عبدالباری قاسمی ؔ
زہر عشق نواب مرزاشوقؔ لکھنوی کی معرکۃ الاراء مثنوی ہے ،یہ مثنوی اختصار،شدت جذبات،زبان و بحان کی سادگی،محاورات کی برجستگی،مکالمہ نگاری،خوبصورت موسیقیت اور بہترین تہذیبی عکاسی کی وجہ سے ادب میں بہت اہم مقام رکھتی ہے اور اس کا شمار اردو کی اہم ترین مثنویوں میں ہوتا ہے،زہر عشق گرچہ ایک مختصر عشقیہ داستان ہے ،اس میں نہ بہت سے مناظر ہیں اور نہ ہی کرداروں کی بھر مار ،نہ مافوق الفطرت عناصر ہیں اور نہ ہی بادشاہ و ساحر ،اس کے باوجود مرزا شوقؔ نے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ان کی مہارت پر اچھے اچھے ادیب و شاعر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں ،انہوں نے لکھنؤ کی بیگماتی زبان ،ضرب الامثال اور محاورات کو فنکارانہ انداز سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کی معاشرتی جھلکیوںں کو جس لطیف پیرایہ میں سمویا ہے قابل دید ہے ویسے نمونے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں ،زہر عشق کا واقعہ گرچہ روایتی ہی ہے؛مگر جذبات نگاری اس قدر اتم درجہ ہے کہ قاری اسے اپنا رنج و غم سمجھنے لگتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ایک فرضی قصہ کو شوقؔ اصل اور حقیقت کا روپ دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو غلط نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے نقادان فن نے اس کی ادبی حیثیت و اہمیت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اس کے واقعہ کو بھی سچا قرار دینے پر مجبور ہوئے ہیں اور مرزا شوقؔ کے پہلے تذکرہ نگار عطاء اللہ پالوی نے تو اسے خود شوق ؔ کاذاتی واقعہ قرار دیا ہے ،اس میں ۴۵۵ اشعار ہیں بیان کا انداز بھی عام مثنویوں کی طرح ہی ہے؛مگر شوقؔ نے اپنے فن کو بروئے کار لاکر اسے منفردمقام پر کھڑا کر دیا ہے ورنہ اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں اس کے باوجود انہوں نے جذبات نگاری اور سوزوگداز کے ذریعہ ان خامیوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور قاری پرایسا گہرااثر ہوتا ہے کہ وہ فنی خامیوں پر توجہ نہیں دے پاتا اس مقالہ میں میں نے زہر عشق کا مختلف حیثیتوں سے جائزہ لیں گے جس سے جہاں اس کی ادبی مسلہ حیثیت واضح ہو جائے گی وہیں مرزا شوق ؔ کا ادبی مقام بھی نمایاں نظر آنے لگے گا ۔
نواب مرزا شوقؔ کی مختصر حالات زندگی:
حکیم تصدق حسین نام ،نواب مرزا عرفیت اور شوقؔ تخلص تھا ،انکے والد کا نام آغا علی خاں تھا ،خاندانی پیشہ طبابت تھا، 1783 ء میں لکھنؤ میں پیداہوئے ،انہوں نے ایسے عہد میں آنکھیں کھولی تھیں کہ جب لکھنؤ میں ہر طرف شعر و سخن کا بول بالا تھا،اس ماحول نے انہیں بھی متاثر کیااور دیگر شعرا کی طرح غزلوں کے ذریعہ اپنی شعری سفر کا آغاز کیا اور خواجہ آتش ؔ کو اپنا استاذ بنایا ،شوخی،عیش پسندی اور مز اج میں رنگینی بچپن سے ہی تھی ا ور اس ماحول میں ان صفات کا پیدا ہونا بھی ناگزیر تھا ،واجد علی شاہ کے دربار سے وابستہ ہوئے جہاں انہیں پانچ سو روپیے وظیفہ ملتا تھا،جو ن 1871 ء کو لکھنؤ میں ہی ان کا انتقال ہوا ۔
شعری سرمایہ:
