عبید الرحمن
ریسرچ اسکالر بنارس ہندو یونیورسٹی
چہار درویش (بی ایچ یو شعبۂ عربی کے چار ہم مذاق ریسرچ اسکالرس)کی ٹیم 14؍دسمبر2018ء کی ایک سرد صبح ’’رام پور‘‘ کے اسٹیشن پر اتری، حسن اتفاق یا کسی درویش کی دعا سے ٹرین ’’رام پور‘‘ کے اسٹیشن پر تھوڑے وقفے کے لیے رک گئی، جبکہ وہاں اس کا اسٹاپ نہیں تھا، منزل مقصود پر اتر جانے کی وجہ سے ہمارا کافی وقت بچ گیا، جمعہ کا دن بھی تھا، ہم نے ای رکشہ والے سے ’’رضا لائبریری‘‘ جانے کو کہا، تو اس نے ’’رائے بریلی‘‘ یا اس سے ملتا جلتا لفظ کہا، میں چونک سا گیا ،بھائی کہاں اتر گئے؟ مرشد نے بتایا کہ لائبریری کا یہ لوگ غلط تلفظ ’’رائے بریلی‘‘ کر رہے ہیں۔
لائبریری پہنچے ،تو معلوم ہوا کہ جمعہ کو لائبریری بند رہتی ہے، اس طرح ہمارا پورا دن ضائع ہوتا نظر آیا، مگر ہماری بات لائبریری کے موجودہ ڈائریکٹر پروفیسر حسن عباس صاحب سے ہو چکی تھی، جو کہ ’’بنارس ہندو یونیورسٹی‘‘ کے شعبۂ فارسی کے پروفیسر ہیں اور تین سال کی عارضی رخصت پر ’’رام پور رضا لائبریری‘‘ کے ڈائریکٹر ہیں، نہایت ہی مشفق اور ہمارے کرم فرما ہیں، کتاب دوست انسان ہیں، پڑھنالکھنا ان کااوڑھنا بچھونا ہے، دسیوں تحقیقی کام کرچکے ہیں، کتابوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں، ریسرچ اسکالرس اور طلبہ سے بھی بہت محبت سے پیش آتے ہیں اور ان کی مدد کرنا ان کی فطرت ثانیہ ہے۔
پروفیسر حس عباس صاحب وہیں اپنے کوارٹر کے باہر نظر آئے اور ہاتھ کے اشارے سے ہمیں خوش آمدید کہا، چونکہ ’’رام پور رضا لائبریری‘‘ کے حفاظتی انتظامات نہایت سخت ہیں؛ اس لیے انہوں نے سیکورٹی اہلکاروں کو پہلے ہی مطلع کردیا تھا اور ہمارے لیے لائبریری کے مہمان خانے میں رہنے کا انتظام بھی کردیا تھا، ان کی محبت تھی کہ انہوں نے اپنے ڈرائنگ روم میں چائے پلائی اور گھنٹوں بات کرتے رہے، جبکہ وہ وقت کے بہت قدر دان ہیں اور اکثر وقت پڑھنے لکھنے میں صرف کرتے ہیں، مگر یہ ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ہم سے بات کرتے رہے اور ریسرچ سے متعلق ہدایات دیتے رہے، اسی دوران جمعہ کی اذان ہو گئی او رہم لوگ رام پور کی شاہی جامع مسجد کے لیے روانہ ہو گئے، نہایت شاندار مسجد ہے اور اسلامی فن تعمیر کا شاہکار ہے-
مسجد کے گیٹ پر موجود پتھر پر مختصر تاریخ اس طرح کندہ ہے:
’’جامع مسجد مصطفی آباد عرف رام پور ۔یوپی روہیلوں کی تعمیر کردہ شاندار عمارت، جو اندر داخل ہونے کے بعد آپ کو نظر آئے گی ،رام پور کی جامع مسجد ہے، رام پور کی پہلی جامع مسجد1180ھ/1766ء میں تعمیر ہوئی تھی، جس کی تاریخ اس مصرع سے برآمد ہوتی ہے :
یک مسجد فیض کعبہ نو
