عظیم اختر
اردو کے نام پر کھانے کمانے، شہرت و عزت حاصل کرنے سے لے کر حکومتِ وقت کے اعلیٰ سولین ایوارڈز و اعزازات پانے اور اردو کے تحفظ و فروغ کے نام پر قائم کیے جانے والے اداروں کے اعلیٰ و پرکشش عہدوں پر شب خون مارنے والے مشاعروں اور سمیناروں کے لیے لازم و ملزوم سمجھے جانے والے شاعروں اور دانش گاہوں کے ورکنگ اور ریٹائرڈ پروفیسر حضرات تو اپنے حلوے مانڈھے کی خاطر اس حقیقت کو شاید کبھی بھول کر بھی زبان پر نہ لائیں، لیکن ہمیں اس زمینی سچائی کو رقم کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ اردو کو گرچہ ہندوستانی عوام کی مشترکہ زبان کہا جاتا ہے لیکن اس کی ترویج و ترقی میں اس ملک کے ایک مخصوص طبقے نے ہی عملی طورپر بنیاد گزار کا کردار ادا کیا ہے اور مدارسِ دینیہ کی شکل میں اس مخصوص طبقے کا وہ بنیادی رول آج بھی جاری ہے۔ اگر غیر جانبدار ی کا چشمہ لگا کر اردو کی ترویج و ترقی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ اردو کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک ملک اوربیرون ملک میں اس زبان کی ترویج و ترقی اور اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے والوں کی نسلیں تیار کرنے میں مدارسِ دینیہ نہایت خاموشی کے ساتھ ایک ایسا مثبت رول ادا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جو ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ کانفرنسوں اور سیمناروں میں اردو کی ترویج و ترقی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس زبان کے دانشور، مفکر، مدبر حضرات بڑی دور کی کوڑیاں لاتے ہیں لیکن اردو کے تئیں مدارسِ دینیہ کی خاموش خدمات کو دیدہ و دانستہ نظر انداز کر دیتے ہیں تاکہ اردو کی اسلامی اساس (Islmic Ethose)کی وہ بنیادی وجہ نظروں سے اوجھل رہے جس کی وجہ سے آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی ملک کی اکثریتی طبقے نے اس زبان پر اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ کے لیے اس طرح بند کیے ہیں کہ آج ان علاقوں میں اردو اخبارات و رسائل پڑھنے والے تو کجا اردو اخبارات اور رسائل کی ردّی کی پرچھائیاں تک نظر نہیں آتیں۔
گنگا جمنی تہذیب کی امین اور ہندوستانی عوام کی مشترکہ زبان کہلوائی جانے والی اردو کے ساتھ اکثریتی طبقے کی سرد مہری اور بے وفائی نے اس کو اپنے گھر سے بے در، بے گھر تو یقیناًکر دیا لیکن دینی مدارس کی شکل میں اس کو ایک ایسی محفوظ پناہ گاہ مل گئی ہے جہاں سے اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے والوں کی ہر دور میں نسلیں تیار ہوتی رہیں گی۔ اس کا تمام تر سہرا دارالعلوم دیوبند کے سرجاتا ہے جس کے قائم کرنے والے خدا رسیدہ ، نیک اور صالح بزرگوں نے اردو کو ذریعۂ تعلیم بنا کر اس کی ملک و بیرون ملک میں ترویج و ترقی کا خاموشی کے ساتھ وہ ڈول ڈالا جس کے بارے میں اس وقت سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