شوقؔ نے چوں کہ شاعری کا سفر غزل سے شروع کیا تھا ؛اس لیے غزلوں کے کچھ نمونے اور ایک واسوخت اور مثنویات ملتے ہیں،انتخاب مرزاشوقؔ کے مرتب شاہ عبدالسلام نے ان کے غزلوں کے نمونے مختلف مقامات سے یکجا کرکہ اکتالیس اشعار تک پہنچایا ہے ؛مگر ان کی غزلوں میں مکمل طور پر مثنوی کا رنگ غالب ہے،ان کی غزلیہ شاعری شوخی و ندرت ،سوز و گدازاور وارفتگی سے خالی ہے۔ غزلیہ شاعری کا نمونہ
جلوے نہیں دیکھے جو تمہارے کئی دن سے اندھیر ہے نزدیک ہمارے کئی دن سے
غزل کے علاوہ ایک واسوخت ان کا ملتا ہے ،اس میں اکتالیس بند مسدس کی ہیئت میں ہیں ،ان کے واسوخت میں بند ش کی چستی اور طبیعت کی روانی دیکھی جا سکتی ہے نمونہ
اب تو ہے اور ہی کچھ چہرۂ زیبا کی بہار دن میں آرائش تن ہونے لگی سو سو بار
مثنویات شوق:
مرزا شوق ؔ کا اصل سرمایہ ء شاعری ان کی مثنویات ہیں ان کی مثنویوں کے متعلق خلیق انجم نے لکھا ہے کہ’’نواب مرِزا شوق لکھنوی کی مثنویاں دبستان لکھنؤ کے ادبی ذخیرے کا قابل قدر حصہ ہیں ،یہ ٹھیک ہے کہ کہانی کے لحاظ سے تو ان کی تینوں مثنویاں فریب عشق ،بہار عشق اور زہر عشق کا احوال ایک سا ہے کہ نہ واقعات کے پیچ و خم ہیں ،نہ کردار نگاری کی رنگا رنگی ؛لیکن زبان لکھنؤ کی نفاست اور لطافت کی جیسی آئینہ داری یہ مثنویاں کرتی ہیں وہ بات دوسروں کے یہاں اس انداز سے نظر نہیں آتی‘‘(۱)انکی مثنویوں کی تعداد کے متعلق محققین میں اختلاف ہے ،خم خانۂ جاوید میں ان کی مثنویوں کی تعداد چار لکھی ہے ،بہار عشق،زہر عشق،فریب عشق اور لذت عشق ،عبدالماجد دریابادی نے اس تعلق سے اپنا خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’مثنویاں منسوب تو ان کی جانب کئی ہیں ؛لیکن لذت عشق کی زبان قطعا شوقؔ کی زبان نہیں ‘‘(۲)گیان چند جین نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ’’ اس کی زبان شوق تو درکنار اس عہد کے دوسرے مثنوی نگاروں سے بھی پست ہے،اس کی زبان پکار پکار کر کہ رہی ہے کہ میں شوقؔ کی تراوش خامہ نہیں ہوں‘‘(۳)ان کے علاوہ حالیؔ ،ڈاکٹر ابوللیث صدیقی اور امداد امام اثر نے چار مثنویوں کو ان سے منسوب کیا ہے؛مگر شوقؔ کے پہلے تذکرہ نگارعطاء اللہ پاؤی اور رشید حسن خاں نے تین ہی مثنویوں کو ان سے منسوب کیا ہے اور عطاء اللہ پالوی نے چوتھے مثنوی کو شوق کے بھانجے آغا حسن نظمؔ کی طرف منسوب کیا ہے ۔
فریب عشق:
ویسے تو اس میں بھی اختلاف ہے کہ شوقؔ کی پہلی مثنوی کون سی ہے ؛مگر راجح قول کے مطابق شوقؔ کی پہلی مثنوی فریب عشق ہے یہ 1846 ء میں مکمل ہوئی ،اس میں 428اشعار ہیں ،اس مثنوی کا تعارف عطاء اللہ پالوی نے اس انداز سے کرایا ہے’’اس مثنوی کے ذریعہ اہل لکھنؤ کو علی الاعلان اس سے آگاہ کیا کہ اس وقت کربلا ،درگاہ اور وہ سارے مقامات مقدسہ جہاں جہاں مذہبی آڑلے کر اجتماع مردوزن ہو کرتا ہے شبستان عیش و آوارگی کا اڈہ بنے ہوئے ہیں اور ہماری عورتیں وہاں ہر گز تزکیہ ء نفس کیلیے نہیں ؛بلکہ تسکین نفس کے لیے جایا کرتی ہیں ‘‘۔
بہار عشق:
