مصنف :نوشاد منظر
رابطہ :9718951750 naushad. [email protected]
صفحات :304، قیمت :300 روپے
پبلشر :ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی
مبصر :خان محمد رضوان
9810862283 [email protected]
………..
نوشاد منظر ایک فعال،متحرک اور سنجیدہ اسکالر ہیں-ان کے اندر ادب میں کچھ نیا کر گزرنے کا جذبہ موجزن ہے جو انہیں ہمہ دم سرگرم عمل رکھتا ہے- ان کے اندر کبھی نہ سرد پڑنے والی چنگاری ہے،جو اپنی تپش سے ان کے جذبے کوبیدارکیے رہتی ہے- وہ عزم محکم اور عمل پیہم کے ارادے سے کشاں کشاں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں- ان کی تگ ودو اور حرکت و عمل خمار بارہ بنکوی کے اس شعر کی مصداق معلوم ہوتی ہے :
مرے راہبر مجھ کو گم راہ کردے
سنا ہے کہ منزل قریب آگئی ہے
اور اس نوجوان کو دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر بھی ذہن میں تازہ ہوجاتاہے:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
………….
نوشاد منظر کی یہ کتاب ان کے اسی جذبہ وجنون اور فکر وعمل کی گواہ ہے-
"رسالہ شاھراہ:تجزیاتی مطالعہ اور اشاریہ” نوشاد منظر کی پہلی تصنیف ہے- اس کے بعد ان کی دوسری مرتبہ کتاب”افسانہ اور افسانہ نگار” کے موضوع سے منظر عام پر آ چکی ہے –
انہوں نے "افسانہ کی تنقید:ترقی پسند تحریک تا حال” کے موضوع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے-
اس کے علاوہ ان کے درجنوں مضامین موقر رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں- جملہ معترضہ کے طور پرکتاب پر گفتگو سے قبل چند معروضات پیش کرنا چاہوں گا- جو اس طرح ہیں :
کہا جاتا ہے کہ ہماری موجودہ نسل پچھلی نسل سے ہر اعتبار سے زیادہ ذہین ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس مفروضے کی روایت کا سلسلہ نسل آدم کی آفرینش سے ہی شروع ہوا ہوگا-اور شاید قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا- مگراس کی کئی وجوہات ہیں- اس میں ایک / دو یہ ہیں کہ ہر دور میں اپنے ہم عصروں کو یا اپنے چھوٹوں کا اعتراف کبھی نہیں کیا گیااور پھر شخصیتوں کی حیات میں اعتراف اس طرح کبھی نہیں کیا گیا جیسا کہ کیا جانا چاہیے-ہمیشہ بعد از مرگ تعریف وتحسین اور اعتراف ذات اوراعتراف فن کیاجاتا ہے- جب کہ خدا تعالی کایہ مسلم اصول ہے کہ اس نے ہمیشہ سے نسل انسانی کو باصلاحیت اور ذہین و فطین بنایا ہے-
ایسا بالکل نہیں ہے کہ اس نے نسلوں کے اعتبار سے ذکاوت و فطانت عطا کیا ہو-یا نسلا بعد نسل اس سلسلے کو وہ کم کرتا جارہا ہے ـ
لہذا ہمیں اپنے اس رویے سے گریز کرنا چاہی، اہل ادب اس بات سے واقف ہیں کہ
"رسالہ شاھراہ”ترقی پسند اردو مصنفین کا بہت ہی معروف اور باوقار ترجمان تھا- شاہراہ کا سفر 1949ء سے شروع ہوا اورصرف بارہ سال کی مختصر مدت میں اردورسائل کی تاریخ میں اپنا مقام مستحکم کرلیا –
