تازہ ترین، سلسلہ66
فضیل احمد ناصری
گنا جاتا ہے ان کو آج کل پردہ نشینوں میں
نہ ڈھونڈو جرأت و غیرت سعودی آبگینوں میں
وہ دل،کل تک جو روحانی جزیرےتھے محمدؑ کے
بتوں کی جلوہ باری ہے انہیں پر نور سینوں میں
نظر پڑتی ہے امت پر تو رو دیتا ہے دل میرا
تعیش آ گیا کیسا یہ جنت کے مکینوں میں
ہماری بزدلی پر آسماں کی آنکھ روتی ہے
عدو کھل کر لیےپھرتے ہیں خنجر آستینوں میں
قیامت کا سفر ہے اور مومن ہیں کہ سوئے ہیں
دراڑیں ڈال دیں موجِ مسلسل نے سفینوں میں
کبھی ایواں میں بنتےتھےصنم والوں کےمنصوبے
مگر اب قسمتیں تحریر ہوتی ہیں مشینوں میں
کہاں سے بارگاہِ حق تعالیٰ میں کریں سجدے
شیاطیں کے بسیرے ہیں مسلماں کی جبینوں میں
ہمارے عہد کے اردو ادیبوں کا نہ کچھ پوچھو
نشستیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں پیہم نازنینوں میں
وہ شاہیں، جن کا پیغمبرؑ سے ملتا ہے نسب نامہ
نشیمن چھوڑ کر بیٹھے ہیں افرنگی لعینوں میں