃالعین حیدر کے مشہورِ کردار ابوالمنصور کی سرزمین کی مقناطیسی کشش کی وجہ کر اس سفر کا ارادہ اور پھر آغاز کرتے ہیں ۔ مشرقی پاکستان کا یہ نہایت ہی مختصر قیام ان پر نہ صرف اس سر زمین کے طلسماتی حسن کے راز سے پردہ اٹھاتا ہے بلکہ مستقبل کی نہایت ہی سفاک اور دل سوز پیشن گوئی سے دل خون بھی کرتا ہے۔ الیاس احمد گدی کا یہ سفر نامہ تاریخ میں جھانک تاک بھی کرتا ہے پال بادشاہت کے پر شکوہ ڈھاکہ کی مزاج پرسی کرتا ہوا ایوب خان تک کے ڈھاکہ کی تاریخ کے مختلف پڑاؤ پر عوام کے حال احوال دریافت کرنے کے عمل میں اس سرعت سے سوالات کھڑے کرتا ہے گویا ان حادثات کے وہ عینی شاہد ہوں۔ دوران سفر گدی صاحب ایک طرف بنگال کے دھان کے کھیتوں ہرے بھرے جنگلات غربت کے باوجود بھی انسانوں کے چہروں پر تمانیت اور خوشیوں کی رمق کی سحر انگیزی کے دام میں گرفتار ہوتے ہیں تو دوسری طرف لوٹ کھسوٹ حق تلفی بے ایمانی اور کاہلی سے ایک ادیب اور حساس انسان بیزار اور بد دلی سے بوجھل بھی ہو جاتا ہے۔
دوسرے تخلیق کاروں اور ادیبوں کے جیسا الیاس صاحب کا یہ بیرون ملک کا سفر کسی دعوت نامہ اور پاسپورٹ ویزا کے قانونی طور طریقوں کے مطابق نہیں ہے بلکہ یہ تو کسی معشوق کے وصال میں عاشق کا تمام تر دیوانگی اور وارفتگی پر عمل درآمد ہونے کے مصداق ہے کیونکہ یہ سفر آزاد ہندوستان اور مشرقِی پاکستان کی سرحدکو خالص غیر قانونی طور سے بڑے ہی ایڈوینچرس انداز میں مکمل شوق کی بناء پر عبور کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ دو اور دوستوں کے علاوہ غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرانے والے دو ایجنٹ بھی ہیں۔ اس دوران پکڑے جانے لوٹ لیے جانے یا دونوں میں سے کسی بھی سرحدی فوج کی گولیوں سے اڑا دئیے جانے کا شدید خوف ہے جو کبھی کبھی گرم سیسے جیسا ریڑھ کی ہڈی سے نیچے کی طرف رینگتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ وہ اپنے دو دوستوں اور ہمراہیوں کے ساتھ چھپتے چھپاتے مشرقی پاکستان پہنچتے ہیں۔ سفر میں ریل بس رکشا بیل گاڑی ناؤ کی سواری کے علاوہ بیسیوں میل رات کے اندھیرے میں پیدل چلنے کا سنسنی خیز بیان بھی ہے۔ دوران مطالعہ حالات و واقعات کے بیان کی کیفیت و نوعیت بسا اوقات سفرنامے پر کسی جاسوسی کہانی جیسا گمان کرنے کو مجبور کرتے ہیں۔
زبان سادہ اور رواں ہے علاقائی الفاظ اور محاورے اس انداز سے استعمال ہوئے ہیں گویا وہ اصل زبان کا حصہ ہوں۔ بعض جملے ایسے ادا ہوتے ہیں جیسے علامہ اقبال کے شعر نثر میں کہہ دیے گئے ہوں۔
اس سفرنامے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ حالات و واقعات کے بیان میں ایتھنو گرافیکل رائٹنگ کا انداز اختیار کرکےاس کے اعتبار و اعتماد کو مستحکم اور غیر جانبدار بنا گیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے اسباب کے مطالعہ میں اردو میں میری نظر سے اس سے بہتر ریسورس شاید ہی کوئی گذرا ہے اردو میں کچھ کتابیں پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا تو وہ اپنے مواد میں طرفداری اور تعصب کے عناصر سے بھرپور پائی گئیں۔
