مولانا فضیل احمد ناصری القاسمی
استاذ حدیث و نائب ناظم تعلیمات جامعہ امام محمدانورشاہ، دیوبند
مارچ کی ۳۱؍ویں تاریخ تھی، دارالعلوم وقف دیوبند کے احاطے میں غلہ اسکیم کا جلسہ منعقد تھا، اسی جلسے میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھا، بالکل خالی الذہن، جلسہ حسب روایت چل رہا تھا، اسی دوران کہ اب ’’حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ایک مثالی شخصیت‘‘کی رسم اجراء ہوگی، اس کتاب کے مصنف مولانا احمد سجاد قاسمی ہیں، یہ کتاب صد سالہ اجلاس کے موقع پر لکھی گئی تھی اور اس وقت چھپی بھی تھی،لیکن اب نایاب تھی، مصنف کتاب آفتابِ فقہ حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب ’’رحمۃ اللہ علیہ ‘‘کے صاحب زادے ہیں، میں چونکا کہ اناؤنسر صاحب کیا بول رہے ہیں، وہ ہوش میں بھی ہیں یا نہیں، دو تین ثانیے کے بعد وہ خود ہی بولے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج ہی وہ مرحوم ہوگئے ہیں، پہلے صرف چونکا ہی تھا، اب بھونچکا رہ گیا، بجلی کی چکاچوندیاں اور اجلاس کی رنگینیاں کوئی کام نہ آسکیں، آنکھوں کے سامنے جو اندھیرا چھایا تھا اس کی سنگینی کچھ ایسی ہی تھی، غم و اندوہ کے ساتھ رات بسر ہوئی، صبح ہوئی تو مرحوم کی یادیں تھیں اور صدمات کے سائے تھے۔
حضرت مفتی صاحب کے نام و کام سے آشنا پہلے سے تھا اور اس وقت سے جب کہ زلف نے پریشانی کا خواب بھی نہ دیکھا ہوگا، استاذ مکرم حضرت مولانا مفتی محمد ابوبکر قاسمی مفتی و استاذ مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ (دربھنگہ) کے کمرے میں ایک کتاب دیکھی، جس کا نام تھا ’’حیاتِ مولانا گیلانی‘‘ نئی کتابوں کو الٹنے پلٹنے کا شوق بچپن سے رہا ہے، وہ کتاب پڑھی تو معلوم ہوا کہ اپنے عہد کے ایک صاحب طرز ادیب اور اردو زبان و ادب میں علمائے دیوبند کے نمائندہ حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ کی سوانح ہے، جو مفتی ظفیرالدین مفتاحی نامی کسی عالم کے قلم سے ہے، شعور کی نمود ہی کا دور تھا، ابھی اس کی پختگی کا کوئی سوال نہ تھا، لیکن محسوس ہوا کہ صاحب کتاب نے صاحب سوانح کو جس رنگ میں پیش کیا ہے، وہ بڑا جاذب اور گہرا رنگ ہے، اس میں سہل نگاری کے ساتھ سحرطرازی بھی ہے، عقیدت و محبت کی چمن آرائی بھی ہے،معلومات کی فراوانی بھی ہے، شیریں زبانی کے دل کش نمونے بھی ہیں، کتاب کی عمارت جن بنیادوں پر کھڑی ہے وہ درحقیقت مولانا گیلانی کے تحریری ترشحات ہیں، ان ترشحات کے ساتھ مصنف کی پیوندکاری اتنی دل کشا معلوم ہوئی کہ میں نہ صرف مصنف کی قلمی بانکپن کا معتقد ہوا بلکہ نادیدہ طور پر ان کی اہم شخصیت کا علمی مرید بھی ہوگیا۔