یہ مرزا شوقؔ کی دوسری مثنوی ہے 1847 ء میں منظر عام پر آئی،اس میں 842اشعار ہیں ،یہ بھی اس عہد کی تہذیبی عکاسی کی آئینہ دار ہے،اس میں زبان ،محاورے اور روز مرہ کی چاشنی کے ساتھ ساتھ سادگی اور سلاست کی عمدہ مثال ہے ،سراپا نگاری بھی اس میں خوب ہے عطاء اللہ پالوی نے اسے عجیب و غریب مثنوی قرار دیا ہے ۔
زہر عشق:
شوقؔ کی تیسری مثنوی زہر عشق ہے،اس کی بھی سن تصنیف میں مختلف آراء نظر آتے ہیں ،شاہ عبدالسلام نے 1860 ء سے1882 ء کے درمیان قرار دیا ہے ،نظامی بدایونی نے 1861 ء؛مگر اس باب میں بھی راجح قول رشید حسن خاں کا ہے ،انہوں نے سن تصنیف 1861 ء کا قریبی زمانہ قرار دیا ہے ،اس میں 455اشعار ہیں ۔
مثنویات شوق ؔ کا ماخذ:
شوق ؔ کی مثنویوں کے اصل ماخذ کیا ہیں؟ اس سلسلہ میں بھی محققین آپس میں بہت اختلاف آراء کے شکار ہوئے ہیں،بعض حضرات نے مثنویات مومنؔ کو ماخذ قرار دیا ہے تو بعض نے میر اثر کے خواب و خیال کو الطاف حسین حالیؔ بھی انہیں لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے خواب و خیال کو ماخذ قرار دیا ہے ،اس سلسلہ میں راجح قول گیان چند جین نے پیش کیا ہے کہ’’حقیقت یہ ہے کہ شوقؔ نے اپنی مثنویوں کا موضوع خود ہی اختراع کیا ،محض وصل کے بیان میں اس نے دوسرے شعراء کے کلام کو پیش نظر رکھا ،بہار عشق میں میرؔ کے انداز میں تو صیف عشق بھی ہے ،یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ شوقؔ نے کسی ایک شاعر سے متاثر ہوکر یہ مثنویاں لکھیں؛ بلکہ اس نے میر اثر ،مومن اور شاید قلق ؔ سب کے شعلہ سے اپنا چراغ روشن کیا ‘‘(۴)گیان چند جین دوسری جگہ اس انداز سے مومن ؔ اور شوقؔ کی مماثلت کو بیان کرتے ہیں ’’مومن ؔ اور شوقؔ کی مماثلت محض وصل کے اشعار تک محدود نہیں ،یہ محض الفاظ یا متفرق اشعار کی مماثلت نہیں ؛بلکہ مفہوم اور موضوع کی یکسانی ہے جس سے کوئی شبہ نہیں رہتا کہ شوقؔ نے مومنؔ کی تمام مثنویوں کا مطالعہ کیا تھا،ان کے خیالات اور الفاظ اس کے دماغ میں گھومتے رہتے تھے ؛لیکن شوق ؔ کی کوثر سے دھلی زبان،وحدت تاثراور شدت جذبات اس کی مثنویوں کو مومنؔ سے کہیں آگے بڑھا دیتی ہے‘‘(۵)۔رشید حسن خاں نے حالیؔ کے قول خواب و خیال سے ماخوذ کو اس انداز سے رد کیا ہے کہ ’’حالیؔ نے یہ جو لکھا ہے کہ خواب وخیال کے اکثر مصرع اور شعر بہار عشق میں تھوڑے تھوڑے تفاوت سے موجود ہیں تو یہ بات کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ‘‘(۶)ان اقوال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مثنویات شوقؔ کے اصل ماخذ کیا ہیں؟؛مگر یہ حقیقت مسلم ہے کہ شاعر جن چیزوں کا مطالعہ کرتا ہے اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو اس کے کلام میں آتا ہی ہے ،صرف اس بنا پر کسی کلام کو مکمل طور پر ماخذ قرار دینا درست نہیں اور رہا مسئلہ مرزا شوقؔ کا تو انہوں نے جس انداز سے اس عہد کی تہذیبی عکاسی کی ہے کہ نہیں لگتا کسی ایک کے کلام سے مکمل ماخوذ ہو ۔
زہر عشق کا قصہ:
ایک دولت مند تاجر کی نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی جو اکلوتی تھی جس کی وجہ سے اس کے والدین اس سے بے انتہا محبت کرتے تھے ،اس کی خوبصورتی کو اس اندازسے شوق ؔ نے بیان کیا ہے
ثانی رکھتی نہ تھی وہ صورت میں غیرت حور تھی حقیقت میں