اس مسجد کو رام پور کے پہلے نواب فیض اللہ خان نے تعمیر کرایا تھا، ایک سو آٹھ (108)سال بعد نواب کلب علی خان نے اس مسجد کے پہلو میں دوسری وسیع وعریض مسجد تعمیر کرائی جو1294ھ/1874ء میں بن کر تیار ہوئی۔مسجد کے اوپر تین شاندار گنبد اور چار طویل مینار بنوائے اور ان پر عالیشان طلائی کلس چڑھائے، صدر دروازہ کے اوپر ایک خوش نما گھنٹہ گھر بنوایا ،جس پر دو رخہ گھنٹہ لندن سے منگواکر نصب کروایا، اس گھنٹہ میں دونوں جانب سے وقت دیکھا جا سکتاتھا۔1319ھ/1913ء میں نواب حامد علی خان نے جامع مسجد کو از سر نو تعمیر کرایا، جواس وقت آپ کے سامنے ہے۔ (بحوالہ ضیاء وجیہ، رام پور1981ء)اس وقت جامع مسجد کا انتظام معززین شہر کی ایک کمیٹی کے سپرد ہے، جس کی نگرانی میں جامع مسجد کی ترقی وتحفظ اور خوش نمائی کی پرزور کوشش ہو رہی ہے، اللہ تعالی اس کمیٹی کی خدمات کو قبولیت عطا فرمائے اور جامع مسجد کو ہمیشہ آباد رکھے‘‘۔
جمعہ کی نماز کے بعد ہم مہمان خانہ واپس آگئے، مہمان خانہ؛ بلکہ لائبریری کی ساری عمارتیں نوابی شان وشوکت کا مظہر ہیں، جن میں ضرورت سے زیادہ کشادہ کمرے، کافی اونچی اونچی چھتیں، بلند دروازے، وسیع وعریض حمام موجود ہیں۔ چہار درویش اسی وسیع وعریض کمرے میں اپنے مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے صبح کا انتظار کررہے تھے، لائبریری کی زیارت اصل مقصود تھی؛ کیونکہ ایک طالب علم، ایک اسکالر کے لیے سب سے بڑا اثاثہ کتاب ہی تو ہے، وہ در در بھٹکتا ہے کہ کوئی کتابوں کا ذخیرہ اس کی علمی پیاس بجھادے؛ مگر یہ کتابیں تو بحر بیکراں ہیں، غواص کو لعل وگہر سے مطلب ہوتا ہے، سمندر کی گہرائی، گیرائی اس کے حوصلے کو نہیں توڑ پاتی ہے، اسی طرح الفاظ کے موتی، افکار کے خزانے، علم کے دریااور کتابیں ہی آگہی کے طالب کے لیے منزل مقصود ہیں، اسی کھوج او رچاہت میں اپنی کشتی سمندر میں ڈال دیتا ہے، جو ڈگمگاتے، بل کھاتے کبھی کنارے لگ جاتی اور وہ سیراب ہو جاتا ہے یا پھر اسی میدان تیہ میں حیران وسرگرداں اپنی زندگی تیاگ دیتا ہے:
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
اور بقول افتخار عارف:
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
رام پور کی رضا لائبریری بھی اسی بحرِ بیکراں کا ایک حصہ ہے، کتابوں کا زندہ جاوید مرکز۔ بقول حقانی القاسمی ’’زندہ لفظوں کا روشن مینارہے‘‘۔ہندوستان میں اسلامی اقدار اورثقافت کی تاریخ کی وارث بھی ہے، اس کی بنیاد1774ء میں رام پور ریاست کے نواب فیض اللہ خان نے رکھی اور اس کے بعد تمام نوابینِ رام پور خصوصاً نواب رضا علی خان نے اس لائبریری کی تعمیر وترقی او ر احیا میں خصوصی دلچسپی لی، پروفیسر سید نور الحسن سابق وزیر تعلیم حکومت ہند کی کوششوں سے یہ لائبریری یکم جولائی 1975ء میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت حکومت کی تحویل میں چلی گئی، یہ لائبریری خود مختار ادارہ ہونے کے ساتھ وزارت ثقافت حکومت ہند کے ماتحت ہے، اس لائبریری کے بورڈ کے چیئرمین عزت مآب گورنر اتر پردیش ہوتے ہیں، مجھے رضا لائبریری کی تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں؛ کیونکہ اس کی مفصل تاریخ کتابوں میں موجود ہے، یہ صرف ایک تاثر ہے ،جو رام پور جانے کے بعد میرے ذہن کے صفحات پر ابھرے، اسی کو سپرد قرطاس کررہا ہوں۔