آج ہمارے ملک کے اکابرین نے خلیجی اور یوروپین ملکوں کے بہت سے چھوٹے بڑے شہروں میں ملازمتوں اور کاروبار کے سلسلے میں مقیم اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے والے پاکستانی تارکینِ وطن کی چھوٹی بڑی ادبی و شعری سرگرمیوں سے متاثر ہو کر اردو کی نئی بستیوں کا نام دے دیا ہے اور اردو کی ان نام نہاد نئی بستیوں کے حوالے سے ہم اردو والوں کو یہ مژدہ سنا رہے ہیں کہ اردو اب یوروپین ملکوں کے بہت سے شہروں میں پہنچ کر ایک عالمی زبان بن گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو کی ان نام نہاد نئی بستیوں میں اردو کا چلن صرف پاکستانی مہاجرین کے گھروں تک محدود ہے اور پاکستان سے دور ان ملکوں میں پیدا ہونے والے ان کے بچے بھی اردو کے حروفِ تہجی سے آشنا نہیں ہیں۔جبکہ دار العلوم دیوبند نے اپنے قیام سے لے کر اب تک اپنے یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے والے ہزارہا غیر ملکی طلبا کو اردو کی تعلیم دے کر اچھا خاصا اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے والا بنا کر اردو کو عالمی سطح تک پہنچانے میں ایک خاموش کردار ادا کیا ہے جس پر اردو کی ترقی و اشاعت کے حلقوں کی ابھی تک نظر نہیں گئی اور نہ شاید کبھی پہنچے، کیونکہ ان کے یہاں یوروپ کے کسی ملک میں مشاعرے یا سیمنار کا انعقاد ہی اردو کے عالمی زبان بن جانے کا نام ہے۔
اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ دارالعلوم کے قیام کے مختصر سے عرصہ کے بعد ہی اس کی شہرت بامِ عروج پر پہنچ گئی اور یہ مدرسہ دینیہ اپنے ابتدائی سالوں میں ہی نہ صرف ہندوستان بلکہ افغانستان، وسطِ ایشیا، انڈونیشیا، برما، تبت ، سیلون اور مشرقی و مغربی افریقہ کے ممالک کے لیے مسلمانوں کی ایک بین الاقوامی تعلیم گاہ بن گئی اور مختلف ممالک کے طلباء دینی تعلیم حاصل کرنے کی چاہ میں دیوبند کا رخ کرنے لگے جو اردو کے ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے اپنے دورانِ قیام اچھی خاصی اردو لکھنی، پڑھنی اور بولنی سیکھ جاتے ہیں اور پھر اپنے اپنے وطن پہنچ کر اس کی اشاعت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ سید محبوب رضوی اردو زبان کی ترویج کے تئیں دارالعلوم دیوبند کی خاموش خدمات کے حوالے سے تاریخِ دار العلوم دیوبند کی پہلی جلد میں رقم طراز ہیں کہ ’’ چند سال پہلے ایک غیر مسلم ہندوستانی سیاح جنھوں نے دنیا کے بہت سے ممالک کی سیاحت کی تھی، دارالعلوم کا شہرہ سن کر دیوبند تشریف لائے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ روسی علاقوں کی سیاحت کرتا ہواجب میں بخارا پہنچا جو وسطِ ایشیا کا مشہور مقام ہے تو وہاں ایسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی جنھوں نے مجھے ہندوستانی سمجھ کر اردو میں مجھ سے گفتگو کی، مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ہندوستان سے اس قدر دور دراز علاقے میں اتنی صاف اردو ان کو کیوں کر آئی ہوگی، میرے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی فیض ہے، اور ہم ہی نہیں بلکہ یہاں کا علمی حلقہ بالعموم اردو بولتا اور سمجھتا ہے۔ انھوں نے نہایت اخلاق و محبت سے میرے ہندو ہونے کے باوجود مجھے اپنے یہاں مہمان ٹھہرایا اور میرے اعزاز میں ایک شان دار پارٹی دی، جس کی یہ خصوصیت میں کبھی نہیں بھولوں گا کہ اس میں جس نے بھی تقریر کی وہ اردو میں کی۔‘‘