سبز نخل گل جوانی تھا حسن یوسف فقط کہانی تھا
ایک مرتبہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ وہ لڑکی بام پر گئی ،وہیں ایک پڑوسی لڑکے سے نگاہ چار ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہو گئے ،شوق ماما کے ذریعہ لڑکی نے خط بھجواکر اپنی محبت کا اظہار کیا ،اس کے بعد خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور چھپ کر ملاقاتیں بھی شروع ہو گئیں ؛مگر لڑکی کے والدین اس حقیقت سے واقف ہو گئے اور انہوں نے لڑکی کو بنارس بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ،اس سے لڑکی بہت دلبرداشتہ ہوئی اور اس نے جدائی پر موت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کر لیا ،پھر آخری ملاقات ہوئی،لڑکی نے اپنے فیصلے سے لڑکے کو آگاہ کیا اور مختلف نصیحتیں کیں ،لڑکے نے سمجھانے کی کوشش کی؛مگر وہ نہیں سمجھی اور اس سے رخصت ہونے کے بعد زہر کھا لیا،لڑکا ابھی پس و پیش میں ہی مبتلا تھا کہ اس کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا اور شور برپا ہوا جس کی وجہ سے عاشق کو اندازہ ہواکہ شاید وہ اپنا فیصلہ وفا کر گئی
مر گئی تھی جو مجھ پہ وہ گلفام زندگی ہو گئی مجھے بھی حرام
اور عاشق نے بھی زہر کھا لیا جس کی وجہ سے تین دن تک غشی طاری ر ہی،اسی دوران اس نے لڑکی کو خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی وصیت یاد دلا رہی ہے ،فورا لڑکے کو ہوش آگیا اور لوگ مبارکباد دینے لگے ۔
زبان و بیان:
زبان و بیان کے اعتبار سے یہ مثنوی امتیازی مقام رکھتی ہے ؛اس لیے کہ شوقؔ لکھنؤ کی بیگماتی زبان ،ضرب الامثال اور محاورات پر کافی دسترس رکھتے تھے ،انہوں نے جس سادگی،صفائی،بے ساختگی اور برجستگی سے اپنی مثنوی لکھی ہے کہ قاری کو ذ رہ برابر بھی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا اور وہ ان کے زبان و بیان میں کھو جاتا ہے ،ڈاکٹر شمیم انہونوی نے اس تعلق اس انداز سے اظہار خیال کیا ہے کہ ’’میر انیس اور مرزا شوق نے زبان و بیان کے ایسے کارنامے پیش کیے جن کی مثال لکھنوی ادب میں ملنی محال ہے،شوق کی مثنوی کی سب سے خاص خوبی اس کی سادہ و شستہ زبان ہے جہاں تکِ زہر عشق کی زبان کا تعلق ہے اس دور کی کوئی بھی شعری زبان اس پر سبقت نہیں لے جا سکتی ‘‘(۷)۔
کھاتے ہو نہ پیتے ہو نہ سوتے ہو روز اٹھ اٹھ کے شب کو روتے ہو
نہیں معلوم کون ہے وہ چھنال کر دیا میرے لال کا یہ حال
میرے بچے کی جو کڑھائے جان سات بار اس کو میں کروں قربان
زہر عشق کے کردار :
اس مثنوی میں عاشق و معشوق دونوں کے والدین ایک شوق ماما ا ور عاشق کے چند دوستوں کو بطور کردار پیش کیا گیا ہے ،اس میں سب سے اہم ، مضبوط اور جری کردار لڑکی کا ہے،کمال یہ ہے کہ اس میں کسی بھی کردار کا نام نہیں ہے ،صرف مہ جبیں سے فراقؔ نے محبوبہ کا نام متعین کرنے کی کوشش کی ہے ،عام طور پر داستانوں میں عاشق کی طرف سے اظہار عشق ہوتا ہے اور عاشق کو اپنی محبوبہ کو پانے کے لیے صحراؤں کے خار چھاننے پڑتے ہیں؛مگر اس مثنوی میں اس کے بر عکس محبوبہ ہی کی طرف سے اظہار ہوتا ہے ،پھر خط کا جواب اس انداز سے دیتی ہے جیسے چھیڑنے اور چڑھانے لے لیے خط لکھا ہو اور بے محنت و مشقت حاصل بھی ہو جاتی ہے اور فراق و جدائی سے اس قدر نفرت کرتی ہے کہ بہت جلد اپنی جان بھی قربان کر دیتی ہے اور لڑکا آخر تک گھبراتا اور بدنامی سے ڈرتا نظر آتا ہے
