Home قندیل راجندرسچر:جیسے تاریکی میں مل جائے اجالے کا سراغ

راجندرسچر:جیسے تاریکی میں مل جائے اجالے کا سراغ

by قندیل

نایاب حسن
دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندرسچر ملک کے سرکردہ سماجی کارکن اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے افراد میں نمایاں ترین تھے، وہ People’s Union for Civil Libertiesنامی حقوقِ انسانی کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے معروف ادارے سے بھی عملی طورپر وابستہ رہے ، انھوں نے مسلمانوں کی سماجی،اقتصادی و تعلیمی بدحالی و پسماندگی پریوپی اے اول میں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ذریعے تشکیل کردہ کمیٹی کی سربراہی کرتے ہوئے ایک رپورٹ تیارکی تھی،جسے عام طورپر ’’سچرکمیٹی رپورٹ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں نشان دہی کی گئی تھی کہ ملک کے مسلمان نہایت بدحال زندگی گزاررہے ہیں اوران کی حالت کوبہتر بنانے کے لیے اہم سفارشات بھی کی گئی تھیں۔پہلی بار اسی کمیٹی کی رپورٹ سے پتا چلاکہ ہندوستان کے مسلمان نہ صرف تعلیم و اقتصادیات ؛بلکہ انتظامیہ و پولیس اور دیگر قانون سازاداروں میں زبردست قلتِ نمایندگی کے شکار ہیں؛چنانچہ کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی تھی کہ باقاعدہ ایک قانونی میکانزم بنایا جائے؛تاکہ برابری کے ساتھ تمام شہریوں تک حقوق و انصاف رسانی ممکن ہوسکے۔
انھوں نے اپنا قانونی ؍عدالتی کریئربہ طوروکیل کے اپریل1952 میں شملہ سے شروع کیا تھا،پھر وہ سپریم کورٹ آف انڈیاآگئے اور یہاں سول،کرمنل اور روینیوکیسز میں وکالت کی،انھیں 1972ء میں پہلی باردوسال کے لیے دہلی ہائی کورٹ کا ایڈشنل جج مقرر کیاگیا،انھوں نے اپنے کریئر میں سکم ہائی کورٹ کے کارگزار جج اور راجستھان ہائی کورٹ کے جج کے طورپربھی خدمات انجام دیں،اگست 1985ء میں انھیں دہلی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقررکیاگیا،اس عہدے پر وہ دسمبر1985 تک رہے۔
گرچہ سچرکمیٹی کی سربراہی سے ان کانام زیادہ مشہور ہوا،مگروہ اس سے بہت پہلے سے انسانی حقوق کی حصول یابی و شہری آزادی کے لیے سرگرم تھے، 1990 میں کشمیر کی صورتِ حال پر تیار کی جانے والی رپورٹ لکھنے والوں میں وہ بھی شامل تھے،وہ سابق چیف جسٹس اے ایم احمدی کی سربراہی میں تحفظِ حقوقِ انسانی ایکٹ پرنظرثانی کے لیے قائم کردہ ایڈوائزری کمیٹی کے بھی رکن بنائے گئے تھے،اس کمیٹی نے 2000ء میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی ،اس رپورٹ میں قومی حقوقِ انسانی کمیشن کی ممبرشپ کے سلسلے میں تبدیلی لانے کی سفارش کی گئی تھی،اس میں یہ سفارش بھی کی گئی تھی کہ کمیشن کے دائرۂ اختیار کوبڑھایاجائے اوراس کی ہدایات کو عمل درآمدکرنے کی مدت کومختصرکیاجائے۔سچرنے شروع سے پارلیمنٹ میں خواتین کے ریزرویشن کی حمایت کی،ان کا موقف یہ تھا کہ اگر عورتوں کے لیے ایوان میں ریزرویشن ہواور وہاں ان کی مناسب تعداد ہو،تو قانونی اداروں میں خواتین کے ساتھ برتے جانے والے تعصب کو دور کیاجاسکتا ہے،2003ء میں انھوں نے سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن کے ساتھ مل کر امریکہ کی جانب سے عراق پر کیے جانے والے حملے کی کھل کر مذمت کی اوراسے ناجائز،نامناسب،بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اقوامِ متحدہ کے چارٹرکے خلاف قراردیاتھا۔انسانی حقوق کے تحفظ و حصول کے لیے ان کی بے مثال خدمات لازوال اورلائقِ تحسین ہیں۔403صفحات پر مشتمل سچر کمیٹی کی رپورٹ آج بھی قومی و بین الاقوامی سطح پر ہندی مسلمانوں کے مسائل و معاملات پر بحث و مباحثہ کے دوران بہ طورحوالہ ذکر کی جاتی ہے،یہ رپورٹ 2005میں پیش کی گئی اوراس کے اگلے سال پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھی،سات ممبران پر مشتمل اس کمیٹی نے ملک بھر کے مسلمانوں کی تعلیمی،سماجی و اقتصادی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے انھیں ملک کے پسماندہ و دلت طبقات سے بھی بدحال قراردیا،ساتھ ہی ان کے حالات کی بہتری کے لیے مفید سفارشات بھی پیش کی گئی تھیں،جن میں سے کئی سفارشوں پر سابق منموہن سرکارنے عمل بھی کیا،جبکہ سیاسی حکمت و منافقت کی وجہ سے اس رپورٹ کی سفارشات کو کماحقہ عملی جامہ نہیں پہنایاجاسکا۔
انتقال کے وقت جسٹس سچرکی عمر چورانوے سال تھی،ان کی پیدایش 22دسمبر1923ء کوہوئی اور آج 20؍اپریل2018ء کوان کی وفات ہوگئی۔ حیات کے بعد موت ایک حقیقت ہے اوراس حقیقت سے ہر ذی روح کو دوچار ہوناہے،البتہ مرنے مرنے والے میں فرق ہوتا ہے،یہ فرق کبھی معمولی ہوتا ہے اور کبھی غیر معمولی ہوتا ہے،راجندرسچرکی موت اور دوسرے انسانوں کی موت میں یقیناً غیر معمولی فرق ہے،کہ ان کی موت یقیناً ہندوستان بھر کے لیے، یہاں کے انصاف پسندطبقات کے لیے،مظلوموں،بے بسوں،لاچاروں،تعصب کے ماروں،حقوق سے محروم کیے گئے لوگوں کے لیے نہایت تکلیف دہ ہے۔قدرت نے انھیں علمی،فکری وقانونی لیاقتوں کے ساتھ دل کی روشنی اور دماغ کی کشاد سے بھی نوازا تھا،ان کی فکر میں وسعت اور سوچ میں آفاقیت تھی، انھوں نے برے سے برے وقت میں بھی انصاف اور حق کی راہ کو نہیں چھوڑااوراپنی پچاس ساٹھ سالہ عملی زندگی میں انصاف پروری و حق پژوہی کی بے شمار مثالیں قائم کیں،آج ہماری عدلیہ کٹہرے میں ہے اور آئے دن مختلف فیصلوں کی وجہ سے خود عدالتِ عظمیٰ کے جج ہی اس پر شکوک و شبہات قائم کررہے ہیں، ایسے میں راجندرسچرکی موت کا سانحہ اوربھی زیادہ دردانگیز ہے،کہ ان کی مثال تاریکی میں اجالے کے سراغ سی تھی!

You may also like

Leave a Comment