Home قومی خبریں سر سید کی تعقل پسندی اور سائنٹفک ذہن میں عصر حاضر کی نجات ہے: پروفیسر شمیم حنفی

سر سید کی تعقل پسندی اور سائنٹفک ذہن میں عصر حاضر کی نجات ہے: پروفیسر شمیم حنفی

by قندیل

شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے ’’سرسید کی عصری معنویت‘‘ کے موضوع پر سہ روزہ بین الاقوامی سمینار اختتام پذیر
نئ دہلی:4 فروری(قندیل نیوز)
سر سید اپنی روشن خیالی ،تعقل پسندی، سائنسی شعوراور مدبرانہ شخصیت کے سبب ہمارے لیے آج بھی آئیڈیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ سر سید کی علی گڑھ تحریک صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور آج بھی اس کی معنویت و افادیت مسلم ہے۔ ان خیالات کا اظہار شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے ’’سر سید کی عصری معنویت‘‘ کے موضوع پر سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کے اختتامی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے کیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ تمام تحریکات کا نقطۂ آغاز علی گڑھ سے جا ملتا ہے۔ اپنے زمانے کی منفی اقدار کو چیلنج کرنا سرسید کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ سر سید کے بعد ہندوستان میں جو بھی مثبت تبدیلی آئی وہ سب علی گڑھ تحریک کی دین ہے۔انھوں نے مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ سر سید نے قدیم مواد کے خمیر سے ایک نئے نظام کا ڈھانچہ تیار کیا۔ اختتامی اجلاس میں صدر شعبہ پروفیسر شہپر رسول نے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ اس سہ روزہ بین الاقوامی سمینار میں پیش کیے گئے بیس مقالات کی علمی اور تحقیقی و تنقیدی اہمیت کے پیشِ نظر ہمیں اطمینان خاطر حاصل ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب یہ مقالے کتابی صورت میں شائع ہوں گے تو اس سے سرسید شناسی کی ایک نئی جہت روشن ہو گی۔ سمینار کے کنوینر پروفیسر احمد محفوظ نے سمینار کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے تمام مقالات کو سر سید کے حوالے سے بامعنی اور سمینار کے مقاصد سے ہم آہنگ قرار دیا ۔ اس موقع پر پروفیسر آلیں دزولیئر (فرانس)، پروفیسر انیس اشفاق، پروفیسر علی احمد فاطمی اور پروفیسر خالد محمود نے سمینار کے حوالے سے مثبت اور حوصلہ افزا تاثرات کا اظہار کیا۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر خالد مبشر نے کی اور داکٹر ندیم احمد نے اظہار تشکر کے فرائض انجام دیے۔
تیسرے اجلاس کی صدارت جناب جاوید دانش اور ڈاکٹر علی جاوید نے کی اور اس اجلاس میں پروفیسر انیس اشفاق نے ’’سرسید کے ادبی تصورات‘‘، پروفیسر اعجاز علی ارشد نے ’’سر سید کے فکری ارتقا میں سفر انگلستان کے اثرات‘‘، پروفیسر علی احمد فاطمی نے ’’سر سید غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں‘‘، ڈاکٹر عمیر منظر نے ’’سر سید اور شبلی‘‘ اور ڈاکٹر سلطانہ واحدی نے ’’سرسید کی مکتوب نگاری‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالات پیش کیے۔ چوتھا اجلاس پروفیسر محمد ذاکر اور پروفیسر انیس اشفاق کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں پروفیسر صغیر افراہیم نے ’فکر سرسید کی توضیح و تشریح اور تہذیب الاخلاق‘ پروفیسر سراج اجملی نے ’سید اور مولانا حالی‘، ڈاکٹر ندیم احمد نے ’سر سید کی شخصیت کے اہم نقوش‘ اور ڈاکٹر آصف زہری نے ’’اردو کی ادبی صحافت اور سر سید کے موضوع پر اپنے مقالات پیش کیے۔ دونوں سیشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر عادل حیات اور ڈاکٹر ثاقب عمران نے انجام دیے۔
اس یاد گار موقع پر ڈاکٹر شمع افروز زیدی، ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی، مریم سکندر (لندن)، اسرا جامعی، پروفیسر شہناز انجم ، پروفیسر نسیم احمد، پروفیسر سید علی ذہین نقوی، جناب مظفر حسین سید، ڈاکٹر صفدر امام قادری، جناب محمد خلیل، جناب سہیل احمد، ڈاکٹر عالم شمس، ڈاکٹر ابوبکر عباد، ڈاکٹر انوار الحق، شعیب رضا وارثی، ڈاکٹر وسیم راشد، ڈاکٹر عزیر اسرائیل، ڈاکٹر محمد دانش، حافظ مطیع الرحمن،جناب زین شمسی، ڈاکٹر محمد علیم، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، پروفیسر وہاج الدین علوی،پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرور الہدی،ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین،ڈاکٹر ابو الکلام عارف، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر نعمان قیصر، ڈاکٹر محضر رضا، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی،ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر سعود عالم، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر زاہد ندیم،ڈاکٹر نوشین حسن، امتیاز احمد علیمی کے علاوہ دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرز اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں حصہ لیا۔

You may also like

Leave a Comment