ان کی اس کاوش کے بعد ذہن نے ان کی شخصیت کا جو خاکہ تراشا اس میں ہر طرح کا رنگ تھا،علم و فہم بھی، رعب و داب بھی، جلال و جمال بھی، صدق و صفا بھی، لیکن ۱۹۹۶ء میں بصیغہ طالب علمی جب دارالعلوم پہنچا اوران کی پہلی بار زیارت ہوئی، تو یقین ہی نہیں آیا کہ مفتی ظفیرالدین مفتاحی نامی عبقری روح جسم کے جس قفص عنصری میں بسیرا کرتی ہے وہ اس شان اور اتنی سادگی کا پیکر ہوسکتاہے، ایسا لگتا تھا کہ جس خاکی تن پر مفتی مذکور کا اطلاق ہوتا ہے اس کا حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے جو کچھ ہے سب مجاز ہے:
ترا رعبِ علم و کمال تھا جو ہمیشہ صیغۂ راز میں
کوئی کم نظر نہ سمجھ سکا کہ ہے کیا لباسِ مجاز میں
(عنبر ناصری)
مفتی صاحبؒ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی، ۷؍مارچ ۱۹۲۶ء مطابق ۲۱؍شعبان ۱۳۴۴ھ میں صوبہ بہار میں واقع ضلع دربھنگہ کے ایک قصبہ پورہ نوڈیہہ میں انہوں نے آنکھیں کھولیں، تین چار سال کی عمر ہوئی کہ مکتب کی آمد ورفت انھوں نے شروع فرمادی، پانچ سال کے ہوئے تو گاؤں سے دور بہت دور اپنے چچازاد بھائی حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب سابق امیر شریعت خامس بہارواڑیسہ کی معیت میں مدرسہ محمودیہ راج پور ترائی نیپال کے لیے رخت سفر باندھا، مولانا عبدالرحمن صاحب اس مدرسے کے صدرالمدرسین تھے، غور کیجیے، اتنی کم سنی میں اقامتی ادارہ میں رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے، ایک کم سن بچہ اس وقت خود کو غریب الدیار سمجھتا ہے، لیکن انھوں نے دل جمعی کے ساتھ پڑھا اور اس وقت تک منہمک رہے جب تک انھوں نے اپنی طالب علمی کازمانہ ختم نہیں کرلیا، اپنی خود نوشت سوانح ’’زندگی کا علمی سفر‘‘ میں انھوں نے لکھا ہے کہ فراغت کے بعد خیال آیا کہ اب آرام کرنے کا موقع ملے گا لیکن زندگی کے دوسرے جھمیلے کسی کو کب چھوڑتے ہیں، پھر انھوں نے اپنی جدوجہد بھری زندگی کی جو تفصیلات پیش کی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی سنگریزے کو ہیرا بننے میں صرف سال دو سال کافی نہیں ایک عرصۂ دراز درکار ہوتا ہے، ہر طرح کی ٹھوکریں کھانے اور چیلنج قبول کرنے کے بعد ہی کامیابی کی منزل ہاتھ آتی ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بہت مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
تعلیم و تربیت
اولاد کی تربیت میں والدین کی تمنا اور ان کی کوشش بڑی زود اثر ہوتی ہے، مفتی صاحب کے والد محترم منشی شمس الدین صاحب کوئی دینی تعلیم یافتہ نہ تھے، ان کے پاس جو تعلیم تھی وہ عصری تھی، اس لیے وہ ریلوے کے ملازم تھے البتہ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کا بچہ عالم دین بنے، اس مقصد کے تحت انھوں نے اپنے بچے کو گاؤں کے مکتب میں بٹھایا جہاں میاں جی محمد یوسف صاحب پڑھاتے تھے، میاں