در حقیقت رام پور میں دو لائبریریاں دیکھنے کا اتفاق ہوا:
(۱) رضا لائبریری (۲) صولت پبلک لائبریری
مقدم الذکر کے مداح شبلی اور آزاد جیسی شخصیات ہیں ،تو مؤخر الذکر کی زبوں حالی کا ترجمان خود گردش ایام ہے۔ رضا لائبریری زندہ لفظوں کا روشن مینارہے، تو صولت پبلک لائبریری بقول مورگن ’’کتابوں کا قبرستان‘‘ ہے، جہاں ہمیں فخر ہے رضا لائبریری کے ہماری ملی، علمی، ثقافتی وراثت ہونے پر، وہیں صولت پبلک لائبریری کی زبوں حالی اور بربادی پر انتہائی رنج وقلق بھی ہے، جو قومی وراثت کا حصہ نہ بن سکی، میں یہا ں صولت پبلک لائبریری کا تذکرہ اتنے قلق سے اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ لائبریری ان پبلک لائبریریوں کی طرح نہیں ہے، جو گلی کے نکڑ پر چند ناولوں، افسانوں کا مجموعہ ہوتی ہیں؛ بلکہ یہ نوادرات، اورمخطوطات کی آماجگاہ ہے ،جو برباد ہو رہی ہے یا یوں کہیے برباد کردی گئی ہے۔
رضا لائبریری کی عمارت کافی بلندی پر واقع فن تعمیر کا شاہکار اور نوابی شان وشوکت کی نشانی ہے، پیلے اور میرون رنگوں کی قلعی،اگلے حصے میں خوبصورت پارک اس کے حسن کو مزید دوبالا کر دیتے ہیں، ہزاروں نوادرات ومخطوطات اور کتابوں کو سمیٹے اسلامی اور قومی وراثت کی امین وپاسدار ہے، جس کے بارے میں شبلی نعمانی کہتے ہیں:
’’میں اس کتب خانے سے بار بار متمتع ہوا ہوں، ہندوستان کے کتب خانوں میں اس سے بہتر کیا، اس کے برابر بھی کوئی کتب خانہ نہیں، میں نے روم ومصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں؛ لیکن کسی کتب خانے کو مجموعی حیثیت سے اس سے افضل نہیں دیکھا‘‘۔
موتی کی قدر وقیمت ایک جوہری ہی پہچان سکتا ہے، شبلی کے الفاظ اس لائبریری کی عظمت کو بتا رہے ہیں، اس میں عربی، فارسی، ہندی اور دیگر زبانوں کے 20؍ہزار سے زائد مخطوطے،نوادرات اورپنٹینگس ہیں، صر ف عربی مخطوطوں کی جو فہرست مولانا امتیاز علی عرشی مرحوم نے مرتب کی ہے وہ6؍جلدوں میں ہے۔
سابق ناظم کتب خانہ مولانا امتیاز علی عرشی مرحوم کی مرتب کردہ عربی مخطوطوں کی فہرست انگریزی زبان میں ہونے کی وجہ سے استفادے میں کچھ تکلف محسوس ہوتا ہے، ’’خدا بخش لائبریری پٹنہ‘‘ کی عربی مخطوطات کی فہرست بزبان عربی ہے؛ اس لیے اس سے استفادہ آسان ہے، اسی طرز پر ’’رضالائبریری‘‘ کی فہرست مرتب ہو جائے ،تو یہ بڑا کام ہو جائے گا، یوں تو مولانا امتیاز علی عرشی کا کام نہایت عمدہ اور مکمل ہے؛ انہوں نے ہر مخطوطے پر جس طرح کا تبصرہ لکھا ہے، وہ کوئی کہنہ مشق اور لائبریری سائنس پر عبور رکھنے والا شخص ہی کرسکتا ہے، ہم موجودہ ڈائریکٹر پروفیسر حسن عباس صاحب کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں، اگر اس فہرست کی زبان کا مسئلہ حل ہو جائے ،تواس کی افادیت دو چند ہو جائے گی۔
