Home سفرنامہ راشٹرپتی بھون کا ایک یادگارسفر

راشٹرپتی بھون کا ایک یادگارسفر

by قندیل

عاصم طاہر اعظمی
گزشتہ ہفتے ہمارے ٹیچر محسن ایڈووکیٹ نے اپنے دوست پُنِت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ راشٹرپتی بھون میں کانسٹیبل ہے، میں نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا کہ سر راشٹرپتی بھون و سنسد بھون کو اندر سے دیکھنے کی اجازت لیں اور پھر ایک ٹور وہاں کے نام بن جائے، انھوں نے کہا: ٹھیک ہے ،بات کرتا ہوں۔ پھر اسی وقت بات کی اور اندر گھومنے کی اجازت طلب کی، تو انہوں نے کہا کہ تمام اسٹوڈینٹس کی اصلی آئی ڈی بھیج دو، باقی میں یہاں دیکھ لوں گااور تقریباً پانچ دن کے بعد جمعہ کی شام کو یہ خبر ملی کہ کل کی اجازت مل گئی ہے، یہ خبر سنتے ہی انسٹی ٹیوٹ کے تمام طلبہ فرحت و شادمانی سے جھوم اٹھے، ہر طرف خوشی کا ماحول تھا ،کوئی کپڑا دھلنے ،تو کوئی پریس کرنے میں مشغول ہوگیا ،جبکہ ہمارے اس سفر کے امیر مفتی حامد اعظمی ہر ایک سے وصولی بھی جمع کرتے ہوئے نظر آئے، میں تو دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ اے کاش سنسد بھون کی بھی اجازت مل گئی ہوتی، تو کل اس تمنا کی مکمل تکمیل ہوجاتی ۔
صبح ہوتے ہی تمام ساتھی سفر کی مکمل تیاری کرکے بس کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک بس کے آنے کی اطلاع ملی ،سب بس کی طرف تیزی سے لپکے اور جلدی جلدی اپنی جگہ لی، تھوڑی ہی دیر میں بس ہم لوگوں کو لیکرچلی، اس طرح ہم لوگوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا، تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہاں پہنچے اور ابھی بس راشٹرپتی بھون کے علاقے میں داخل ہی ہوئی تھی کہ فوراً ایک پولیس والاآگے بڑھ کر رکوایااور کہا کہ الٹی لائن سے آنے پر ہر حال میں چالان کٹے گا، چالان کٹنے کے بعد ہماری بس آگے بڑھی، ہر کوئی راشٹرپتی بھون و سنسد بھون کے اس علاقے کی خوبصورت و جاذبِ نظر عمارت کو بس کی کھڑکیوں سے دیکھ کر خوشی محسوس کررہا تھا ،بس پارکنگ میں لگی، تمام ساتھی اتر کر جلدی جلدی آگے بڑھے ،سرکاری کارروائی وچیکنگ کے بعد اندر پہنچے، اندر جانے سے پہلے موبائل، ایئرفون اور تمام الیکٹرانک چیزیں جمع کروا لی گئیں، اندر داخل ہوتے ہی انہی لوگوں کی طرف سے طے شدہ منیش نامی گائیڈ نے ہم لوگوں کا راشٹرپتی بھون میں استقبال کیا اور راشٹرپتی بھون کی اہم باتیں بتلائیں،میری ہندی زبان پر مضبوط گرفت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر الفاظ سمجھ سے باہر تھے، پھر بھی گائیڈ کے ساتھ ساتھ اندر سے راشٹرپتی بھون گھوم کر بہت ساری وہ باتیں معلوم ہوئیں، جن سے میں ابھی تک ناآشنا تھا۔