تاریخِ دارالعلوم دیوبند کے فاضل مؤلف مزید لکھتے ہیں کہ ’’ اسی طرح کا ایک واقعہ ہمارے آنجہانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ان کے دو رۂ روس کے موقع پر پیش آیا، پنڈت نہرو کو تاشقند کے ہوائی اسٹیشن پر وہاں کے باشندوں کی طرف سے جو سپاس نامہ پیش کیا گیا وہ اردو میں تھا، جسے وہاں کے ایک ازبک نے پڑھ کر سنایا، پنڈت نہرو کو اس پر حیرت ہوئی اور انھوں نے بھی سپاس نامہ کا جواب اردو ہی میں دیا، جسے اخبارات کے بیان کے مطابق حاضرین نے سمجھا اور جوابی تقریر کے دوران سامعین نے متعدد بار تالیاں بجائیں۔ آنجہانی پنڈت نہرو نے جب سپاسنامے کی رواں دواں اردو زبان کے بارے میں پوچھا تو وہاں کے ذمے داروں نے بتایا کہ تاشقند میں دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جو خاصی روانی سے اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔اسی طرح جنوبی افریقہ کے فضلائے دارالعلوم کی مادری زبان گرچہ انگریزی یا گجراتی ہوتی ہے لیکن وہ آپس میں خط و کتابت اردو میں ہی کرتے ہیں۔ کینیا جو مشرقی افریقہ میں واقع ہے اس کے صدر مقام نیروبی کے مسلم حلقوں میں فضلائے دارالعلوم کی وجہ سے اردو کا خاصا چلن ہے۔ رنگون میں بھی فضلائے دارالعلوم کی وجہ سے اردو اجنبی زبان نہیں ہے۔ غرض کہ اس طرح دارالعلوم دیوبند نے اردو کے دائرے کو اپنے فضلاء کے ذریعے سے دنیا کے تقریباً تمام ایشیائی و افریقی ممالک تک وسیع کر کے ہندوستان کی اس زبان کو بین الاقوامی زبان بنانے کا اہم کام پچھلے اسّی نوے برسوں سے خاموشی کے ساتھ مسلسل انجام دے رہا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ اردو کے دانشور، مدبر، مفکر حضرات اور اردو کی خدمت کے نام پر توصیفی اسناد بانٹنے والے نقادوں نے آج تک اس مذہبی ادارے کی اس گرانقدر خدمت کا کھل کر تو کجا اشارتاً کنایتاً بھی اعتراف نہیں کیا کہ مبادا ان کی سیکولر سوچ پر مذہب پرستی کا ٹھپہ نہ لگ جائے۔
M: 9810439067
دارالعلوم دیوبند (اردو کو بین الاقوامی زبان کے درجے تک پہنچا دینے والا پہلا اور آخری ادارہ)
previous post
14 comments
بالکل درست فرمایا، یہ مضمون واقعی چشم کشا ہے خصوصاً ہمارے فضلاء دارالعلوم دیوبند کے لیے جو عصری درس گاہوں میں مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں، اس موضوع کی طرف بھی متوجہ ہوں
يه ناقابل إنكار حقيقت هے كه اردو زبان كى ترويج اوراشاعت ميں دارالعلوم دیوبند كابهت بڑاكردارتهااورهنوز هےاروان شاءالله رهےگااوردارالعلوم ديوبند هى كى وجه سےااردوزبان بيرون ممالك بلكه أفريقه كے جنگلات ميں بهى سنى اوربولى جاتى هے اوريه دارالعلوم دیوبند كےفيض يافته لوگوں كى دين،
ماشاءﷲ
سو فیصد درست ۔حقیقت کی عکاسی۔ بے باک تحریر۔ مدارس دینیہ نے اردو زبان کو جو عروج و ترقیات سے نوازا ھے اس پر لکھنے کے دفاتر درکار ہونگے۔ ان کی مساعی و کوششوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ھے۔ اور المیہ یہی ھے کہ جن کانفرنسوں اور سیمناروں میں کچھ اردو محب حضرات (جو محض زبانی جمع خرچ کرتے ہیں) اپنی تحریروں و مقالات میں اردو سے زیادہ دیگر زبانوں کا سہارا لیتے ہیں؛ چونکہ زبان کا اثر معاشرے اور رہن و سہن پر پڑنا ناگزیر ھے ۔ اور اردو زبان کی لطافت و چاشنی ادب و اخلاق نرمی تواضع سکہاتی ھے ۔ جو کہ غیر اردوں داں طبقے میں ندارد ھے۔