کہ گئی تھی جو وہ کہ کھاؤں گی زہر میں یہ سمجھا کہ ہو گیا وہی قہر
گو حیا سے نہ اس کا نام لیا دونوں ہاتھوں سے دل کو تھام لیا
جذبات نگاری:
اس مثنوی میں جذبات نگاری بہت شدید ہے ،شوق کا کمال ہے کہ اس انداز سے انہوں نے جذبات کی عکاسی کی ہے کہ موہوم چیزیں بھی محسوس معلوم ہونے لگتی ہے اور انہیں جذبات فیصلوں پر ہی اس کہانی یلا تمثیل کا انحصار خواہ عاشق کی طرف سے جذبات کا اظہار ہو یا معشوقہ اور والدین کی طرف سے سخت سے سخت دل کو پگھلانے اور آنسو بہانے کی صلاحیت رکھتی ہیں ،آخری ملاقات میں جو مہ جبیں کی زبانی نصیحت ہے ا س سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے
اشک آنکھوں سے مت بہائیے گا ساتھ غیروں کی طرح جائیے گا
آپ کاندھا نہ دیجیے گا مجھے سب میں رسوا نہ کیجیے گا مجھے
آنسو چپکے سے دو بہا لینا قبر میری گلے لگا لینا
عاشق کی زبانی اس انداز سے جذبات کا اظہار ہے
مجھ پہ یہ دن تو کبریا نہ کرے تم مرو میں جیوں خدا نہ کرے
جان دیدوگی تم جو کھا کر سم میں بھی مر جاؤں گا خداکی قسم
آخری ملاقات کے منظر کے متعلق خواجہ احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ ’’یہ منظر نہایت دل دوز ہے اور اثر انگیزی کے لحاظ سے شاید ہی اس کی کوئی مثال اردو لٹریچر میں مل سکے ‘‘(۸)
لکھنؤ کی تہذیبی جھلکیاں:
شوقؔ کی اس مثنوی میں سوزو گداز ،عمدگئی زبان،سلاست،سادگی ،حسن بیان اورمکالمہ نگاری کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کی تہذب کی عکاسی بھی نظر آتی ہے ،مسجدوں میں روشنی کرنا ،درگاہوں میں چوکی بھرنا ،نظر بد سے بچنے کے لیے کالا دانہ اتارنا ،رائی لون نکالنا ،جمعرات کو درگاہوں کو جانا ،نوچندی میلہ ،مارے غم کے بال کھلے رکھ کر میت کے ساتھ جانا ،بر پر قرآن پڑھنا ،فاتحہ دینا،مٹی دینا،بن بیاہی لڑکی کے جنازے پر سہرا باندھنا اور منت بڑھانا وغیرہ لکھنؤ کی تہذیب کا حصہ تھا ،یہ چیزیں اس مثنوی میں نظر آتی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرزا شوق ؔ لکھنؤ کی تہذیب کو کس قدر باریکی سے جانتے اور اس کو مثنوی میں بیان کرتے ہیں ۔
زہر عشق کی ادبی اہمیت:
زہر عشق کے اندر وہ تمام خوبیاں اتم درجہ موجود ہیں جن کا کسی ادبی شہ پارے میں پایا جانا ضروری ہے ،مرزا شوق نے زبان و بیان محاورات و ضر ب الامثال ،شدت جذبات ،مکالمہ نگاری ،منظر کشی اور لکھنؤ کی تہذیب کو جس انداز سے اس مثنوی میں سمویا ہے یہ صرف اور صرف ان کا ہی حصہ ہو سکتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے نقادان فن نے نہ صرف یہ اس کی ادبی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا ہے ؛بلکہ معرکۃ الاراء اور چوٹی کی مثنویوں میں اس کو شمار کیا ہے ،خواجہ احمد فاروقی نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ ’’مثنوی زہر عشق اردو شاعری میں زبان