شبلی کی طرح مولانا ابو الکلام آزاد بھی اس لائبریری سے متمتع ہوتے رہے ہیں، ان کا اس لائبریری کی مدح میں رطب اللسان ہونا اس کی شان وعظمت کو بتلاتا ہے، نہ جانے کتنے تشنہ کام کو اس در سے سیرابی حاصل ہوئی ہے اور وہ کشاں کشاں اس علمی دربار میں چلے آتے رہے ہیں۔مولانالکھتے ہیں:
’’ایک عرصہ کے بعد مجھے اس قیمتی کتب خانے کے معائنہ کا پھر موقع ملا، ہندوستان میں جو گنتی کے ذخائر ہیں، ان میں ایک گرانمایہ ذخیرہ یہ ہے، امید ہے کہ حالات کی تبدیلیوں نے اب جو نئی صورت حال پیدا کردی ہے، وہ اس کتب خانے کی مزید اصلاح وترقی کی موجب ثابت ہوگی‘‘۔
رضا لائبریری کی عظمت، شان وشوکت کی کہانی کے سامنے صولت پبلک لائبریری کی بربادی کی داستان بھی جاننا ضروری ہے، ہندوپاک کی تقسیم کے وقت جب سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا تھا، اس وقت تو یہ لائبریری بچ گئی؛ کیونکہ یہ تحصیل کی عمارت میں تھی؛ لیکن قومی بے توجہی، بے حسی اور مردہ ضمیری کے سامنے شکست خوردہ ہوگئی اور اس پر کیڑوں مکوڑوں، جالوں اور گرد وغبار کا قبضہ ہو گیا۔
انجان شہر میں ہم نے اس لائبریری تک پہنچنے کے لیے جی پی ایس (GPS)کا سہارا لیا اور گلی گلی گھومتے گھومتے نہ جانے کہاں پہنچ گئے، کچھ کتاب کی دکانیں نظر آئیں ،توان سے صحیح رہنمائی مل سکی، کسی طرح ہم ’’صولت پبلک لائبریری‘‘پہنچ پائے، لائبریری کیا ہے، در حقیقت وہ کتابوں کی قبرستان ہے، اس میں دو تین لوگ بیٹھے ہوئے ملے ،وہ اخلاق سے عاری، جیسے وہ قبرستان ہی کے باسی ہوں، پرانی، گرد آلود الماریوں میں ہزاروں قیمتی نسخے اس طرح دفن ہیں کہ ایک محقق کی روح لرزجائے، ریڈ نگ روم کے تین طرف دیوارہے، چوتھی مشرقی دیوار مارچ2013ء میں گر گئی تھی اور کمیٹی کے پاس اتنا بجٹ نہیں ہے کہ اس کی مرمت کروائی جاسکے، البتہ دیوار گرنے سے یہ فائدہ ضرورہوا کہ لائبریری میں کچھ زیادہ روشنی کا انتظام ہوگیا۔
’’صولت پبلک لائبریری‘‘ کے نام سے ایک فیس بک پیج ہے؛ جس میں اس لائبریری کی مختصر تاریخ اس طرح درج ہے:
’’ریاستی پیریڈ میں رام پور کی عوام ’’رضالائبریری‘‘ سے استفادہ نہیں کرسکتے تھے؛ اس لیے ایک پبلک لائبریری کی ضرورت محسوس کی گئی، جس سے عوام مستفید ہوسکیں، اسی کے پیش نظر رام پور کے ہر دلعزیز عوامی رہنما صولت علی خان نے 21؍دسمبر1934ء کو محلہ راج دوارہ میں افسر علی کی کوٹھی میں ایک ’’کتب خانۂ عام‘‘ کا قیام کیا، جو صرف کتب خانہ نہیں؛بلکہ رام پور کی ثقافتی او رتہذیبی زندگی کی علامت بھی تھا، لائبریری کی پرانی کتابوں پر آج بھی ’’کتب خانۂ عام‘‘ کی مہر