تازہ ترین، سلسلہ 78
فضیل احمد ناصری
یوں نہ کہیے کہ وہ پچھلے سےزمانے نہ رہے
سچ تو یہ ہے کہ محمدؑ کے گھرانے نہ رہے
وہی قرآں، وہی کعبہ، وہی طیبہ ہے مگر
فرق اتنا ہے کہ اب ان کے دوانے نہ رہے
گل تو موجود ہیں،لیکن کوئی خوشبو ہی نہیں
اپنے لفظوں میں معانی کے خزانے نہ رہے
ہم فتوحات کی خواہش تو بہت رکھتے ہیں
اپنے دامان میں رحمت کے بہانے نہ رہے
مسجدیں ہو گئیں ویران دلوں کی صورت
درودیوار سلامت ہیں، دوگانے نہ رہے
دیکھیے جس کو وہی آج ہے آمادۂ جنگ
لب پہ مومن کے محبت کے ترانے نہ رہے
آئے تقدیس کا عنصر تو بھلا کیوں آئے
متحد قوم کی تسبیح کے دانے نہ رہے
کس طرح ہم پہ ہوں اللہ کے الطافِ قدیم
جب کہ خود اپنے ہی جذبات پرانے نہ رہے
جب تلک عشقِ شریعت تھا ہمارا شیوہ
کفر والوں کے کبھی ہوش ٹھکانے نہ رہے