و بیان ،سیرت نگاری ،نفسی واردات اور اپنےِ خیالی رنگ کے اعتبار سے بڑی مکمل چیز ہے ،اس میں لکھنؤ کے زوال پذیر ماحول کی اچھی ترجمانی کی گئی ہے ،اس مرقع میں جتنی تصویریں ہیں و ہ صاف اور روشن ہیں ‘‘(۹)سید سجاد ظہیر نے ا س کی ادبی اہمیت کا اس انداز سے اعتراف کیا ہے ’’مرزا شوق ؔ کی مثنوی زہر عشق تاثر،سلاست،شیریں بیانی،حقیقت نگاری اور گہری الم ناکی کی وجہ سے اردو ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے ‘‘،زہر عشق کے اندر چند فنی خامیاں ضرور ہیں جذبات نگاری میں اس قدر بہ گئے کہ عورت کی زبانی ایسے الفاظ کہلوا دیے جو بازاری عورتیں کہتی ہیں ،اسی طرح قافیہ کے التزام میں بھی ان سے چوک ہوئی ہے
خاک میں ملتی ہے یہ صورت عیش پھر کہاں ہم کہاں یہ صورت عیش
اس شعر میں ایک جگہ قافیہ ہے اور دوسری جگہ کہاں ہے ،حالاں کہ قافیہ بندی میں اتحاد لازمی چیز ہے ،اس کے باوجود زبان وبیان اور دیگر فنی محاسن کا انہوں نے اس مختصر مثنوی میں ایسا جادو بکھیرا ہے کہ اس کی خامیوں نے بھی خوبیوں کا لبادہ اوڑھ لیا ہے ،پروفیسر گیان چند نے اس کی ادبی اہمیت کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ’’ہیروئن نے دنیا کے فانی ہونے پر جو عبرت انگیز تقریر کی ہے اردو مثنویوں میں اس کا جواب نہیں ،ا ن اشعار میں وہ ساری کیفیات ہیں جس کی نظیر مشکل سے ہی کسی زبان کے ادب میں ملے گی ،معصوم آنسوؤں کی بوندیں اشعار کے قالب میں ڈھل گئی ہیں ،زبان و بیان کے اعتبار سے شوق کی یہ مثنوی بے مثال ہے‘‘(۱۰)،اس کی ادبی اہمیت کے مسلم ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ سحرالبیان اور گلزار نسیم کی طرح اس مثنوی کی تعریف میں نقادوں نے اس قدر لکھا ہے کہ کسی طویل مثنوی کے متعلق بھی اس قدر نہیں لکھا گیا۔
خلاصہ:
مثنوی زہر عشق ایک مختصر عشقیہ مثنوی ہے ،جو نواب مرزا شوقؔ کی معرکۃ الآراء تصنیف ہے ،اس میں جذبات و احساسات کو کردار کی زبانی اس سادہ ،صاف اور نادر الفاظ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی ،چوں کہ شوقؔ نے اپنی پوری زندگی لکھنؤ میں بسر کی ؛اس لیے وہاں کی بیگماتی زبان اور تہذیب اور محاورات و ضرب الامثال پر کافی مہارت رکھتے تھے انہوں نے نہایت اچھوتے انداز میں وہاں کی تہذیب کو اشعار کے قالب میں ڈھالا کہ پوری دنیائے اردو ادب اسے ہاتھوں ہاتھ لینے پر مجبور ہو گئی اور آج بھی ا س کی اہمیت و افادیت مسلم ہے ،بعض حضرات نے ان پر ابتذال کا بھی الزام عائد کیا ہے ؛مگر یہ صحیح نہیں ہے انہوں نے جس معاشرہ کی تہذیب کو اپنی مثنوی میں جگہ دی ہے اگر اس کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو خود بہ خود الزام بے کار محض ثابت ہو جائے گا ۔
حوالہ جات:
(۱) مثنویات شوق صفحہ نمبر ۹(۲)ز ہر عشق مرتبہ مجنوں گورکھپوری ص:۵۶(۳)اردو مثنوی شمالی ہند میں جلد دوم ص:۵۱۱(۴)ایضاً ص:۱۲۱(۵)ایضاً ۱۲۱(۶)مثنویات شوق ص: ۱۳۲(۷)مثنوی زہر عشق مرتبہ ڈاکٹر شمیم انہونوی ص:۲۱(۸)رسالہ نواب مرزا شوق (۹)زہر عشق شمیم انہونوی ص:۳۲(۱۰)اردو مثنوی شمالی ہند میں ۱۲۵۔
9871523432
زہر عشق کی ادبی اہمیت
previous post