Home خاص کالم ستاسی ہزارپانچ سوکتابیں جمع کرنے والا ہندوستانی

ستاسی ہزارپانچ سوکتابیں جمع کرنے والا ہندوستانی

by قندیل

روِش کمار
وہ دنیاکے عظیم قارئین اور کتاب دوستوں میں سے رہاہوگا،اس کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ کتابوں کے بغیر نہیں گزراہوگا،اس کی زندگی اپنے زمانے کی مشغول ترین زندگیوں میں سے ایک رہی ہوگی،اس وقت بجلی توہوگی نہیں ،ظاہر ہے کہ وہ دن کے اجالے میں پڑھتاہوگا،گھر میں ان کتابوں کو رکھنے کے لیے کمرے بنواتاہوگا،کمرے میں الماریاں رکھواتا ہوگا،گلیارے میں بھی کتابیں رکھی رہتی ہوں گی،بیرونی ممالک سے کتابوں کی آمد کا مہینوں انتظار کرتا ہوگا،اس کے دوست احباب تحفے میں کتابیں دیاکرتے ہوں گے،اتنا سب نہیں ہوتا،توآشوتوش مکھرجی کے پاس ستاسی ہزار پانچ سو(87,500)کتابوں کا ذخیرہ کیسے اکٹھاہوپاتا؟

کولکاتامیں واقع نیشنل لائبریری میں مکھرجی کی کتابوں کی ایک مستقل لائبریری ہے،نیشنل لائبریری نے ان کی کتابوں کے ذخیرے کواچھی طرح سنبھال کر رکھاہے،وہاں جاتے ہی میں انیسویں اور بیسویں صدی کے ان ہندوستانیوں کے تصور میں کھوگیا،جنھیں کتابیں بدل رہی تھیں،جنھوں نے کتابوں کی قدرپہچانی،مجھے معلوم نہیں کہ اُس زمانے کی اجتماعی و انفرادی زندگی میں کتابوں کے کردارپر کوئی مستقل کتاب ہے یانہیں،مگر کیایہ جاننے کی بات نہیں ہے کہ آشوتوش مکھرجی کا ستاسی ہزار پانچ سوکتابوں کا ذخیرہ کیسے اکٹھاہوا؟اس دور میں ان کے علاوہ اور کون کون ایسے لوگ رہے ہوں گے،جن سے کتابوں پر گفتگو ہوتی ہوگی،جانکاری ملتی ہوگی،وہ کتابیں خریدتے ہوں گے اور سنبھال کر رکھتے ہوں گے؟

یہاں سب سے پرانی کتاب1525ء کی ہے،میں نے کئی زبانوں کی ڈکشنریاں دیکھیں،کچھ رنگین،کچھ تھری ڈی طباعت والی کتابیں توعجیب و دلچسپ تھیں،ایک تصویر بھی ہے،جس میں ایک زہریلا ہندوستانی سانپ پھن نکالے کھڑاہے،ایسا لگتاہے کہ کتاب کے اوپر ہی بیٹھاہے،ایک کتاب پر نظر پڑی، جس پر’’ہندوتو‘‘لکھا تھا،اس کے مصنف رام داس گوڑہیں،انھوں نے یہ کتاب ڈاکٹر شیاماپرساد مکھرجی کو ہدیہ کی تھی،آشوتوش مکھرجی شیاماپرساد کے والد تھے، ’’ہندوتو‘‘کو پلٹ کر دیکھا،تو اس کے اندرہندورسوم و رواج کی تفصیلات درج ہیں،اس مجموعۂ کتب میں ایک ہی کتاب کے کئی ورژن بھی ہیں،مثلاً ’’عربین نائٹس‘‘(The Arabian Nights )کے30؍مختلف ورژن ہیں،زیادہ تر کتابیں قانون کی ہیں ،مگر حیاتِ انسانی، علمِ نباتات، فزکس، ریاضی، تاریخ، جغرافیہ،فلسفہ،معاشیات،فنونِ لطیفہ کی کتابیں بھی اس ذخیرے میں موجودہیں۔

ستاسی ہزار پانچ سو کتابیں اکٹھاکرنے والے آشوتوش مکھرجی کی زندگی اس دور میں کافی مشغول رہی ہوگی،انھیں علمِ ریاضی سے زیادہ شغف تھا،انھوں نے ریاضیات پر کئی تحقیقی مقالے لکھے،جواس دور کے مشہور اخبارات و رسائل میں شائع بھی ہوئے،1881ء میں علمِ ریاضی پر ان کا تحقیقی مقالہ کیمبریج میں شائع ہوا تھا،انھیں اس علم سے اتنی محبت تھی کہ جرمن اور فرنچ ریاضی دانوں کے کارناموں سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے انھوں نے یہ دونوں زبانیں سیکھ لیں،1887ء میں قانون کی ڈگری حاصل کی اور وکالت شروع کردی،کولکاتا ہائی کورٹ کے جج بنے اور1920ء میں کچھ عرصے کے لیے چیف جسٹس بھی رہے،ان کا شمار برطانوی ہندوستان کے بہترین ججوں میں ہوتا تھا۔
آشوتوش مکھرجی کی کتابیں بتاتی ہیں کہ ان کی دنیا کتنی بڑی تھی،حصولِ علم سے ان کی دلچسپی انھیں قانون کے علاوہ سنسکرت،انگریزی،فلسفہ وسائنس، مذہب، تاریخ،سماجیات جیسے موضوعات تک لے گئی،کیا کمال کی زندگی رہی ہوگی آشوتوش مکھرجی کی!وقت اور ذرائع ووسائل ہوتے،تواس عظیم کتاب دوست انسان کی زندگی کی کتابوں کے آس پاس تشکیلِ نوکرتا۔2014ء میں ان کی 150؍سالگرہ منائی گئی تھی،نیشنل لائبریری نے ان پر ایک سوینیر شائع کیا ہے، 1924ء میں ان کی وفات ہوگئی،اس کتابچے کے مطابق آشوتوش مکھرجی نے کولکاتا یونیورسٹی کو کافی بدل دیاتھا،پہلے یہ ایک امتحان لینے والا ادارہ سمجھا جاتا تھا،مگر ان کی وجہ سے طلبہ کے درمیان اس کی مقبولیت بڑھنے لگی،25؍سال کی عمر میں ہی وہ یونیورسٹی کے سینٹ ممبر ہوگئے تھے،1906ء سے1914ء تک وائس چانسلر رہے،1921ء میں پھر سے وائس چانسلر بنے،1908ء میں کولکاتا میتھ میٹیکل سوسائٹی قائم کی،جب نیشنل لائبریری کو امپریئل لائبریری کہاجاتا تھا،تب اس کی کونسل کے ممبر تھے،آشوتوش مکھرجی کو بنگال ٹائیگر کہاجاتا تھا۔

کولکاتا میں آشوتوش مکھرجی کے نام پر سڑک ہے،کالج ہے،مگر آشوتوش مکھرجی وہاں نہیں ہیں،وہ ان کتابوں کے بیچ ہیں،جنھیں پڑھتے ہوئے،جمع کرتے ہوئے انھوں نے اپنی زندگی تمام کردی،کولکاتا جائیں،تونیشنل لائبریری ضرور جائیں اور نیشنل لائبریری جائیں ،توآشوتوش مکھرجی کا ذخیرۂ کتب ضرور دیکھیں!
ترجمہ:نایاب حسن قاسمی

You may also like

Leave a Comment