( خدا کا شکر، ادبی حمیت و غیرت تو باقی ہے۔۔۔)
عظیم اختر
ملک کی عام سماجی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی کہلائے جانے والے دلت طبقے اور دوسری بڑی اکثریت کے خلاف حکمراں طبقے کے نورِ نظر اور بھگوا عناصر کی حیلوں بہانوں سے آئے دن کی متشددانہ کارروائیوں کی خبروں کے مقابلے میں گرچہ یہ خبر کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی لیکن چونکہ اردو کے تعلق سے ایک خبر ہے اور دہلی کے اردو والوں کے لیے قدرے اہم ہے اور اردو زبان کے تئیں حکمرانوں اور حکمرانوں کے چاپلوسی اورخوشامد کر کے اردو کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے عہدوں پر جھپٹّا مارنے والے اردو کے نام نہاد بڑوں کے رویّوں سے متعلق ہے جس نے ہماری انگلیوں میں سچائیاں رقم کرنے کے لیے ایک بار پھر قلم تھما دیا ہے۔ خبروں کے مطابق چندر بھان خیال جیسے مشہور نظم گو شاعر اور صحافی نے دہلی کی اردو دنیا میں غیر معروف اور گمنام افراد کو دلّی اردو اکاڈمی کی سیمینار کمیٹی، تعلیمی کمیٹی اور تحقیق و اشاعت کمیٹی کے کنوینر کے طورپر سجائے جانے کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دیتے ہوئے کہا ہے کہ عام پارٹی کے حامی افراد کو ممبر بنائے جانے پر انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ ایسا تو سبھی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں، لیکن اردو زبان و ادب کے میدان میں جن لوگوں کا نہ تو کوئی کام ہے اور نہ ہی مقام، انھیں اہل افراد سے زیادہ اہمیت اور ترجیح دے کر فائدہ پہنچانے کی کوشش نہ صرف زبان و ادب کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے بلکہ دلّی کے اردو عوام کے ساتھ نا انصافی اور دھوکہ ہے۔ لہٰذا احتجاجاً وہ دلی اردو اکادمی سے علاحدگی اختیار کر رہے ہیں۔ انھوں نے کیجریوال کو لکھے اپنے خط میں کہا ہے کہ دلی سرکار نے اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دینے والے افراد کو نظر انداز کر کے اپنے چہیتے لوگوں کو سب کمیٹیوں کا سربراہ بنا کر یہ ثابت کر دیا کہ انھیں اردو کی تعمیر و ترقی اور اس کے فروغ میں قطعی دلچسپی نہیں ہے۔
چندر بھان خیال کے استعفے اور اس کے محرکات کے بارے میں گفتگو کرنے سے پہلے ہم یہ بتا دیں کہ اردو دنیا پر چھائے ہوئے آج کے زمانے کے غیر مسلم ادیبوں اور شاعروں میں ہم چندر بھان خیال اور رام کرشن کپور کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور دوسروں پر فوقیت دیتے ہیں کیونکہ ان دونوں حضرات نے اردو ماحول میں آنکھ نہیں کھولی، اردو با ضابطہ کسی اسکول میں نہیں بلکہ صرف اپنے ذوق و شوق سے مجبور ہو کر خود اردو سیکھی اور وہ استعداد بہم پہنچائی کہ آج اردو دنیا میں ایک شاعر اور انشاء نگار کی حیثیت سے خاصے مشہور ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں اردو کی غزلیں سن کر اس کی شیرینی سے ذہنی طورپر متاثر ہو کر از خود اردو سیکھنے اور اس میں غیر معمولی استعداد حاصل کرنے والے چندر بھان خیال اور رام کرشن کپور جیسے اردو پرست حضرات ہم جیسے پیدائشی اردو والوں کے لیے نہ صرف سرمایہ افتخار ہیں بلکہ قابلِ احترام و محبت ہیں۔
چند ماہ پیشتر جب دلی کے حکمرانوں نے دلی اردو اکاڈمی کی تشکیلِ نو کی تھی تو اس وقت نامزد ممبران میں چندر بھان خیال اور ڈاکٹر اطہر فاروقی کے نام دیکھ کر ہمیں حیرت ہوئی تھی، ممکن ہے کہ اس کالم کے قارئین کو یاد ہو کہ ہم نے لکھا تھا کہ دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اور نائب وزیرِ اعلیٰ اردو دنیا سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اردو میں ان دونوں حضرات کے مرتبے سے ناواقف ہیں۔ حکومتِ دہلی نے ان دونوں حضرات کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور دہلی اردو اکادمی کی مجلسِ عاملہ میں ایک معمولی ممبر کے طوپر نامزد کر کے سراسر زیادتی کی ہے۔ اس نامزدگی کو بے قدری اور ہتک کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوک سبھا یا راجیہ سبھا کے ممبر رہ چکے کسی سیاستداں کو اگر کسی محلہ سدھار کمیٹی کا ممبر بنا دیا جائے تو عزتِ نفس کی خاطر وہ سیاستداں کبھی اس طرح کی ہتک اور بے قدری برداشت نہیں کرے گا۔ ہمارا خیال تھا کہ چندر بھان خیال اور ڈاکٹر اطہر فاروقی اپنے ادبی مرتبے کو اس طرحDegradeنہیں ہونے دیں گے۔لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ اطہر فاروقی تو ابھی تک اکاڈمی کی ممبری سے چپکے ہوئے ہیں اور خیالؔ نے صرف اس لیے استعفیٰ دیا ہے کہ ان کو سرے سے نظر انداز کر کے اکاڈمی کی سب کمیٹیز کا تاج دلی کے غیر معروف لوگوں کے سروں پر رکھ دیا گیا ہے یعنی اگر خیال صاحب کو کسی سب کمیٹی کا کنوینر بنا دیا جاتا تو ان کو دلی کے موجودہ حکمرانوں کی اردو دوستی میں کوئی کھوٹ نظر نہیں آتا۔
