Home مباحثہ رائے کی قربانی

رائے کی قربانی

by قندیل

محمد اللہ قیصر
جنگ احد سامنے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرما ہیں، کبار صحابہ کی رائے ہے کہ مدینہ میں رہ کر کفار کا مقابلہ کیا جائے، ایک جماعت کی رائے ہے کہ باہر نکل کر مقابلہ زیادہ بہتر رہےگا، دوسری رائے پیش کرنے والوں میں اکثریت ان صحابہ کرام کی ہے جو اپنی کم عمری کے باعث بدر میں شرکت سے محروم رہ گئے تھے، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ مبارک میں تشریف لے گئے اور ہتھیار بند ہوکر باہر نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے فرمایا کہ مقابلہ باہر نکل کر ہوگا، کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی رائے کے خلاف فیصلے کو بلا چوں و چرا قبول فرمالیا؛ لیکن عبد اللہ بن ابی منافق نے یہ کہ کر خود کو الگ کر لیا کہ میری بات نہیں مانی گئی اس لئے وہ اپنے حامیوں کے ساتھ الگ ہوگیا.
اس واقعہ میں بڑا سبق یہ ہے کہ ابو بکر و عمر و عثمان و علی جیسے کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سواد اعظم کی رائے پر اپنی رائے کو قربان کر کے اتحاد کا ثبوت دیا اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر عمل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ فرما لینے کے بعد اپنی رائے کو اس طرح بھول گئے گویا انکی اپنی کوئی رائے تھی ہی نہیں، اور سب کچھ بھول کر تن من دھن سے جنگ کے لئے نکل گئے، دوسری طرف عبد اللہ بن ابی منافق نے اپنی رائے کو انا کا مسئلہ بنا لیا، اور سواد اعظم سے اختلاف کر کے خود کو الگ کر لیا،
اگر کبار صحابہ بھی اپنی رائے کی قربانی نہ دیتے تو کیا صحابہ کا اتحاد باقی رہتا؟ ہر گز نہیں، پتہ چلا کہ اتحاد کیلئے بنیادی شرط ہے رائے کی قربانی، اور جماعت میں ہر شخص اگر اپنی رائے پر اڑ جائے تو اتحاد کیسے باقی رہ سکتا ہے، ظاہر ہے دس لوگوں کی دس الگ الگ رائے ہو سکتی ہیں، اور بیک وقت سب پر عمل کرنا ناممکن ہے، کسی ایک امر پر ہی عمل کی گنجائش ہے تو ایسے میں بقیہ نو لوگوں کو تو اپنی اپنی رائے کی قربانی دینی ہی ہوگی ورنہ دس جماعت بنے گی، ایک تو ہرگز نہیں رہ سکتی.
*حضرت مولانا سلمان ندوی صاحب کے قضیہ میں بھی بنیادی طور پر دیکھئے تو اختلاف کی اصل وجہ یہی سامنے آتی ہے کہ مولانا نے اپنی رائے کی قربانی دینے سے انکار کر دیا، ایک طرح سے انہوں نے دوسرے علماء کو اپنی رائے کے تابع کرنے کی کوشش کی اور جب لوگوں نے انکا کردیا تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کیلئے نکل پڑے*،
اجتماعی کام کیلئے ہر گز ہرگز یہ نبوی طریقہ نہیں ہے، بلکہ امت میں انتشار پھیلانے والوں کا یہ شیوہ رہا ہے، ہمارے جتنے بھی آپسی اختلافات ہیں، چاہے وہ دارالعلوم دیوبند کا ہو یا جمعیت کا ، تبلیغی جماعت ہو یا مظاہر العلوم یا اس کے علاوہ کسی بھی چھوٹے بڑے اختلاف میں انتشار کی جو ایک مشترکہ وجہ سامنے آتی ہے وہ یہی کہ ان میں سے کسی جگہ رائے کی قربانی نہیں دی گئی جس نے شعلہ بن کر پوری جماعت کو خاکستر کر دیا، امت نے جن کو بڑا مانا وہ اپنی انا سے ہار گئے اور ان کےانا کے طوفان نے امت کے اتحاد کو تہس نہس کر دیا،اگرچہ اختلاف کرنے والے ہر جگہ کوئی دوسری وجہ بیان کرتے ہیں؛ لیکن کھیل در اصل اپنی ضد اور "انا،، کا ہی ہوتا ہے، اور اس ہٹ دھرمی کی چنگاری کو شعلہ بناتے ہیں ہم آپ جیسے مریدین،اندھے بھکت، حضرت (چاہے وہ کوئی بھی ہوں) جس کو دشمن کہیں اس پر ہزار لعنتیں بھیجتے ہم تھکتے نہیں؛ لیکن جونہی حضرت نے پینترا بدلا چشمِ زدن میں ہمارے بھی سُر بدل جاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ چلو اس بیکاری میں ہمیں بھی کچھ کام مل گیا، یہ حال ہے ایک قرآن اور ایک نبی کے ماننے والوں کا، حقیقت یہ ہے کہ (نعوذ باللہ) ہم نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بجائے اپنے اپنے حضرت کو اسوہ بنا لیا ہے، نبی کی محبت کے طوفان کے بھی سمندری طوفانوں کی طرح کچھ اوقات مقرر ہیں جو مخصوص حالات میں ہی آتے ہیں.
اس پورے منظرنامہ پر غور کریں تو معاملہ بالکل صاف ہو جائے گا کہ ہمارا دشمن جو پرسنل لا کو توڑنا چاہ رہا ہے، وہ اس میں کسی حد تک کامیابی کے قریب پہنچ چکا ہے، پہلے دن سے ہی یکے بعد دیگرے جو واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ یہی بتلا رہے ہیں کہ مولانا اپنے تمام علم و تجربات اور ہوشمندی کے باوجود روز بروز دشمنوں کے چنگل میں پھنستے جارہے ہیں، اور نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی، پہلے مولانا سے گفتگو، پھر انہی میں سے ایک کی طرف سے الزامات کی بارش، لگے ہاتھوں اس شیطانی الزام کی تردید اور فرقہ پرستوں کی طرف سے مولانا کا دفاع ،الزام لگانے والے کی تنظیم سے بظاہر برطرفی، یہ سب کچھ اتنے ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے جیسے ایک اسکرپٹ تیار ہے، اور مختلف کرداروں کے ذریعہ اسے اسٹیج پر پیش کیا جارہا ہے، اسلئے کہنا پڑتا ہے کہ.
کچھ راز ہے اس پردہ زنگاری میں.
دعا ہے کہ اللہ حضرت مولانا سلمان ندوی صاحب اور اس بکھری ہوئی امت کی حفاظت فرمائے.اور حضرت کو "رائے کی قربانی،، دینے کی توفیق عطا فرمائے…!!

You may also like

Leave a Comment