Home اسلامیات سالِ نو کی آمد اور چند مفید باتیں

سالِ نو کی آمد اور چند مفید باتیں

by قندیل

ہلال احمدسلفی
سال کے ختم ہونے میں بس چند ساعت باقی رہ گئی ہیں، ذہن عجیب کیفیت میں مبتلا ہے، دیوار حیات سے ایک اینٹ اور کم ہوگئی ہے ویسے پیدا ہوتے ہی انسان کی زندگی کی اُلٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے،تاہم بتقضائے بشریت نسیان مغلوب رہتا ہے۔ ڈائری بھی چند اوراق پر سمٹ گئی ہے، ورق گردانی نے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا کہ مکمل ایک سال جس کے تین سو ساٹھ پینسٹھ دن اور ہماری کوتاہ دستی کا یہ عالم کہ کچھ صفحات ہی پُر ہوسکے ہیں۔ دوسری طرف یمین وشمال کاندھے پر سوار ملکوتی محرروں کی ڈائری کے صٖفحات کی گنتی مشکل ہوگی۔ آج جب ہم سال کے بالکل آخری مرحلے میں ہیں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ بہاریں آتی ہیں خزاں بھی گزرجاتا ہے زندگی میں خوشیوں کی بارش بھی ہوتی ہے اورغموں کا پہاڑ بھی سر ہوجاتا ہے لیکن آخری سفر کے زادِ راہ کی کیا تیاری ہے۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے قیمتی ہے اس کو درست اور صحیح نہج پر برتنا ہماری ذمے داری ہے۔ آج جب سال ختم ہورہاہے ہمیں اپنی زندگی کی ڈائری کو الٹنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ زندگی سے کتنا لطف اٹھایا اور کتنا دوسروں کو لطف پہنچانے کی کوشش کی؟ کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا؟ کتنی نمازیں فوت ہوئیں؟ کتنی سنن و نوافل کو خلوص و للٰہیت سے ادا کیا؟ یہ سال جو آج ہم سے رخصت ہوجائے گا اس کو ہم نے کس حال میں گزارا؟ کیا ہم نے پورے سال کو یونہی البیلے پن اور غیر ذمہ دارانہ طور پر گزارا یا پھر کبھی کسی ذمہ داری کا احساس بھی کیا؟ اللہ کی دی ہوئی عظیم نعمت صحت سے ہم نے کتنا فائدہ اٹھایا اور کتنا سستی اور کہالت میں ضائع کیا؟ کتنے دن تک ہم مرض میں مبتلا رہے اور شفایابی کے بعد کیا امور انجام دیئے؟ یا پھر پورے سال کسی مرض کا کوئی احساس نہیں ہوا؟ ہرناحیے سے زندگی کی ورق گردانی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا فیس بک بطور میموری ہمیں ایک سال بعد گزشتہ یادوں کو پیش کرتا ہے لیکن ہم ہیں کہ اپلوڈ کیے جارہے ہیں اپلوڈ کیے جارہے ہیں کبھی اپنے معاصی کو فارمیٹ یا ریمو کی فکر نہیں کرتے ہیں۔ اب سوچیں کہ جب آپ کا ہینڈسیٹ، پی سی لیپ ٹاپ چلتے چلتے ہینگ ہوسکتا ہے تو یہ زندگی جس کا کوئی اندازہ نہیں کبھی بھی ہینگ ہوسکتی ہے کبھی بھی فارمیٹنگ ڈیوائس کے پرزے بدلنے (علاج ومعالجہ) کی ضرورت پڑسکتی ہے، یہ سیٹ ہی ہے جب تک کام کررہا ہے کررہا ہے آخر ایک دن اس کو خراب ہونا ہے۔ اب ہم سوچیں کہ کب تک اس میں کام کرنا ہے اور کیسے کرناہے۔
اگر ہم اپنی ذمہ داری کاخیال رکھیں اورخود کا احتساب کریں تو بذات خود اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے ایام کس حال میں گزرے۔ آج مطالعے کی ڈائری جس میں مطالعہ کی کتابوں سے کچھ رکھ لیتاہوں دوبادہ پلٹا تو مایوسی ہاتھ لگی۔ وہ اس لیے کہ پورے سال اتنا مطالعہ نہیں کرسکے جتنا کرنا چاہیے، جس افسوس بھی ہوا اور ندامت بھی. اگر ہم تعلیم وتعلم سے وابستہ ہیں تو ہمیں زیادہ سے زیادہ اوقات کو کنٹرول کرنی کی کوشش کرنی چاہیے۔ تضیع اوقات عام بات ہے جسے ہمیں دوسروں کے منہ سے سنتے اور گدگد ہوتے رہتے ہیں لیکن خود اس پرغور نہیں کرتے اور ناہی اس کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آدمی ذہانت میں کتنا ہی باکمال ہو لیکن اپنی اکڑپُھوں سے مطالعہ کی ضرورت محسوس نہ کرے تو اس کی ذہانت میں پھپھوند لگ جاتے ہیں لیکن اس کے مقابل کم ذہین آدمی (بقول شیخ شعبان بیدار کوئی شخص کند ذہن نہیں ہوتا ہے) مسلسل پڑھائی کرے تو ذہن صیقل ہوجاتاہے۔ آدمی کوئی گھوڑانہیں جو نال پہن لی اور کھٹ کھٹ دوڑنا شروع کردیا پہلے رفتار پکڑنی ہوگی پھر آہستہ آہستہ گھوڑے کو پچھاڑنا ہوگا لیکن یہ تب ہوگا جب آدمی اپنا احتساب کرے گا خود کے بارے میں سوچے گا۔ کچھ کرنے کی تڑپ دل میں رکھے گا۔ دل کی تڑپ دھوئیں میں دبی آگ ہے جس کو کریدنے کی ضرورت ہے تاکہ آنچ سے سانچ بنایا جائے۔ مکمل منصوبہ بندی اور عزم بالجزم کے ساتھ کسی کام کو کرنا تکمیل کی ضمانت ہے لیکن پس و پیش میں رہنا اور آئے گئے کی طرح یونہی بے تکے پن میں زندگی بسر کرنا مزید ضخامت (سستی اور کاہلی) کاباعث بنتا ہے۔ زندگی میں ہرشخص طالب علم ہے وہ کچھ نا کچھ سیکھتا رہتا ہے۔ بچپنے میں جب ہم اپنے دوستوں سے کہتے کہ چلوبھئی نماز پڑھنے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ جمعہ سے پڑھوں گا اس کی دو وجہ ہوتی تھی پہلی یہ کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے مال ودولت کی فروانی محدود تھی بچے سردیوں میں تو جمعہ جمعہ ہی نہاتے تھے اس لیے جمعہ کو نماز شروع کرنے کی بات رکھتے دوسرے یہ ٹال مٹول کا بہترین طریقہ تھا۔
سوچیں اگر آپ کو ٹرین یا فلائٹ سے سفر کرنی ہے تو وقت سے قبل اسٹیشن یا ایئر پورٹ پہنچنا لازم ہے اب اگر آپ نے تاخیر کی تو اس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا ہوگا،یا بسا اوقات ٹرین یا فلائٹ مِس ہونے کا خدشہ ہو اور آپ ٹریفک میں پھنسیں ہوں تب وقت کی قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب روح حلقوم تک پہنچ جائے گی تو بولنا کجا ایک دقیقہ کی بھی فرصت نہیں دی جائے گی….. ایام کا مرور یونہی نہیں ہے کہ بس آیا اور چلا گیا بلکہ ہمارے لیے ایک نوید ہے جو مزید کچھ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پچھلے سال کتنے جاننے والے تھے جو آج ملک عدم کے راہی ہوچکے ہیں زندگی نے ان کے ساتھ بے وفائی کی اور چادرِخاک اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے۔ کتنوں نے اپنے جوانی کے لاثانی ایام والدین،رشتہ دار،احباب اور اہل وعیال سے دور وطن بیرون وطن گزار دی ہے،جشن کے موقع پر جشن منانا اورغم کے موقع پر غمی کا اظہار فطری ہے لیکن سالِ نو کے موقع پر جشن اور تقریبات کا انعقاد اٹپٹا محسوس ہوتا ہے، آدمی ٹھنڈے دل سے سوچے کہ آخر ہم کس بات کا جشن منائیں کیونکر ہم ایک دوسرے کو تہنیتی پیغامات بھیجیں؟ کس بات کی مبارکباد پیش کریں؟ کیا اس بات کا کہ آپ کی عمر ایک سال اور کم ہوگئی یا اس بات کہ آپ نے ان ایام میں معاصی و منکرات کے جو کام انجام دیئے ہیں ہم اس سے متفق ہیں۔۔ سال نو پر جشن منانا خودپرستی اور خود ستائی بھی ہوسکتی ہے جس کے پس پردہ اپنی ناکامیاں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنی کمیوں کا اعتراف کرنا اور اس کے ازالے کی کوشش کرنا بہترانسان کی علامت ہے۔ عمررفتہ میں جو اچھائیاں کی ہیں آنے والے وقت میں اس سے عمدہ کار کرنے اور بہتر نصیبہ حاصل کرنے کی سعیِ مسعود کریں۔
آج ہی یہ عہد کریں کہ ہم اپنا زیادہ سے زیادہ وقت کتب بینی میں گزاریں گے، علمی محافل میں شرکت کی کوشش کریں گے، علمی گفتگو کریں گے، اچھے لوگوں کو دوست بنائیں، شعائراسلامی کی پاسداری کی حتی المقدور کوشش کریں گے، اور یہ بھی ہدف رکھیں کہ اتنے دن میں کتنی کتابیں پڑھنی ہیں۔ تمام امور پورے منصوبہ بندی اور عزم صمیم سے کریں۔ اس سے آپ کا وقت بچے گا اور لوگوں میں وقار بڑھے گا۔ اللہ ہمارے لیے اور پوری امت مسلمہ کے لیے آنے والے سال کو پرسکون بنائے۔(آمین)

You may also like

1 comment

Hilal Ahmad 1 جنوری, 2018 - 09:23

بہت بہت شکریہ قندیل اور ادارہ قندیل
آپ نے ہمیں اپنا فلیٹ فارم دیا

Leave a Comment