Home ستاروں کےدرمیاں خوشبو، احساس اور خواجہ غریب نوازؒ

خوشبو، احساس اور خواجہ غریب نوازؒ

by قندیل


حقانی القاسمی
شہر مر جاتے ہیں، عمارتیں مرحوم ہو جاتی ہیں۔ شہنشاہوں کی بنائی ہوئی عالیشان فلک بوس عمارتیں اپنی ویرانی پہ روتی ہیں۔ ان میں نہ کوئی زندگی ہے نہ زنگی کی رمق، مگر بزرگوں کے آستانوں میں زندگی، تابندگی اور رخشندگی نظر آتی ہے۔ شاہی محلات کی دیواروں پہ افسردگی چھائی رہتی ہے اور اضمحال طاری رہتا ہے۔ لیکن بزرگوں کے مزاروں پر اضطراب، التہاب، محبت، شفقت اور نورِ حیات نظر آتا ہے۔
خواجہ معین الدین چشتیؒ کا ’اجمیر‘ اب بھی زندہ ہے اور چہار دانگ عالم میں تقدس اور نسبت خواجہ کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اپنا الگ مقام بنائے ہوئے ہے۔ ان کے آستانے پر خلقت کا ہجوم ہوتا ہے اور ہر طرف عرفانی لکیریں رقصاں نظر آتی ہیں۔ ان کی وفات کو صدیاں بیت گئیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں پر ان کی حکمرانی قائم ہے، وہ حکمرانی جو تا دیر رہتی ہے۔ ان کی درویشی میں بھی شہنشاہی تھی، ان کی فقیری میں بھی بادشاہی تھی۔
خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا اس ’تسلسل‘ سے سلسلہ تھا جو ازل سے ابد تک ہے، جو حی قیوم ہے۔ ان کی پوری زندگی خدا کی معرفت اور اس کی جستجو میں ہی گزر گئی۔ الوہی وجود کے علاوہ تمام وجود کی نفی ہی انسان کو خدا سے قریب کرتی ہے اور کہتے ہیں کہ تصوف خدا اور انسان کے درمیان محبت کا ایک نہایت پر اسرار معاملہ ہے اور خواجہ صاحب تصوف کے اعلیٰ مقام پر تھے۔ آسمان سے ان کا رابطہ تھا، اس لیے ساری زمین ان کے لیے مسخر ہو گئی تھی۔ انھوں نے تیغ و تفنگ سے نہیں، بلکہ اپنے کردار و گفتار کی پاکیزگی اور زبان کی شیرینی سے لوگوں کے دلوں کو موہ لیا اور لوگ ان کے قریب آتے گئے۔ جنہوں نے خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی خوشبو اور احساس کے ساتھ چند ساعتیں گزار لیں، ان کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ انھوں نے جس طرح ایک بے آب و گیاہ علاقے کو سرسبز و شاداب کیا، ایک ویرانے کو آباد کیا، اسی طرح لوگوں کے ویران دلوں کو بھی انہوں نے شاد باد کیا۔ انھوں نے درد نہیں بانٹے، بلکہ درد کا درماں کیا۔ ان کے پاس محبت کا وہ نسخۂ کیمیا تھا کہ ہر پریشان حال ان کی قربت میں اپنے آلام و آزار بھول جاتا تھا۔ ان کی ایک نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی تھیں اور یہ شرف اللہ تعالیٰ نے اس قربت کی وجہ سے دیا تھا جو خواجہ صاحب کو خداوند قدوس سے تھی۔
خواجہ صاحب شاعر تھے یا نہیں! یہ مسئلہ زیادہ اہم نہیں ہے، لیکن ان کے قول و عمل، کردار و گفتار، ذہنی رویے اور طرز احساس میں جو Symmetry تھی، اس نے ان کی پوری شخصیت کو شاعری میں بدل دیا تھا۔ ان کے یہاں جو ترتیب، تنظیم اور کائنات و فطرت سے ہم آہنگی ہے، اس کی وجہ سے نہ صرف ان کی زندگی شاعری تھی، بلکہ صاحب سوز تھے اور ان کے پاس دلِ گداختہ تھا اور یہی تو شاعری کے لیے شرط ہے۔ ان کی دل کی گداختگی کو شاعر ی کا پیرایہ مل گیا تھا، اس لیے چاہے ان کا دیوان الحاق ہو یا منسوب، لیکن اتنی بات طے ہے کہ ان کے اندر شاعرانہ سوز و گداز تھا اور ان کا پورا وجود شاعری میں ڈھلا ہوا۔ انھیں کی مشہور رباعی ہے:
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین
یہ صرف حضرت امام حسینؓ کی ہمت و شجاعت، دلیری و بہادری کو خراجِ عقیدت نہیں ہے، بلکہ اس میں اسلام کی اساس مستور ہے۔ اسلام کی پوری بنیاد ہی طاعت مخلوق سے اجتناب اور وحدت الٰہیہ پر ہے۔ خدا کی ذات میں اگر کوئی دوسرا شریک ہو جائے تو خدا کی وحدانیت پر حرف آتا ہے۔ ہر چیز کی نفی ہی سے خدا کا اثبات ہے۔ اسی لیے لا الٰہ کی بنا حضرت حسینؓ کو قرار دیا ہے کہ انھوں نے حکم خداوندی کے آگے کسی اور کے حکم کو ماننے سے، کسی اور کی اطاعت سے انکار کر دیا۔