ہم سے ادا ہوا ھے جگر جسےجو کا حق
ہر ذرے کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں
ہم سے ادا ہوا ھے جگر جستجو کا حق
ہر ذرے کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں
موصوف نے سولہ آنے درست بات لکھی ھے، اور یہ بات بلا شبہ قسماً کہی جاسکتی ہے کہ عربی کے بعد اسلامیات کی حامل اور اگر کوئی زبان ھے تو وہ پورے عالم میں صرف اردو ھے اور اردو کو اس مرتبہ پر پہنچانے میں دارالعلوم دیوبند کا کلیدی کردار رہا ہے
ناقابل فراموش حقیقت کو بیان کیا ھے، لیکن افسوس یہ ھے کہ ھم نے اس حقیقت کو یا تو فراموش کرنے کی کوشش کی یا کم از کم نظر انداز کردیا ھے……. اسلیے میری اہل قلم حضرات سے درخواست ھے کہ اس موضوع پر وقتا فوقتاً خامہ فرسائی کرتے رہیں…….. تاکہ حقیقت کم از کم حقیت پسند لوگوں کے سامنے آتی رھے…………..
جی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے اردو کے فروغ کے لئے جو کام کیا ہے اس سے پہلے شاید ہی کسی نے کیا ہو اور اردو کے نام پر خدمت کرنے والے اکثر تو اپنے بچوں کو اردو تعلیم سے ہی محروم رکھتے ہیں فضلاء مدارس اسلامیہ نے اردو کی ترویج وترقی میں جو کام کیا ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے
بہت خوب؛ یہ بلکل درست فرمایا کہ اردو زبان کی ترویج و ترقی میں دارالعلوم دیوبند نے اہم کردار ادا کیا ہے؛ انھیں اداروں کی وجہ سے آج اردو زبان زندہ ہے اور عالمی سطح پر پھل پھول رہی ہے.
یہ مبنی برحقیقت تحریر ہے, اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دارالعلوم دیوبند نے جہاں بہت سے کامیاب مدرس دیئے ہیں وہیں بہت سے اردو کے پروانوں کو بھی جنم دیاہے, جن کی اردو کے تئیں بے شمار قربانیاں ہیں, اس تحریر کی صداقت کا اندازہ دارالعلوم دیوبند کے جداری پرچوں سے بھی لگایا جاسکتاہے جو بڑی تعداد میں احاطہ مولسری میں آویزاں رہتے ہیں اورطلبہ جنہیں اپنے شوق سے شائع کرتے ہیں اور اپنی تحریری صلاحیت کو جلا بخشتے ہیں.
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ :ہ اردو کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک ملک اوربیرون ملک میں اس زبان کی ترویج و ترقی اور اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے والوں کی نسلیں تیار کرنے میں مدارسِ دینیہ نہایت خاموشی کے ساتھ ایک ایسا مثبت رول ادا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جو ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ اردو ہے جس کا نام اسے جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ؛ ہ اردو کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک ملک اوربیرون ملک میں اس زبان کی ترویج و ترقی اور اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے والوں کی نسلیں تیار کرنے میں مدارسِ دینیہ نہایت خاموشی کے ساتھ ایک ایسا مثبت رول ادا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جو ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہا ہے۔
صرف دارالعلوم دیوبند ہی نہیں بلکہ اردو کے فروغ اور اس کی ترویج و اشاعت میں تمام ہی مدارس کا اہم کردار رہا ہے اس لیے کہ مدارس میں تعلیم و تدریس کی زبان اردو ہی ہے