شاہراہ اپنے وقت کا مقبول ترین رسالہ تھا اور اس کی مقبولیت میں اس عہد کے نامور ترقی پسند ادبا وشعرا کا اہم اور کلیدی رول تھا-
ان میں ساحر لدھیانوی-پرکاش پنڈت-ظ-انصاری-فکر تونسوی -محمد یوسف-مخمور جالندھری اور وامق جونپوری وغیرہ قابل ذکر ہیں-
ترقی پسند تحریک اردو ادب کی غالبا وہ پہلی اور آخری تحریک تھی جو اپنا وجود کھودینے کے بعد بھی فکری طور پر اپنا وجود رکھتے ہوےایک طویل عرصے تک اپنا اثر قائم رکھنے میں کام یاب رہی ہے-
یہ بھی سچ ہے کہ یہی وہ پہلی اور آخری تحریک ہے،جس نے مستند، معتبر، کار آمد اور لازوال ادب پارے تخلیق کیے ہیں،اس دور کے ادب پاروں کو آج بھی ہر مکتبہ فکر کے ادبا اپنے مطالعے کا حصہ بناتے ہیں اور یہی وہ واحد ادبی تحریک ہے،جو یکساں طور پر ادب، سماج اور سیاست پر اپنا اثر قائم کرنے میں کام یاب رہی ہے-
مجھے لگتا ہے کہ ترقی پسندی انسان کی فطرت کی آواز تھی، جسے پوری دنیا میں سنا گیا اور آگے چل کر یہ ایک توانا اور ہمہ گیر تحریک کی صورت میں سامنے آئی- جس نے اپنے ہمہ جہت کام اور مختلف النوع طریقہ کار اور لچک دار فکر کی بنا پر ہر خاص وعام کو نہ صرف متاثر کیا؛بلکہ سحر انگیز طور پر سب کواپنا اسیر کر لیا-
رسالہ شاہراہ چونکہ ترقی پسند نظریات کا حامل تھا اس وجہ سےاس کے اشاریے، مضامین اور دیگر مشمولات فکری اور فنی اعتبار سے بے حد اہم ہیں-اس رسالہ کے مطالعہ سے اس تحریک کے ایک دور کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے- اس طور پر یہ رسالہ نہ صرف اہم ہے بلکہ بہت کار آمد اور تاریخی اہمیت کا حامل بھی ہے-
"رسالہ شاھراہ:تجزیاتی مطالعہ اور اشاریہ” کے عنوان سے نوشاد منظر نےتوضیحی اشاریہ کے طور پر تحقیقی کام کیا ہے،جو نہ صرف لائق تعریف وتحسین ہے؛بلکہ عمدہ، اہم اور تحقیقی نوعیت کا کام ہے-
یہ کتاب دو ابواب پر مشتمل ہے-
باب اول : شاہراہ کے مشمولات کاتجزیاتی مطالعہ-
” شاہ راہ ” کے اداریے/مضامین /نظمیں / غزلیں /رباعیات /شاہراہ کے افسانے/ ناولیں /تراجم نظمیں
باب دوم : شاہراہ کا اشاریہ
اداریہ /مضامین /نظمیں /غزلیں /افسانہ /ناولیں /رباعیات /قطعات / طنز ومزاح / ڈرامہ
رفتار
بین الاقوامی خبریں اور ادبی انتخاب /جائزے / کتابوں پر تبصرے / کتابیات
اس کے علاوہ سر سخن کے عنوان سے عابد سہیل کا مختصر مگر جامع اور توضیحی مضمون ہے،مصنف نے حرف آغاز اور شاہراہ: تاریخی پس منظر کے تحت جامع اور مفصل مضمون تحریر کیا ہے –
نوشاد منظر اپنے ہم عصروں میں ذہین، محنتی اور کچھ کر گزرنے والے فن کار ہیں، ان کی یہ کتاب انشاءاللہ تادیر یاد رکھی جائے گی-
یہ کتاب اشاریہ سازی کی فہرست میں اہم اضافہ ہے اور بالخصوص توضیحی اشاریہ پر تحقیق کرنے والے اسکالرز کے لیے ایک رہنما بھی ہے-
توقع ہے کہ اہل علم و دانش اس گراں قدر کام کو ضرور سراہیں گے-
رسالہ شاھراہ:تجزیاتی مطالعہ اور اشاریہ
previous post