جب انسان کے دل میں خدا کا خوف جاگزیں ہو تو ساری دنیا کا خوف دل سے ختم ہو جاتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ حق اور صداقت کا ایک عظیم اور ازلی استعارہ ہیں۔ انھوں نے جو روش اپنائی، وہی اہل عزیمت کی روش ہوتی ہے کہ سر کٹا دیں گے، مگر سر جھکائیں گے نہیں۔ خدا کے سوا کسی اور کے سانے سر نہ جھکے، یہی تو بندگی ہے، یہی اسلام ہے، یہی Submission ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے اسی حسینی روایت کو اسلام کا بنیادی تصور خیال کیا ہے۔ اس طرح بے سروں کے قافلے اور موجِ منصوری سے ہی حق گوئی کی روایت زندہ ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی کی اس رباعی میں جو مفاہیم اور معافی مضمر ہیں، اس کی تفہیم کے لیے چشم بینا چاہیے۔ انھوں نے اسلام کے جس حرکی اور انقلابی تصور کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کی پوری زندگی بھی اسی تصور پر مبنی تھی۔ انھوں نے خدا کے علاوہ کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ شہنشاہوں اور بڑے بڑے امراء کے ظلم و جبر کے آگے سرنگوں نہیں کیا۔ انھیں ہمیشہ نصرتِ غیبی ملتی رہی اور ہندوستان جیسی اجنبی اور غیر مانوس سرزمین میں وہ محبتوں کے چراغ روشن کرتے گئے اور اس چراغ کی روشنی سے صرف ہندوستان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا منور ہوئی۔ ان کی فکر اور احساس کا نور ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ کیا شہنشاہ، کیا بادشاہ، کیا امراء، سبھی انہی کے چراغ سے روشنی حاصل کر رہے ہیں اور اپنے تاریک اور ظلمت زدہ ذہنوں کو منور کر رہے ہیں۔ خواجہ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے وہ قوت ودیعت کی تھی کہ وہ ایک گوشے سے ہر جگہ حکمرانی کر رہے تھے۔ یہ عزت اور شرف اللہ تعالیٰ صرف اپنے مخصوص اور برگزیدہ بندوں کو ہی عطا کرتا ہے۔
آنکھیں جب بند ہوتی ہیں تو باطنی وجود کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اہل تصوف کی نگاہ میں صرف خدا کا جلوہ ہوتا ہے اور آنکھ بند ہوتے ہی خدا سے ایک لا سلکی رشتہ قائم ہو جاتاہے اور خدا و بندے کے درمیان رابطے کی بہترین شکل سامنے آتی ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ خدا کے مقرب بندوں میں سے تھے، اس لیے ہر شے میں خدا کا ہی جلوہ اور ہر چیز میں اسی کا نور دیکھتے تھے اور خدائے مطلق کی ذات کے سوا کسی اور کا وجود ان کے ذہن میں نہیں تھا۔ خدا سے گہرے تعلق کی وجہ سے کائنات کے اسرار بھی ان پر منکشف تھے اور وہ کائنات کی رمزیت اور سریت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ خدا سے تعلق ہی بندگانِ خدا سے ربط کا وسیلہ ہے۔ ان کی زندگی Organic unity تھی۔ غیر منقسم وجود کے قائل تھے، صرف انسانی وجود پر ان کا ایقان تھا۔ اعلیٰ، ادنیٰ، ذات، رنگ و نسل کی کوئی قید نہیں تھی کہ انسان جب خدا کے وجود میں پوری طرح غرق ہو جاتا ہے تو اسے خدا کی مخلوق میں ہی اسی خلاق کی صناعی نظر آتی ہے اور وہ ہر مخلوق کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ خواجہ صاحب کے وجود میں انسانی آنکھیں تھیں، اسی لیے وہ ہر انسان کو مساوی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کا فلسفہ تھا ’’تو برائے وصل کردن آمدی‘‘۔ وہ دلوں کے تار جوڑنے والے تھے، توڑنے والے نہیں تھے۔ انھوں نے اپنا پیغام محبت بھی مزاحمانہ نہیں، بلکہ مفاہمانہ انداز سے پیش کیا اور یہی وجہ ہے کہ بغیر کسی مزاحمت کے لوگ ان کے پیغام محبت کے جلو میں آتے گئے اور اور ان لوگوں کے شب و روز، عادات و اطوار، اعمال و کردار بدلتے گئے۔
سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا فلسفہ حیات، محبت اور عشق تھا، مگر اس محبت میں وہ صداقت بھی شامل تھی جو اہل حق اور حریت کا شیوہ ہے۔ وہ جو حضرت حسینؓ کا طریق ہے، انھوں نے کبھی سچائی سے انحراف نہیں کیا، کبھی مفاہمت نہیں کی۔ یہی سچائی جس کی جستجو انسان کو زندگی بھر رہتی ہے اور یہی سچائی جو انسان کو حقیقت مطلقہ تک پہنچاتی ہے۔ وہی خواجہ غریب نواز کی سرشت میں تھی۔
خواجہ صاحب نسبتاً حسینی اور حسنی تھے اور ان کی رگوں میں بھی وہی خون دوڑ رہا تھا اور اسی خون اور خودی نے حق اور حریت کی عظیم علامت حضرت امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ’’حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین‘‘۔ یہ رباعی ان کے آستانے کے دروازے پر جلی حرفوں میں لکھی ہوئی ہے اور انھیں سے منسوب ہے۔ یہ صرف ایک رباعی نہیں، پوری دنیا کے لیے ایک پیغام ہے حق اور حریت کا ۔ ناانصافی، ظلم، جبر، تمرد، طغیانی کے خلاف اعلائے کلمۃ الحق کا۔ اس شعر میں جو مفاہیم مضمر ہیں، ان میں ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اہل ابتلا ہزاروں آزمائشوں اور ہر طرح کی اذیتوں کے باوجود اپنی اساس سے منحرف نہیں ہوتے۔ وہ اپنے فکری محور سے گریز نہیں کرتے کہ انسان کے دل میں جب ایک عقیدہ مستحکم ہوجائے تو پھر اس عقیدے کی راہ میں چاہے جتنی بھی رکاوٹیں، موانع اور مشکلات آئیں، وہ اپنے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہتا ہے اور اس رباعی میں یہی پیغام مخفی ہے۔
اسلام کو زندگی ہر کربلا کے بعد ملتی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کا بہت مشہور شعر ہے ’’قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے، اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘۔ یہ شعر بھی دراصل خواجہ معین الدین چشتی کی اسی فکر سے مستفاد ہے اور اسی حسینی روایت کی توسیع کہ اہل اسلام حق اور حریت کی راہ میں ہر طرح کی مشکلات برداشت کرتے ہیں اور ظاہری اسباب و علائق سے قطع نظر نصرتِ غیبی پہ یقین رکھتے ہیں۔ طارق بن زیاد کی کشتی جلانے کا معاملہ ہو یا کوئی اور واقعہ، حقیقت یہی ہے کہ کشتیاں جلانے کے بعد ہی اہل حق اور حریت کی راہیں ہموار اور منزلیں روشن ہوتی ہیں۔ حضرت امام حسینؓ پر جو مصیبتیں آئیں، جن قیامتوں سے گزرے، ایسے حالات میں ان کے لیے عافیت کی راہ تو یہی تھی کہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے، انھیں زندگی مل جاتی اور کنبے کو راحت، مگر ان کے ضمیر نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کی جائے جس کے ہاتھ ظلم اور جبر اور خون کے دھبوں سے بھرے ہوئے ہوں۔ اس لیے انھوں نے ’حرفِ انکار‘ بلند کیا اور یہی حرف انکار اسلام کی اصل اور اساس ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے جو پیغام دیا وہ پیغام صرف ملت اسلامیہ کے لیے نہیں ہے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے کہ وہ ظلم اور جبر کے خلاف جب تک آوازیں بلند نہیں کریں گے تب تک انسانیت استحصال کی چکی میں پستی رہے گی۔ انسانیت کی تکریم اور شرفِ آدمیت کے لیے ضروری ہے کہ ایسی طاقتوں کے خلاف آواز بلند کی جائے جو انسان مخالف ہوں۔
حضرت امام حسینؓ انسانیت کے مسیحا تھے، اس لیے انھوں نے یزید کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کر دیا اور ہمارے اہل تصوف اور اربابِ طریقت بھی اسی حسینی روایت کو اپنے کردار و گفتار سے زندہ رکھے ہوئے ہیں اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اسی حسینی روایت کی ایک زندہ اور تابندہ مثال تھے۔

You may also like

Leave a Comment