الیاس احمد گدی نے جو مشاہدات و تجربات رقم کئے وہ بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ان کے مشاہدات کے مطابق اردو بولنے والے غیر بنگالیوں کا اصل بنگالیوں کی زبان و ثقافت میں واضح فرق ہے۔ غیر بنگالیوں کے سروں پر حکومت اور بیوروکریسی کا معاندانہ ہاتھ ہے جبکہ اصل بنگالی شک اور بے اعتباری کا شکار ہیں۔ دونوں کی آبادیاں تھوڑے فاصلے سے رہتی ہیں۔ اصل بنگالیوں کے محلے پرانی آبادی میں ہیں جہاں گندگی حبس بیماری بھوک غربت وغیرہ کا راج ہے۔محاجر آبادی جو اردو بولتی ہے وہاں اونچی عمارتیں بڑےکاروبار صاف کشادہ سڑکیں جدید اسکول اور جدید ہاسپٹل آزادی کے بعد کے مشرقی پاکستان کی ترقی کے ثبوت ہیں۔ غیر بنگالی آبادی اصل بنگالی آبادی کے تئیں بے سر پیر کی افواہوں پر مبنی تحفظات رکھتی ہے جو ان کے رویوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اصل بنگالیوں کی اردو زبان سے نفرت کی وجہ اردو زبان کو ان پر زبردستی تھوپنا تھا کیونکہ زبان کی اپنی ایک تہذیب ہوتی ہے جو اس سے وابستہ لوگوں کی شناخت ہو تی ہے اور شناخت کے معاملے میں بنگالی قوم ذود حس واقع ہوئی ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کا بیان اس کے شاندار ماضی کے ساتھ اس طرح کرتے ہیں کہ یہاں کے طلباء کا ہر نا انصافی اور استحصال کے خلاف سینہ سپر ہوجانا ان کی تعلیمی فعالیت اور زندہ رویوں کی علامت ہے۔
لکشمن ریکھا کے پار میں الیاس احمد گدی ایک شہید منار کا ذکر اسی تفصیل سے کرتے ہیں جیسے مختار مسعود منارۂ پاکستان کا۔ مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک طرف منارۂ پاکستان ملک خداداد کے استحکام و پائیداری کی علامت ہے تو شہید منار سے شہیدوں کا رستہ ہوا لہو استحصال اور نا انصافی کے بڑے سے بڑے قلعہ کی بنیادوں میں پیوست ہوکر اسے کھوکھلا اور ناکارہ بنانے میں تیزاب کا سا اثر رکھتا ہے۔
الیاس احمد گدی کا قلم اور دماغ جھریا کی کوئلہ کھدانوں کی لوٹ کھسوٹ نا انصافی اور استحصال کا بیان کرنے میں جتنا تیز کاٹ دار اور ادبی حسن سے مزین ہے۔ وہ اتنا ہی اپنی تجربہ کار نظر سے تین سال پہلے مستقبل کے پردے میں جھانک کر سقوط ڈھاکہ کی پیشن گوئی بیان کردیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ سقوط کے اسباب کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے۔
سفر نامہ لکشمن ریکھا کے پار کا مطالعہ ادب اور تاریخ کے طلباء و محقق کے علاوہ سیاست کے ارباب حل و عقد کے ذمے داروں کو بھی کرنا چاہیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی نسل اور قوم کی تہذیب و معاشرت اور شناخت کو مٹاکر ہم انہیں خود میں ضم کر لیں گے یا زیر کر لیں گے تو اس خوش فہمی سے بعض آجانا چاہیے اور تاریخ سے سبق لے کر امن و آشتی اور بھائ چارگی کی ترقی میں اپنی توانائی صرف کرنا چاہیے۔

You may also like

Leave a Comment