برطانوی سامراج کے عہد میں وطنِ عزیز کی راجدھانی کلکتہ شہر ہوا کرتا تھا؛ لیکن برطانوی سامراجوں کو وہ جگہ زیادہ راس نہ آئی اور وہ لوگ اپنی راجدھانی کہیں دوسری جگہ منتقل کرنا چاہ رہے تھے، بالآخر انھوں نے 1911ء میں دہلی کو راجدھانی بنانے کا فیصلہ کیا، برطانوی سامراج چاہتا، تو لال قلعہ کے علاقے کو راجدھانی بنا سکتا تھا؛ لیکن اس علاقے میں مغل کے زمانے کا دہلی آباد تھا، جو اس سے پہلے ہندوستان کی راجدھانی ہوا کرتا تھا؛اس لیے برطانوی سامراجوں کو سیکنڈ راجدھانی پسند نہیں تھی، وہ اپنی الگ پہچان بنانا چاہ رہے تھے، اس وجہ سے ان لوگوں نے نئی دہلی کے اس علاقے کو منتخب کیا، اس وقت برطانوی سامراج کے گورنر وائسرائے اِیڈوِن تھے ،جنہوں نے اپنے رہنے کے لیے گھر بنانے کا حکم جاری کیا اور انگلینڈ کے مشہور آرکیٹیکچر اِیڈوِن لٹینس کو اس کا نقشہ بنوانے کے لیے بلوایا، 1913ء میں تعمیراتی کام شروع ہوکر 1929ء میں تکمیل کو پہنچا ،اس وقت کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے وائسرائے ہاؤس تیار ہوا تھا، 1931ء میں برطانوی حکومت کا اس میں پہلا پروگرام ہوا، جس میں پوری دنیا کی قد آور شخصیات نے شرکت کی تھی؛لیکن شاید ان برطانوی سامراجوں کو معلوم نہیں تھا کہ اب ہندوستان میں ان کا دائرہ تنگ ہونے لگا ہے ،تقریباً 16 سال ہی اس ہاؤس میں رہنے کے بعد 1947ء میں جب کہ آزادی کا نعرہ پورے وطن میں گونج چکا تھا، انھیں یہ عالیشان وپرشکوہ عمارت کو الوداع کہنا پڑا۔
1931ء سے لے کر 1947ء تک اس کا نام وائسرائے ہاؤس تھا، 1947ء میں میں اس کا نام بدل کر گورنمنٹ ہاؤس رکھا گیا، جبکہ 1950ء میں اس کا نام ایک مرتبہ پھر بدل کر ہمیشہ ہمیش کے لیے راشٹرپتی بھون رکھ دیا گیا، اب یہ ہاؤس وقت کے موجودہ صدر جمہوریہ (راشٹرپتی) کے لیے خاص ہوتا ہے، واضح رہے کہ ملک کے پہلے شہری کی حیثیت سے راشٹرپتی ہی کو جانا جاتا ہے اور راشٹرپتی (صدر جمہوریہ) ہی ملک کا سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے، آپ راشٹرپتی کے پاور کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کسی کو پھانسی کی سزا سنا دے، تو وہ صرف راشٹرپتی ہی کے کہنے پر پھانسی کی سزا کا اعلان روک سکتا ہے، ورنہ نہیں، اسی طرح راشٹرپتی کو راجیہ سبھا کے 12 ممبران کو چننے کا بھی حق ہوتا ہے، پورے ملک میں راشٹرپتی ہی وہ عہدہ ہوتا ہے، جو کبھی جھنڈے کو سلامی نہیں دیتا، یہ سب راشٹرپتی کی ایسی خصوصیات ہیں ،جو پورے ملک میں کسی اور کے پاس نہیں ہیں۔
26 جنوری 1950 ء کو ملک کے پہلے راشٹرپتی ڈاکٹر راجندر پرساد کو رہنے کے لیے دیا گیا ،وہ اس راشٹرپتی بھون کانقش و نگار دیکھ دنگ رہ گئے تھے، 340 کمروں میں سے صرف 5 کمرے اپنے لیے مختص کیے ،جن میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے، اس عالیشان عمارت میں فی الحال وقت کے چودہویں راشٹرپتی رام ناتھ کووند جی رہ رہے ہیں۔
رائے سینا کی چوٹی پر بنے راشٹرپتی بھون کی خوبصورت و عالیشان عمارت پوری دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے ،وطن عزیز کے راشٹرپتی بھون کا شمار دنیا کی مہنگی ترین عمارتوں میں ہوتا ہے، راشٹرپتی بھون کی قیمت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں مشہور و پاور فل ملک امریکہ کی مشہور عمارت وہائٹ ہاؤس کی قیمت سے تقریباً ڈبل قیمت کے قریب ہے ،راشٹرپتی بھون کی موجودہ قیمت 26 ہزار کروڑ روپے ہے، جبکہ وہائٹ ہاؤس کی قیمت 14 ہزار کروڑ ہی ہے، واضح رہے کہ وطن عزیز کا راشٹرپتی بھون دنیا کے سبھی صدارتی ہاؤسز