موجود ہے، کچھ وقت بعد جگہ کی قلت کی وجہ سے لائبریری کو صفدر جنگ بازار میں شہزادہ وجّن خان کے مکان میں (جہاں اب شاداب مارکیٹ ہے) منتقل کردیا گیا،19؍مارچ1935ء میں ایک عوامی جلسے میں قرارداد منظور کرکے اس لائبریری کو ’’صولت پبلک لائبریری‘‘ کا نام دیا گیا، لائبریری کے مؤسس صولت علی خان کے دعوت نامہ پر6؍نومبر 1935ء کو نواب رضا علی خان نے لائبریری کا دورہ کیا، یہاں پر بھی جگہ کوئی خاص کشادہ نہیں تھی؛ اس لیے نواب رضا علی خان نے جامع مسجد رام پور کے قریب حضور تحصیل کی بالائی عمارت لائبریری کو الاٹ کردی، 1957ء میں حکومت اتر پردیش نے لائبریری اور اس سے متصل عمارت کو لائبریری کی ملکیت تسلیم کیا ہے؛ لیکن یہ ادارہ مستحق ہونے کے باوجود روز اول سے اربابِ اقتدار کی غفلت کا شکار رہا ہے، البتہ شہر کے مخیر لوگوں کی توجہ اس کو حاصل رہی ہے‘‘۔
25/نومبر 2017ء کو اسکرول ڈاٹ اِن پر ڈینیل جو کوبیس مورگن کا ایک آرٹیکل’’صولت پبلک لائبریری‘‘ کی صورت حال پر پوسٹ کیا گیا ہے، مورگن رام پور اپنے ریسرچ میٹیریل کی تلاش میں آئے تھے، قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے ’’خواص حزب البحر‘‘ کے اکلوتے مخطوطے کی تلاش میں ’’صولت پبلک لائبریری‘‘ پہنچے تھے، شکاگو یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر کو یہ پتا تھا کہ1966ء میں عابد رضا بیدار کے مرتب کردہ کیٹلاگ میں اس نسخے کا ذکر ہے اور وہ کشاں کشاں رام پور چلا آیا، اس کو وہ نسخہ تو نہ ملا؛ لیکن جاتے جاتے ایک آرٹیکل:
Welcme to the graveyard of rare books, also known as the saulat public Library, Rampur
کے عنوان سے دے گیا ،جس میں ہماری بے حسی اور قومی غیرت کو للکار گیا کہ جس لائبریری میں ہزاروں نوادرات ہوں؛ ان کو تو قومی ورثہ ہونا چاہیے؛ لیکن ایسا نہ ہو سکا، مزید برآں اگر اس کی حفاظت کے فوری اقدام (جیسے نوادرات اور مخطوطات کو ڈیجیٹائز کرنا) نہ کیا گیا ،تو انڈیا کی انٹلیکچول ہسٹری کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔
ہندوستان میں نہ جانے ایسے کتنے کتب خانے رہے ہوں گے ،جو نوادرات کا مجموعہ تھے،جن کو ظالم حکمرانوں نے نذر آتش نہیں کیا؛ بلکہ ہماری بے حسی کا شکار ہو کر برباد ہو گئے، ایسے موقع پر احسا س ہوتا ہے کہ علامہ اقبال پر کیا گزرتی رہی ہو گی، جب وہ یورپ کی لائبریریوں میں اپنے آبا کی کتابوں کو دیکھتے ہوں گے، جن کتابوں کے حصول کے لیے مامون جزیہ تک معاف کردیتا تھا، صولت پبلک لائبریری دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ اہل یورپ نے ہمارے اجداد کے کارناموں کو محفوظ کردیا، اس سے فائدہ اٹھایا، نہیں تو ہو سکتا تھا کہ کتابوں کے قبرستان میں ان کی بھی اک قبر بن جاتی، بقول علامہ اقبال :
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا