Home نظم درد نیا تو ہوگا ہی

درد نیا تو ہوگا ہی

by قندیل

تازہ ترین، سلسلہ 68

فضیل احمد ناصری

جس کا سب گھربار لٹا،مجبورِنواتوہوگا ہی
یارو میرا زخم نیا ہے، درد نیا تو ہوگا ہی

جانتےسب ہو،میرے لمحےکن حالات میں کٹتےہیں
مانا تم بھی دیکھ نہ پائے، تم نےسناتو ہوگا ہی

سنگ مزاجو! تم بھی اپنےمستقبل کی فکر کرو
ظلم بھی اک دن مٹ جاتا ہے،تم نے پڑھا تو ہوگا ہی

ناحق تم الزام نہ ڈالو ہم پر دہشت گردی کا
کون ہے قاتل،کون ہےدشمن، تم کو پتا تو ہوگا ہی

ظلم کریں اربابِ حکومت، ان پہ زبانیں مت کھولو
پہلی پہلی بار ملی ہے، اس کا نشہ تو ہوگا ہی

نام تمہارا لیتے ہیں تو ہم پہ خفا کیوں ہوتے ہو
جس نےکسی کا دل توڑاہے،اس سے گلا تو ہوگا ہی

اہلِ کلیسا تیغ بکف ہیں، اہلِ حرم چوپالوں میں
اس تدبیر پہ داورِ محشر ہم پہ ہنسا تو ہوگا ہی

کفر سراپا جہدِ مسلسل، دور رہے ہم مذہب سے
کام برے انجام دیے، انجام برا تو ہوگا ہی

ہم ہی نہ اٹھے اپنی بقا کی تدبیریں اپنانے کو
تیل نہ ہو موجود اگر، خاموش دیا تو ہوگا ہی

You may also like

Leave a Comment