میں سب سے بڑا ہے ، راشٹرپتی بھون تقریباً 330 ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے ،جس میں کل 340 بڑے کمرے ہیں ،جن میں دربار ہال سب سے اہم جگہ ہے ،ملک کا جب بھی کوئی راشٹرپتی حلف لیتا ہے ،تو اسی میں حلف تقریب منعقد ہوتی ہے ،اس میں سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ برطانوی سامراجوں کے زمانے کی رکھی ہوئی چاندی کی کرسی، جس کا وزن 6 کوئنٹل 40 کلوگرام ہے،اس کا نچلا حصہ یعنی صدر جمہوریہ کا پیر ٹھیک انڈیا گیٹ کے بالائی حصے پر رہتا ہے، اس ہال کے سامنے بنا بہترین دروازہ جہاں سے انڈیا گیٹ چار کلومیٹر کی دوری پر ٹھیک اسی سیدھ میں واقع ہے، جوکہ صرف 26 جنوری اور 15 اگست کو کھلتا ہے یا کسی باہری ملک سے آئے ہوئے مہمان کی طلب پر کھولا جاتا ہے۔اس ہال میں گنبد نما بنے حصے کے اوپر وطن عزیز کا جھنڈا لہرتا ہوا اس بات کی علامت ہے کہ وقت کا راشٹرپتی یہیں پر ہے اگر وہ یہاں نہیں رہتا ،تو جھنڈا نکال دیا جاتا ہے،یہ ایک آسان طریقہ ہے وقت کے راشٹرپتی کے ہونے اور نہ ہونے کو معلوم کرنے کا ،جیسا کہ کل جھنڈا نہیں لگا تھا، راشٹرپتی جی حیدرآباد کے کسی پروگرام میں شرکت کے لیے گئے تھے، اس کی بغل میں اشوکا ہال ہے، جو کہ پورے راشٹرپتی بھون میں سب سے خوبصورت ہال مانا جاتا ہے ،پہلے اس میں بھی پروگرام منعقد ہوا کرتے تھے ،فی الحال کچھ دنوں سے اس میں پروگرام ہونا بند ہے، اس کے علاوہ کیبنٹ ہال، گفٹ ہال اور کئی بڑے ہال الگ الگ کاموں کے لیے ہیں، جن کواس کے وقت استعمال کیا جاتا ہے، پورے راشٹرپتی بھون کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں سرکاری کام ،دوسرے حصے میں آفیشیلی کام، تیسرے حصے میں باہر ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کا انتظام ،چوتھااور آخری حصہ صدر جمہوریہ کے لیے خاص ہے، راشٹرپتی بھون میں ہسپتال، پوسٹ آفس، آئس فیکٹری اور اس طرح کی بہت سی چیزوں کا مکمل انتظام ہے۔ واضح رہے کہ راشٹرپتی بھون میں ہسپتال کا نظام ملک کے گیارہویں راشٹرپتی ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے شروع کروایا تھا؛ تاکہ یہاں پر جب بھی کوئی بیمار ہو،تو اس کا وی وی آئی پی علاج کروایا جاسکے، ہم لوگوں کا گائیڈ ڈاکٹر صاحب کی زندگی سے بہت متاثر تھا اوران کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو یہاں مسلمانوں سے زیادہ ہندو لوگ محبت کرتے تھے ،وہ ایک پڑھے لکھے عام انسان تھے، وہ اپنے زمانے میں ملک ہی نہیں ،راشٹرپتی بھون کو بھی بہت کچھ دے کر گئے ہیں۔
اخیر میں ہم لوگ گائیڈ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے راشٹرپتی بھون سے باہر نکلے، تھوڑی دیر بعد ہمارا گروپ وہاں سے دوسری جگہ گھومنے کے لیے روانہ ہوا اور اس جگہ گھومنے کے بعد مرکز نظام الدین میں مغرب کی نماز ادا کرکے تھوڑی دیر میں واپس اپنے انسٹی ٹیوٹ کی طرف روانہ ہوا اور الحمد للہ بعافیت ہم لوگ رات میں تقریباً سوا آٹھ بجے اپنے انسٹی ٹیوٹ پہنچ گئے، اس طرح ہمارا ایک دن کا یہ یادگار تاریخی اور معلومات سے پُر سفر مکمل ہوا۔

You may also like

Leave a Comment