چندر بھان خیال بذاتِ خود قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان جیسے مؤقر ادارے کے وائس چیئر مین رہ چکے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ حکومت کے وزراء طبقے کے پاس غیر معمولی مصروفیت اور کام کی وجہ سے اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے نورِ نظر اور چہیتے لوگوں کو سروں پر اس قسم کی سب کمیٹیز کا تاج رکھنے کے لیے زبانی یا تحریری احکام صادر کریں ۔ عام طورپر دفتر کا سربراہ فائل پر اس طرح کی جو تجاویز یا پروپوزل بھیجتا ہے متعلقہ وزیر ان کو بجنسہٖ منظور کر دیتا ہے، ہمیں یقین ہے کہ یہاں بھی دلی کے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ نے اکاڈمی کے ذمہ داروں کی طرف سے بھیجے گئے پروپوزل کو منظوری دے کر حقِ ذمے داری ادا کیا ہوگا۔ ہم چندر بھان خیال ؔ کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اردو زبان و ادب کے میدان میں جن لوگوں کا نہ تو کوئی کام ہے اور نہ ہی کوئی مقام، ایسے لوگوں کو اہل افراد سے زیادہ ترجیح نہیں دی جانی چاہیے تاکہ مقصد مجروح نہ ہو۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ نے اپنے چہیتوں کے سروں پر اکادمی کی سب کمیٹیز کا تاج رکھنے کا حکم صادر کیا تھا تو وائس چیئر کا یہ فرض تھا کہ وہ دلی میں اردو کے فروغ کے لیے نہایت سنجیدگی سے تعمیری قدم اٹھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ان نامزدگیوں کے مضر اثرات اور نتائج کی طرف اربابِ اقتدار کا دھیان دلاتے ہوئے اپنا فرض ادا کرتے، لیکن اس سچائی کا کیا کیا جائے کہ سفارش اور خوشامد کے طفیل عہدوں پر پہنچے ہوئے افراد آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کبھی بات نہیں کر سکتے اور ہمیشہ یس مین (Yes man)ہی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ دلی اردو اکادمی کے قیام سے لے کر آج تک اس کے سربراہوں نے اردو دنیا میں اپنا بت تراشنے اور دہلی اردو اکاڈمی سے اپنے حواریوں کو ہمہ جہت فائدہ پہنچانے کے لیے صرف Yes manہی کا کردار ادا کیا ہے اور دہلی میں عوامی سطح پر آج بھی اردو کے فروغ کا بنیادی مقصد آہ و بکا کررہا ہے۔
دہلی اردو اکاڈمی کے قاعدے اور ضابطوں سے سب کمیٹیوں کے فیصلوں میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا اختیار صرف اکاڈمی کی مجلسِ عاملہ کو ہی حاصل ہے۔ اس لیے اکاڈمی کا ہر وائس چیئر مین اس ادارے پر اپنا مکمل کنٹرول رکھنے اور اکاڈمی کے خطیر رقوم کے ایوارڈز سے اپنے منظورِ نظر ادیبوں اور شاعروں اور نقدوں کو نوازنے کے لیے ان سب کمیٹیوں کی سربراہی عام طورپر ان ممبران ہی کو سونپنا اپنی بنیادی ذمے داری سمجھتا ہے جو اس کی ہاں میں ہاں ملائیں اور دہلی میں اردو کے فروغ کے نام پر خویش پروری اور دوست نوازی کا سلسلہ چلتا رہے اور ان سب کمیٹیز کے کمزور کنوینر حضرات ربڑ اسٹمپ کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔ چندر بھان خیال شاید اس بنیادی حقیقت کو بھول گئے کہ اکاڈمی جیسے اداروں کا کوئی بھی سربراہ اپنے سے زیادہ صلاحیت افراد کی موجودگی کو آسانی سے حلق سے نہیں اتارتا چہ جائیکہ ان کا با اختیار سب کمیٹیوں کا سربراہ بنا کر ایک مسلسل دردِ سر مول لے اور اول خویش بعد درویش کے مصداق اپنے حوالیوں موالیوں کو ہر قسم کے فائدے پہنچانے کی شدید خواہشوں کو پوری نہ ہونے دے۔
بہر حال چندر بھان خیال نے ایک اِشو بنا کر اکاڈمی سے پلّہ جھاڑ لیا اور ادبی غیرت و حمیت کا ثبوت دیا۔ اب دیکھیے ڈاکٹر اطہر فاروقی کب اور کس بنا پر استعفیٰ دیتے ہیں؟؟
M: 9810439067
دلّی اردو اکاڈمی سے چندر بھان خیال کا استعفیٰ!
previous post