گزشتہ پندرہ برسوں سے روس اور امریکا، افغانستان کے حوالے سے تقریباً یکساں مقاصد رکھتے ہیں، جیسا کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی جنت بننے سے روکنا اور ملک کو بڑی افراتفری سے بچا کر رکھنا۔ ان ہی مشترکہ مقاصد نے ان دو ممالک کو اکٹھے کام کرنے پر مجبور کیا۔ لیکن پس پردہ ان دونوں کے درمیان بہت سے اہم اختلافات ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک استحکام چاہتے ہیں، لیکن دونوں کے لیے استحکام کی تعریف مختلف ہے۔ امریکا افغانستان میں مضبوط مرکزی حکومت اور تربیت یافتہ فوج کا قیام چاہتا ہے، جبکہ روس افغانستان میں سرگرم بہت سے کرداروں کے ساتھ رابطے میں ہے، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کابل حکومت کے مدمقابل ہیں۔ ماسکو طالبان سے بھی رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہے، جو کہ نہ صرف افغانستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ امریکا اور نیٹو فوج کے خلاف بھی برسرپیکار ہیں۔
گزشتہ دو برسوں سے ان دونوں کی حکمت عملیوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔ روس یہ سمجھتا ہے کہ امریکی حکمت عملی ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے، اور وہ افغانستان میں طویل مدت تک قیام کے فیصلے سے کسی بھی وقت منہ موڑ لے گا۔ اس لیے روس کو یقین ہو چلا ہے کہ اسے اکیلے ہی غیر مستحکم افغانستان کا سامنا کرنا ہوگا۔ اور یہ روس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ روس کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ امریکا کے جانے کے بعد اس خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم کر کے واشنگٹن پر اپنی برتری ظاہر کر سکے۔
جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت ان دونوں ممالک کے مفادات یکساں ہی تھے۔ دونوں ممالک چاہتے تھے کے القاعدہ اور اس جیسے دوسرے گروہوں کا خاتمہ ہو اور افغانستان کو دہشت گردوں کی جنت بننے سے روکا جائے۔ ۹۸۹اء میں جب روسی فوج افغانستان سے نکلی تو ماسکو کو اس بات کا اندیشہ لاحق ہو گیا کہ اس سیاسی خلا سے نہ صرف انتہا پسندی بڑھے گی بلکہ دہشت گردوں کو بھی محفوط پناہ گاہیں حاصل ہو جائیں گی۔ اگرچہ روس کو امریکا کے طویل المدت قیام کے حوالے سے تحفظات تھے، لیکن اس نے نیٹو اور امریکی فوج کی موجودگی کو اس امید کے ساتھ قبول کیا کہ شاید یہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں استحکام لانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اوباما انتظامیہ کے دور میں روس امریکا کے مابین تعاون اپنی انتہا کو چھو رہا تھا۔ اس دور میں ماسکو نے نیٹو اور امریکی فوج کو فوجی سازو سامان کی ترسیل کے لیے اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دی، افغان فوج کو Mi-17 ہیلی کاپٹر فروخت کیے اور امریکی فوج کے ساتھ مل کر افیون کی پیداوار اور تجارت کی روک تھام کے لیے بھی کام کیا۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روس کا امریکا پرسے اعتماد اٹھتا چلا گیا۔ روس کو یہ یقین ہو گیا کہ امریکا افغانستان کے حوالے سے اپنے مشن سے مخلص نہیں ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر ماسکو نے کابل حکومت کے خاتمے یاایسی کسی صورتحال میں اپنے مفادات کے دفاع کے لیے حکمت عملی مرتب کرنا شروع کر دی۔ امریکا اور روس کے درمیان بگڑتے تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے جب ۲۰۱۴ء میں روس نے یوکرین پرقبضہ کیا۔ اس کے بعد سے افغانستان میں روسی تعاون کی امید بالکل ہی ختم ہو گئی۔ لیکن اس کے باوجود ماسکو نے امریکا پر یہ واضح کیا ہے کہ وہ امریکی فوج کے غیر متوقع انخلا کا حامی نہیں ہے۔ روسی صدر کے نمائندہ برائے افغانستان Zamir Kabulov نے جنوری ۲۰۱۷ ء میں کہا تھا کہ ’’اگر صدر ٹرمپ نے فوج کے انخلا کا فیصلہ کیا تو سب کچھ تباہ ہو جائے گا‘‘۔
روس اگرچہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کا حامی ہے، لیکن ماہ اگست میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جس حکمت عملی کا اعلان کیا گیا اس سے ماسکو کو مایوسی ہوئی۔ ماسکو سمجھتا ہے کہ اعلان کردہ حکمت عملی کے تحت فوجیوں کی تعداد میں اضافہ، انسداد دہشت گردی پر بنیادی توجہ، اور انخلا کا کوئی واضح ٹائم فریم نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس پالیسی میں کچھ نیا نہیں ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی میں جس طرح سے ’’طاقت‘‘ کے استعمال پر زور دیا گیا ہے اس سے لگتا ہے یہ پالیسی سابق صدر کی انتظامیہ سے مختلف نہیں ہے اور وہ پالیسی ناکامی کا سامنا کر چکی ہے۔ اسی طرح پینٹاگون نے افغان فوج کے لیے روسی ہیلی کا پٹر Mi-17 کے بجائے بلیک ہاک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے روسی حکام کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔
حالیہ برسوں میں روس نے اپنی خارجہ پالیسی میں اس طرح کی تبدیلیاں کی ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں اس کو نہ صرف سیاسی اور معاشی فوائد حاصل ہوں، بلکہ مستقبل میں اس خطے کے تنازعات کے حل میں روس کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ شام میں فوجی مداخلت، لبنان کے فوجی سربراہ جنرل خلیفہ ہفتارکی حمایت اور مصری حکومت سے بڑھتے ہوئے تعلقات، جن کے نتیجے میں مصر نے روسی فوج کو اپنی فضائی اڈے کے استعمال کی اجازت د ی ہے، یہ اقدامات دراصل روسی خارجہ پالیسی میں آنے والی تبدیلی کا ثبوت ہیں۔ افغانستان میں روس کی مداخلت بھی اسی حکمت عملی میں توسیع کا مظہر ہے۔ روس اب افغانستان میں استحکام سے بڑھ کر کچھ اور اہداف رکھتا ہے۔ روس اس وقت وہاں اپنے تعلقات بنانے میں مصروف ہے تاکہ مرکزی حکومت کے خاتمے کی صورت میں وہ اپنے مفادات کاتحفظ کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خطے میں نہ صرف اپنی حیثیت میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ وہ اپنی پوزیشن اس طرح کی بنا رہا ہے کہ کسی بھی عالمی تنازعہ کے حل میں اس کا کلیدی کردارحاصل ہو۔
روس نے افغانستان میں اپنے معاشی، سفارتی اور ثقافتی کردار کو بڑھایا ہے اور افغان حکومت کی فوجی اور مالی امداد میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ شمالی اتحاد اور طالبان کے ساتھ روابط میں بھی کافی گرم جوشی دکھائی ہے۔ اس نے ۲۰۱۴ء میں کابل میں موجود اپنے ثقافتی مرکز کو دوبارہ سے کھول دیا۔ ۲۰۱۶ء کے بعد سے افغان حکومت کو ہزاروں کلاشنکوف اور اس کی گولیاں فراہم کیں۔ اس حکمت عملی کو لے کر چلنے سے روس کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ بہت سے روسی فوجی افسران اور سفارتکاروں کو افغانستان کے حوالے سے سوویت افغان کے دور کا تجربہ بھی ہے۔ افغان فوجیوں اور سفارت کاروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنھوں نے روس میں تعلیم حاصل کی ہے۔ چونکہ روسی حکومت کسی خاص نظریہ کی حامل نہیں ہے اس لیے اس کو یہ فائدہ بھی حاصل ہے کہ وہ جس گروہ کو بھی موثر اور اثرورسوخ کا حامل سمجھے اس سے تعلق قائم کرلے۔
اسی لچک کی بدولت روس طالبان کے ساتھ کام کرتا ہے۔ کریملن کا خیال ہے کہ طالبا ن کا مشن صرف افغانستان میں اقتدارکا حصول ہے اور سرحد پار ان کے کوئی عزائم نہیں ہیں، اس لیے روس ان کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔ جب کہ داعش کے بارے میں ماسکوکی سوچ اس سے بالکل مختلف ہے، داعش سے متعلقہ لوگ افغانستان اور پاکستان میں لڑ رہے ہیں، روس اس کو اپنے لیے اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے بھی خطرہ سمجھتا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں Kabulov نے کہا کہ داعش کی حد تک روس اور طالبان کے مفادات یکساں ہیں۔ روس کس حد تک طالبان کی مدد کرتا ہے؟آیا وہ طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے، اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ روس نے طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے ہیں اور یہ تعلقات امن مذاکرات میں اس کے اثرورسوخ کو بڑھانے میں مدد دیں گے۔ افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی ’’محمد اتمر‘‘ نے نومبر میں ایک بیان میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ماسکو کے ’’اہم کردار‘‘ کی طرف اشارہ کیا تھا۔
ماسکو نے پہلے سے ہی سفارتی سطح پر کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ دسمبر ۲۰۱۶ء سے اپریل ۲۰۱۷ء کے درمیانی عرصے میں روس نے تین دفعہ مذاکرات کی میزبانی کی، ان مذاکرات میں چین، ایران اور پاکستان بھی شامل رہے۔ مذاکرات کے تیسرے دور میں افغانستان نے بھی حصہ لیا۔ اکتوبر میں روس نے افغانستان کے مسئلے پر شنگھائی تعاون تنظیم کی ایک ذیلی سطح کی میٹنگ کی، یاد رہے کہ اب بھارت اور پاکستان بھی اس تنظیم کے ارکان ہیں، اس اجلاس میں افغان حکومت کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اگرچہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز تو ثابت نہ ہو سکے، لیکن روس اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا، یعنی کہ اس نے مستقبل میں ہونے والے مذاکرات میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی۔
