Home خاص کالم زندہ قومیں اپنے تمام محسنوں کو یاد رکھتی ہیں

زندہ قومیں اپنے تمام محسنوں کو یاد رکھتی ہیں

by قندیل

عمران صدیقی ندوی
تین طلاق کے پورے معاملے سے جو لوگ واقف ہیں ،وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پورے معاملے کو حل کرنے کے لیے کن کن لوگوں نے کیا کیا کوششیں کی ہیں، اسی سلسلے کی ایک کوشش وہ تھی جو پارلیمنٹ میں جناب اسدالدین اویسی صاحب نے کی تھی،اس میں کوئی شک نہیں کہ اسدالدین اویسی صاحب جیسا بیباک اور حق گو لیڈر چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا،واقعی انہوں نے پارلیمنٹ میں پوری قوم و ملت کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا؛لیکن اس پورے معاملے کو چند جوشیلے لوگوں نے اس طرح سے پیش کیا گویا کہ تین طلاق بل کے سلسلے میں صرف جناب اسدالدین اویسی صاحب نے ہی کوشش کی ہے اور باقی سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں کئی لوگوں نے کوششیں کیں اور دن رات ایک کر دیا،ہمارے نزدیک اس پورے معاملے کو حل کرنے اور ہندوستان کی اکثریت کے سامنے اس مسئلے کی صحیح نوعیت رکھنے کے لیے دو شخصیات نے بہت ہی اہم رول ادا کیا،ایک حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب دامت برکاتہم اور دوسرے جناب فیضان مصطفی صاحب۔
تین طلاق کا معاملہ خالص مذہبی معاملہ تھا،تین طلاق کے غلط استعمال کی وجہ سے جو پیچیدگیاں پیدا ہو رہی تھیں، اگر مذہبی طبقے یعنی علماءِ کرام نے اس کو خود ہی حل کر لیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی،سپریم کورٹ میں تین طلاق کے سلسلے میں جو پٹیشن دائر کی گئی تھی اس کی بنیاد تین طلاق کی وجہ سے عورت پر ہونے والے ظلم کو بنایا گیا تھا اور اس بات کا کوئی انکار بھی نہیں کر سکتا ہے کہ تین طلاق کے اکثر واقعات میں عورت ہی مظلوم ہوتی ہے،سپریم کورٹ کے نزدیک اس کا یہ حل تھا کہ تین طلاق کو کالعدم قرار دے دیا جائے اور طلاق دینے والے ظالم مرد کو سزا دی جائے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو اور مسلم پرسنل لا بورڈ کو اپنی اپنی رائے دینے کے لیے کہا؛ لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ نے بجائے اس کے کہ وہ سپریم کورٹ کے سامنے ایسی بات رکھتی، جس سے پورا معاملہ حل ہو جاتا اور شریعت میں مداخلت بھی نہ ہوتی، یہ بات ثابت کرنے میں اپنی پوری صلاحیت لگا دی کہ تین طلاق قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور اس میں کوئی فیصلہ دینا شریعت میں مداخلت کے مترادف ہوگا، یہ ایک ایسی بات تھی، جس سے سپریم کورٹ کو کوئی دلچسپی نہیں تھی، اسے تو عورتوں پر ہونے والے ظلم کو روکنا تھا، جس کا کوئی حل مسلم پرسنل لابورڈ نے نہیں پیش کیا۔
علما کے پورے طبقے میں صرف ایک ہی مرد مجاہد تھا، جس نے پوری جرأت اور بے باکی کے ساتھ اس معاملے کا ایسا حل پیش کیا کہ اگر ان کی بات مان لی جاتی، تو معاملہ کورٹ تک ہی محدود رہتا اور حکومت کو مداخلت کا موقع بھی نہ ملتا،مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے تین باتیں رکھی تھیں:
مولانا نے پہلی بات یہ کہی تھی کہ ہمیں تاویل کرنے کے بجائے اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ تین طلاق کے غلط استعمال کی وجہ سے عورتوں پر ظلم ہو رہا ہے،ٹی وی چینل پر بجائے اس کے کہ ہم مظلوم عورتوں کی حمایت کرتے اور اس کا کوئی حل پیش کرتے ،ہم نے تین طلاق کے جائز ہونے کی دلیلیں اس انداز میں پیش کی کہ گویا ہم ظالم مرد وں کی حمایت کر رہے ہوں،ہمارا یہ رویہ اسلام کی بدنامی کا باعث بنا،اگر ہم نے شروع ہی میں اس بات کا اعتراف کر لیا ہو؛تا کہ عورتوں پر ظلم اسلام کی وجہ سے نہیں؛ بلکہ ظالم مردوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، تو اس پورے معاملے میں ہمارا موقف صاف رہتا اور ہم ظالم لوگوں کی فہرست میں شمار نہ کئے جاتے۔
مولانا نے دوسرے بات یہ کہی تھی کہ جب سپریم کورٹ اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ بیک وقت تین طلاق کی شکل میں رجوع کا کوئی امکان نہیں ہوتا ہے، اسی لیے تین طلاق کو ایک مانا جائے یا پھر اس کو کالعدم قرار دے دیا جائے،تو بجائے اس کے تین طلاق کو کالعدم قرار دے دیا جائے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ تین کو ایک مان لیا جائے ،جس کی اسلام میں گنجائش موجود ہے،اس طرح اس کو اسلام میں مداخلت کے بجائے یہ کہا جا سکتا تھا کہ خاص حالات کی وجہ سے اسلام کی ایک رائے کے بجائے دوسری رائے کو اختیار کیا لیا گیا ہے۔
تیسری بات مولانا نے یہ کہی تھی کہ ہمیں کورٹ سے یہ بھی مطالبہ کرنا چاہئے کہ تین طلاق دینے والے مرد کو کورٹ اپنی صوابدید پر سزا دے ،جو کہ اسلام کے مزاج کے عین مطابق تھا،سزا کا مطالبہ کرنے کے دو فائدے ہوتے ،ایک تو بیک وقت تین طلاق دینے والوں پر روک لگتی اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ دنیا کو یہ پیغام جاتا کہ اسلام اور عام مسلمانوں کو مظلوم عورتوں سے ہمدردی اور ظالم مردوں سے نفرت ہے۔
اگر مولانا کی یہ تینوں باتیں مان لی جاتیں اور سپریم کورٹ میں اپنا موقف رکھتے وقت یہ تینوں باتوں کا لحاظ کیا جاتا، تو معاملہ سپریم کورٹ میں ہی حل ہو جاتا اور بات اتنی آگے نہ بڑھتی؛ لیکن ہم نے مولانا کی ایک نہ سنی اور اس جوش میں کہ ہم شریعت میں ذرہ برابر بھی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے، ایک ایسا دروازہ کھول دیا ہے، جس کے بعد شریعت میں مداخلت کرنا بہت آسان ہو گیا ہے، اب حکومت جب چاہے بل بنا کر شریعت میں مداخلت کر سکتی ہے۔
یہ آزاد ہندوستان میں دوسرا ایسا واقعہ ہے، جس میں مسلمانوں کے جوش نے ان کو ایسا نقصان پہنچایا ہے کہ جس کا تدارک سالوں میں بھی ممکن نہیں۔پہلی بار بابری مسجد کے معاملے میں یہی ہوا تھا،حضرت مولانا علی میاں ؒ نے ایک ایسا حل پیش کیا تھا اور اس پر حزبِ مخالف کو تیار بھی کر لیا تھا، جس میں مسجد بھی باقی رہتی اور مندر کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا؛ لیکن اس وقت کے جوشیلے قائدین نے یہ کہہ کر مولانا علی میاںؒ کی بات کو رد کر دیا کہ ہم ایک انچ زمین نہیں دیں گے؛ لیکن بعد میں جو کچھ ہوا ،وہ ہم سب کے سامنے ہے،ایک انچ کے بجائے پوری مسجد ہاتھ سے نکل گئی اور ہزاروں مسلمانوں کے جان و مال بھی ضائع ہوئے،ہماری قوم کا یہ بھی ایک عجیب مسئلہ ہے کہتھوڑا سابھی نہ دینے کی ضد میں سب کچھ دینا پڑ جاتا ہے،ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ٹکراؤ سے مسلمانوں کو ہمیشہ نفع کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے اور مذاکرات سے ہمیشہ مسلمانوں کو نفع زیادہ اور نقصان کم ہوا ہے۔
دوسری اہم شخصیت جس نے تین طلاق بل کے معاملے میں مسلم قوم کی اچھی نمائندگی کی، وہ ڈاکٹر فیضان مصطفی ہیں،فیضان صاحب جہاں قانون کے ماہر ہیں، وہیں اپنی بات رکھنے کا سلیقہ بھی خوب جانتے ہیں، ٹی وی ڈبیٹ میں اگر کسی نے اس مسئلے پر سب اچھی بحث کی اور دنیا کے سامنے مسلمانوں و اسلام کا صحیح موقف رکھا ،تو وہ فیضان مصطفی ہیں،وہی وہ شخص ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے حکومت کی بل کی قانونی گرفت کی اور اس میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی،ان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کی بات ہر حلقے میں سنی جاتی ہے، ان کے مضامین انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں ،جو ایک طرح سے مسلمانوں کی بات جدیدتعلیم یافتہ ہندوومسلم حلقے تک پہنچانے کا بہت بڑا سبب بنتا ہے،آج ہماری قوم کو جہاں اسدالدین اویسی صاحب جیسے سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے، وہیں ہمیں مولانا سید سلمان حسینی ندوی جیسے مذہبی رہنماؤں کی اور فیضان مصطفی صاحب جیسے ماہر قانون کی بھی اشد ضرورت ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تمام محسنین کو یاد رکھیں اور ان کے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے اور ان جیسے ہزاروں محسنین ہماری قوم کو عطا فرمائے۔( آمین ثم آمین)

You may also like

Leave a Comment