فضیل احمد ناصری
درد و الم کی بھیڑ میں یارو! خوش کن باتیں یاد کہاں
ہنسنے کا دل خوب کرے ہے، لیکن دل ہی شاد کہاں
ہر مسند پر ان کا جلوہ، ہر محفل میں ان کی دھوم
ایسی ناہموار فضا میں لے جائیں فریاد کہاں
بزمِ جہاں میں خون کے پیاسے اور بھی قاتل آے ہیں
تم جیسا محبوب مگر عالم میں ستم ایجاد کہاں
دین گیا، دنیا بھی گئی، سب کچھ ہاتھوں سے چھوٹ گیا
گھر بھی نہیں، صحرا بھی نہیں ہے، ہم جیسا برباد کہاں
اس کے ہاتھ سے شیریں نکلی، اپنے ہاتھ سے ملک گیا
ضبطِ فغاں میں ہم سے بڑھ کر کوہ شکن فرہاد کہاں
میری عیادت کرنے والو! پاس سے میرے اٹھ جاؤ
تم نازک ہو، سن پاؤگے درد بھری روداد کہاں
عزمِ جواں کے کوہِ گراں وہ، ہم آوارہ پتّے ہیں
نام کی نسبت رہ گئی ورنہ، اوصافِ اجداد کہاں
پھنس گئی دنیا، یاجوج و ماجوج کے خونیں پنجے میں
عالَم میں آباد سبھی ہیں، انساں ہی آباد کہاں
جاؤ کسی کمزور کو مارو، آگ لگاؤ شہروں میں
اس دربار کی فطرت میں ہے شعر و سخن کی داد کہاں
درد بھرے اشعار تو عنبر اور بھی شاعر کہتے ہیں
میر کی باتیں سب سے جدا ہیں، ان جیسا استاد کہاں
2 comments
خوب بہت خوب
ویسے تو عنبر صاحب کی خوش گوئی اور خوب گوئی کے تو ہم قائل ہوہی چکے ہیں لیکن اس مرتبہ تو انھوں نے کمال ہی کردیا،کیا زمین منتخب کی! کیا انداز اپنایا!!اور کیا سوز چھلکایا!!!مجھے تو بے ساختہ کسی کی یاد آگئی۔
میرا خیال ہے کہ احباب بھی سمجھ ہی گئے ہوں گے
ارے بھائیمیرا اشارہ میر ثانی جناب کلیم عاجز صاحب کی طرف ہے،ان ہی کا طرز،وہی لب ولہجہ،وہی سوزاور چبھن اور وہی دردو کڑھن۔
جزاک اللہ عنبر صاحب،ان پارینہ یادوں کو تازہ کرنے اور ان سے شاگردی کے اعزازی نسبت کو باقی رکھنے کے لیے۔
جزاکم اللہ احسن الجزاء
جناب سعیدی صاحب! اپنی نظموں پر آپ کے تبصرے پڑھے، مصروفیات کے باعث بروقت اظہارِ تشکر نہ کر سکا۔ آپ کے تبصرے سے مجھے اس معنیٰ کر زیادہ مسرت ہوئی کہ آپ نے صرف تحسین ہی نہیں کی ہے، بلکہ کوئی چوک ہوئی تو اس پر استدراک بھی کیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ اس سے لکھنے والے کی نظر مزید تیز ہوتی اور غلطیوں کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔ امید ہے کہ آپ کی کرم فرمائیاں یوں ہی جاری رہیں گی۔ ان نظموں کی حقیقت سرِدست مسودے کی ہے۔ جلد ہی ان کا ایک مجموعہ بنام "آؤ کہ لہو رو لیں” لا رہا ہوں۔ اصل حک و فک وہیں ہوگا۔ تاہم کوشش ہوتی ہے کہ سردست پیش کردہ نظمیں بھی خامیوں سے خالی رہیں۔ آپ کا ایک مرتبہ پھر شکریہ۔