ماسکو نے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں روس اور پاکستان نے پہلی دفعہ مشترکہ مشقیں کیں اور اس کے ساتھ ہی پاکستان نے روس سے Mi-35 ہیلی کاپٹر خریدنے کے معاہدے پر بھی دستخط کیے۔ ماسکو افغانستا ن میں نہ صرف اندرونی رابطے مستحکم کرنے کے لیے بلکہ طالبان سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لیے، شام میں اپنے اتحادی ایران کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب چین اپنے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کی وجہ سے خطے میں اپنے اثرورسوخ میں نمایاں اضافہ کر رہا ہے، روس کے افغانستان میں اہم کھلاڑی کی حیثیت سے سامنے آنے سے اس کی اتحادی وسطی ایشیائی ریاستوں کااس بات پر اعتماد بڑھے گا کہ روس ان کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔
روس شام میں اپنائی جانے والی کامیاب حکمت عملی کو افغانستان میں بھی استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دونوں ممالک میں روس نے امریکا کی کمزوریوں اور اور اس کی گرتی ہوئی ساکھ کا پروپیگنڈہ کر کے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ جس طرح روس نے شام کے حوالے سے مذاکرات کی میزبانی کی، بالکل اسی طرح افغانستان کے حوالے سے مذکرات کی میزبانی کر کے روس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مستقبل میں ہونے والے کسی بھی مذاکرات میں اہم کھلاڑی کے طور پر اپنا کردار ادا کرے گا۔ اسی طرح زمین پر اپنی پوزیشن مستحکم کر کے وہ مستقبل کے حوالے سے اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ امریکا کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ افغانستان میں اس کے کردار کو تسلیم کرے۔ شام میں اس کام کے لیے روس نے فوجی طاقت کا استعمال کیا تھا، جب کہ یہاں وہ سیاسی قوتوں سے اپنے تعلقات، تجارت اور ثقافتی اثرورسوخ کو استعمال کر کے یہ کام کرنا چاہ رہا ہے۔
افغانستان کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ روس اور امریکا بہت سے شعبہ جات میں ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں۔ یہاں دہشت گرد گروہ ہیں جن کو شکست دینی ہے، ملکی فوج ہے جس کو تربیت دینی ہے، معیشت کو سہارے کی اشد ضرورت ہے اور انسانی بنیادوں پر کام کرنے کو بھی بہت کچھ ہے۔ روس اور امریکا دونوں ہی افغانستان کے مشرقی علاقوں میں پھیلتی ہوئی داعش کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ روس ہیروئن کی پیداوار کا خاتمہ چاہتاہے، کیوں کہ ۲۰۱۴ء کے کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق افغانی ہیروئن کا ۲۵ فیصد حصہ وسط ایشیائی ریاستوں سے ہوتا ہوا روس اور یورپ جاتا ہے۔ اور منشیات کی فروخت دہشت گردوں کے لیے فنڈنگ کا اہم ذریعہ ہے۔ لیکن اب روس اور امریکی نقطہ نظر کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے۔ اب صرف انسداد دہشت گردی اور انسداد منشیات وہ شعبے ہیں جو دونوں ممالک کے باہمی تعاون کے لیے بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔ لیکن ان شعبوں میں تعاون کے بھی محدود نتائج ہی نکلیں گے۔ چند ایسی چیزیں ہیں جن پر تعاون کے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور ان کی پناہ گاہوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن شام کے تنازعے میں روس کے کردار کو دیکھتے ہوئے زیادہ امیدیں لگانا فی الحال ممکن نہیں کیونکہ ماسکو نے شام میں تمام تر طے شدہ قوانین کو تہس نہس کر دیا تھا۔
اس سب کے باوجود روس کی افغانستان میں براہ راست مداخلت امریکی مفادات کو زک پہنچائے گی۔ ماسکو کا فعال کردار افغان گروہوں کو آپس کی لڑائی میں بیرونی طاقتوں کو استعمال کرنے کا موقع ملے گا۔ اور ایک ایسے وقت میں جب مرکزی نظام کو استحکام دینے کی ضرورت ہے، اس کردار سے آپس کی رقابتوں میں اضافہ ہوگا۔ روس کے طالبان کے ساتھ روابط ایک ایسے گروہ کی مضبوطی کا باعث بن رہے ہیں، جو مرکزی نظام کے مستحکم ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان سب حالات کو سامنے رکھیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ روس ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے، یعنی وہ چاہتا ہے کہ امریکا کی دفاعی حکمت عملی سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو عالمی طاقت کے طور پر منوائے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے دہشت گردوں کو افغانستان سے دور رکھے جو ماسکو اور اس کے پڑوسیوں کے لیے خطرے کا باعث بنیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
روس کی افغان حکمتِ عملی
previous post