نورالسلام ندوی
ہمارا ملک ہندوستان مختلف مذہبوں اور متنوع تہذیبوں کا گہوارہ ہے،یہی وجہ ہے کہ اس کا مزاج سیکولر اورانداز جمہوری ہے، آئین اور دستور نے بھی یہاں کے تمام باشندوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا مکمل اختیار دیا ہے ۔ صدیوں سے اس ملک میں لوگ اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتے اور شیر و شکر ہو کر رہتے آرہے ہیں۔ لیکن نفرت کے سودا گروں اور مفاد کی سیاست کرنے والوں نے ہمیشہ مذہب کے نام پر ایسی حرکتیں کی ہیں جو ملک کے جمہوری اور دستوری اصولوں کے خلاف رہی ہیں۔ ابھی مرکز میں اتفاق سے ایسی حکومت ہے جن کا مقصد اور مشن شروع سے ہی یہ رہا ہے کہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو بکھیر دیا جائے اور یہاں کی سینکروں سالہ پرانی تہذیب و ثقافت کو ختم کر دیا جائے ، ملک کو ہندوراشٹر بنادیا جائے اور یکساں سول کوڈ نافذ کر دیا جائے، اس کے لئے مختلف حیلے اور بہانے سے شریعت پر وار کیا جاتا ہے۔ طلاق ثلاثہ بل بھی اسی کی ایک کڑی ہے ،مرکزی حکومت طلاق ثلاثہ بل کے ذریعہ عورتوں کو شریعت سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور دین و شریعت نے اسے جو حقوق و اختیارات دیئے ہیں اسے وہ چھین لینا چاہتی ہے ۔ سرکار اس کے نفاذ کے لئے پارلیمنٹ سے بل پاس کرا چکی ہے اور راجیہ سبھا سے پاس کرانے کی کوشش جاری ہے ۔ یہ بل نہایت عجلت میں تیار کیا گیا ہے ، اس میں بہت ساری خامیاں ہیں ، یہ آئین کی دفعہ 14 اور 15 کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ بل کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے اس بات پر بالکل غور نہیں کیا کہ جب شوہر تین سالوں کے لئے جیل چلا جائے گا تو اس کے بعد بیوی اور بچوں کو کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مطلقہ بیوی اور بچوں کا خرچ کون دے گا ؟ بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا ؟شوہر جب جیل میں ہوگا تو وہ بیوی کا خرچ کیسے برداشت کرے گا ؟ اگر وہ یومیہ مزدوری کرتا ہے تو کمانے سے رہا؟ اور اگر سرکاری نوکری میں ہے تو کیا تین سال کی سزا کاٹ لینے کے بعد اس کی نوکری برقرار رہے گی ؟ اور جب نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تو گذارہ بھتہ کس طرح دے گا ؟ اور کیا جب وہ تین سال جیل میں رہنے کے بعد واپس آئے گا تو اپنی بیوی سے خوش رہ پائے گا؟ جس کی وجہ سے وہ جیل گیا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بل سماج مخالف بھی ہے ،کیونکہ ایک سماجی معاہدہ کو قابل سزا جرم بنایا جا رہا ہے ،سول معاملہ کو کرمنل ایکٹ کے دائرہ میں لایا جا رہا ہے ، جو غیر اخلاقی اور غیر ضروری ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو مسلم خواتین کی فلاح و ترقی کی قطعی فکر نہیں ہے بلکہ وہ اس نام پر مسلم عورتوں کو شرعی امور سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور شریعت میں مداخلت کی راہ ہموار کررہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ملک آئین اور قانون کے مطابق چلے گا نہ کہ طاقت و اقتدار کے زور پر ۔
اس وقت برسراقتدار پارٹی طاقت اور حکومت کے بل پر ملک کو اس سمت میں لے جانا چاہ رہی ہے جہاں انصاف اور قانون بے چارہ ہوتا جا رہا ہے ۔ملک کے سامنے اس وقت بے شمار مسائل ہیں جن کا حل تلاش کیا جانا بے حد ضروری ہے،گھوٹالے پر گھوٹالے ہورہے ہیں،رشوت اور کرپشن کا بازار گرم ہے،بے روز گاری عام ہے،مہنگائی چرم پر ہے،کسان خود کشی کرنے پر مجبورہیں،نوجوان نوکری اور بہتر مستقبل کی تلاش کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں،جان ومال اور عزت وآبرو کے لالے پڑے ہیں، خواتین کی عصمتیں تار تار ہو رہی ہیں،انصاف نہیں مل رہا ہے،بھید بھاؤ اور نفرت کی جڑیں گہری ہوتی جارہی ہیں،اقلیتیں ،دلتوں،پچھڑوں اور کمزوروں کو خواہ مخواہ پریشان اور ہراساں کیا جا رہا ہے،ملک کی فضا کو مکدر اور زہر آلود کر دیا گیا ہے،اور صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حکومت کی نیت اور نیتی دونوں بگڑتی نظر آرہی ہے، مسلمانوں کے اسلامی تشخص اور ایمانی وجود پر ہر روز ایک نئی جہت سے یلغار کر رہی ہے ۔کبھی اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے، تو کبھی لو جہاد کا نعرہ لگا کر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیل رسید کیا جا رہا ہے،کبھی گؤ ہتھیا کے نام پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، توکبھی لاؤڈ اسپیکر سے اذان ہر پابندی لگانے کی بات کی جاتی ہے، کہیں نمازیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا جاتا ہے،کبھی طلاق کے خلاف قانون بنانے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی کسی اور طریقے سے شریعت میں مداخلت کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔
ان نازک حالات میںآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمدولی رحمانی مد ظلہ العالی کے مشورہ پر پورے ملک میں مسلم خواتین نے طلاق ثلاثہ بل کے خلاف خاموش اور پر امن احتجاجی مظاہر ہ شروع کر دیا ہے ۔ اور پہلی بار مسلم خواتین اتنی کثیر تعداد میں ہر شہر میں جمع ہو کر دینی بیداری اور ملی غیرت مندی کا ثبوت دے رہی ہیں۔ یہ مظاہرے تقریباً ہر بڑے چھوٹے شہر میں ہو رہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں خواتین سڑکوں پر نکل کر پر امن مظاہر ہ کر ہی ہیں اور حکومت سے طلاق ثلاثہ بل واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ مذکورہ بل شریعت میں مداخلت ہے اور یہ خواتین کے حقوق کے مغائر ہیں۔ اس بل سے خواتین کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید مشکلات پیدا ہو جائیں گے ، اس لئے فوری طور پر اس بل کو واپس لیا جائے ۔ مسلم خواتین ایمانی بیداری اور دینی حمیت کا جس طرح ثبوت پیش کرر ہی ہیں وہ لائق صد آفریں ہے ۔
وطن عزیز ہندوستان کی یہ خوبصورتی ہے کہ یہاں مختلف مذاہب اور ادیان کے لوگ بستے ہیں۔ زبانیں الگ ، تہذیب جدا، رنگ و نسل مختلف ، لیکن اس کے باوجود سب مل جل کر رہتے ہیں ،رنگا رنگی میں ایک رنگی ہمارے ملک کا امتیاز ہے ۔ ہندوستان ایک ایسا چمنستان ہے جہاں مختلف رنگوں کے پھول کھلتے ہیں جس دن اس چمنستان میں ایک طرح کا پھول کھلانے کی کوشش کی جائے گی اس دن اس کا حسن متاثر ہو جائے گا ، اس کا امیج پوری دنیا میں خراب ہو جائے گا،اس کا وجود ملیا میٹ ہو جائے گا، ایسے میں ہر انصاف پسند اور آئین کا احترام کرنے والے شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین اور دستور کی حفاظت کے لئے آگے آئیں، ان پر خطر اورپر آشوب حالات میں امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی مدظلہ العالی نے ’’ دین بچاؤ دیش بچاؤ‘‘ کے عنوان سے بہار کی دارالسلطنت پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں عظیم الشان کانفرنس منعقد کرانے کا فیصلہ کیا ہے ،جو 15 اپریل 2018 ء بروز اتوار کو ہوگا ۔ امیر شریعت نے کانفرنس کا جو موضوع متعین کیا ہے وہ نہایت جامع اور ہمہ گیرہے۔ چونکہ مسئلہ صرف دین اور شریعت کا نہیں ہے ، مسئلہ ملک کی دستورکی حفاظت کا ہے ، معاملہ جمہوریت کی بقاء کا ہے ، سیکولرا زم کی آبرو کا ہے ، اور سب سے بڑھ کر وطن عزیز کی سا لمیت کو باقی رکھنے کا ہے ، یہ بات وطن عزیز کے اکثر یتی فرقہ کے لوگوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس وقت مرکز ی سرکار کی جو پالیسی ہے اور جن خطوط پر وہ کام کر رہی ہے اس سے صرف دین اور شریعت کو خطرہ نہیں ہے، بلکہ ملک کی سا لمیت کو خطرہ لاحق ہے ،اور جب ملک سالم نہیں رہے گا تو نہ دین محفوظ رہے گا نہ دھرم، نہ ہندو محفوظ رہیں گے اور نہ مسلمان، نہ عیسائی نہ سکھ۔اس لئے اس ملک کی حفاظت اور دیش کی سا لمیت کے لئے آگے بڑھیں ، ایک مسلمان کے لئے جہاں دین اور شریعت پر عمل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے وہیں ملک اور دستور کی حفاظت کے لئے بھی جدوجہد کرنا ضروری ہے ۔ ہمارا ایمان ہمیں اس بات کا پابند بناتا ہے کہ ہم اپنے دین و شریعت پر مکمل طور پر عمل کریں اور جب اس میں مداخلت کی راہ ہموار کی جائے تو اس کے لئے سینہ سپر ہو جائیں ، اسی طرح ہمارا ایمان ہمیں اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ جب ملک و دستور کو خطرہ لاحق ہو تو وطن کی آبرو کے لئے جدو جہد اور کوشش کرنا بھی ایمانی تقاضا ہے ۔ امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی نے اسے شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے اور دین و شریعت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دیش اور ملک کی حفاظت کا بھی نعرہ دیا اور دین اور دیش کی حفاظت کے لئے آگے بڑھنے اور لڑنے کا حوصلہ دیا تاکہ دین بھی محفوظ رہے اور دیش بھی محفوظ رہے ، اور یہاں کے بسنے والے سبھی مذاہب کے لوگ مل جل کر محبت کے ساتھ رہ سکیں۔ اس لئے ہم سب دین اور دیش کی حفاظت کے لئے 15 اپریل کو پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں بڑی تعداد میں جمع ہو ں اور کانفرنس میں شامل ہو کر اس تحریک کو کامیاب اور با مقصد بنانے میں اپنا بھر پور تعاون کریں، اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیں کہ ہم کسی قیمت میں نہ تو شریعت میں مداخلت برداشت کریں گے اور نہ دستور میں ۔ ہم دین کی بھی حفاظت کریں گے اور دیش کی بھی، ہم جمہوریت کی آبرو اور سیکولرازم کی بقا کے لئے، وطن عزیز کی حفاظت کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ۔ کل بھی ہم نے ملک و ملت کے لئے قربانی دی تھی آج بھی اس کے لئے تیار ہیں اور آئندہ جب بھی ضرورت پڑے گی ہم اس کے لئے تیار رہیں گے۔
اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سب متحد اور منظم ہو کر 15 اپریل کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں’’ دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس ‘‘میں شامل ہوکر دین و شریعت اور ملک و دیش کی حفاظت کا عہد تازہ کریں ، اور اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیں۔’’ دین بچاؤ دیش بچاؤ کا نفرنس‘‘ ایک خوشگوار اور قابل صد مبارک اقدام ہے ۔ بہار کی تاریخی اور انقلابی سرزمین سے اٹھنے والی یہ تحریک دین اور دیش کی حفاظت کے لئے سنگ میل ثابت ہوگی۔( انشاء اللہ )
دین بچاؤ دیش بچاؤتحریک سے ملک کو نئی سمت ملے گی
previous post