جی نے مفتی صاحب کو ہندی، پہاڑے، قواعد بغدادی پھر پارۂ عم پڑھایا، پانچ سال کی عمر ہوئی تو مدرسہ محمودیہ راج پور ترائی نیپال حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کے ساتھ تشریف لے گئے، یہاں پارۂ عم سے شروعات کی، ناظرہ قرآن حافظ میاں جان صاحب سیتامڑھی اور ان کے بعد حافظ محمدجان صاحب مظفرپوری سے پڑھا، ناظرہ خوانی مکمل ہوئی تو درجہ حفظ میں بٹھا دیا گیا، ڈیڑھ پارہ تک پہنچے ہی تھے کہ ان کے استاذ نے مولانا عبدالرحمن صاحب کو بتایا کہ بچہ بہت چھوٹا ہے، درجہ حفظ اس کے لیے مناسب نہیں، چناں چہ بھائی صاحب نے انہیں درجہ اردو میں داخل کیا، اس درجے میں اردو کی مختلف کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، یہ درجہ مولانا (عبدالرحمن) کے ذمہ تھا، اس لیے مفتی صاحب نے اردو کا قاعدہ اور اردو کی پہلی انھیں سے پڑھی، اردو آگئی تو تعلیم الاسلام پھر دروس التاریخ (للخیاط) قواعد اردو اور اخیر سال میں مسدس حالیؔ بھی پڑھی، مؤخر الذکر تینوں کتابیں تقریباً انھیں ازبر یاد تھیں، ہر شب جمعہ کو مکالمے ہوتے جن میں طلبہ کی یادداشت اور اسباق سے ان کی دل چسپیوں کا جائزہ لیا جاتا۔
مفتی صاحب کی ذہانت
مفتی صاحب بڑے ذہین و طباع واقع ہوئے تھے،انہوں نے کبھی استاذ کی مارنہیں کھائی، حافظہ قوی تھا، جو بھی کتابیں پڑھتے انھیں زبانی یاد کرلیتے، جو بھی ان سے سوال کرتا فرفر جواب دے دیتے، حجاب و شرم اور ڈروخوف جو اکثر بچوں میں پایا جاتا ہے بالکل نہ تھا، اپنے عہد طفولیت کا ایک واقعہ انھوں نے اس طرح لکھا ہے کہ:
’’سالانہ امتحان مولانا عبدالرزاق نامی ایک غیر استاذ نے لیا جو ایک دوسرے مدرسے میں مدرّس اوّل تھے وہ ہماری یاددشات اور حاضر جوابی سے حیرت زدہ رہ گئے، ان اسباق میں ہم صرف تین ساتھی تھے، مظفرحسین، واعظ الحق مرحوم اور خاکسار ظفیرالدین، عمر میں یہ دونوں مجھ سے بڑے تھے، ذکاوت و تیزی میں مجھے لوگ ترجیح دیا کرتے تھے، سمجھ ان دونوں کی اونچی تھی اور یادداشت میری۔‘‘ (زندگی کا علمی سفر، ص:۲۳)
مدرسہ وارث العلوم چھپرا میں
نیپال میں ڈھائی سال رہ کر ۱۵؍جنوری ۱۹۳۳ء کو گھر چلے آئے اور مولانا عبدالرحمن صاحب کی معیت میں مدرسہ وارث العلوم چھپرا (بہار) منتقل ہوگئے، یہ ۳۳ء کا ابتدائی ماہ تھا، مولانا عبدالرحمن صاحب یہاں بھی بحیثیت صدرالمدرّسین ہی آئے، یہاں آمدنامہ، عزیز القواعد اور ضوابط فارسی شروع ہوئیں، ضوابط فارسی مولانا عبدالرحمن صاحب سے اور آمدنامہ سید محمد قادری سے پڑھیں، ڈیڑھ سال تک فارسی کتابوں میں لگے رہے، ۳۴ ء آیا تو عربی چہارم میں داخلہ لیا، اس درجہ میں کتاب الصرف، نحومیر، علم الصیغہ اور مرقاۃ (منطق) پڑھی، مرقاۃ کے استاذ مولانا شاہ محمد حبیب تھے، ۳۵ء میں پنجم، ۳۶ ء میں ششم عربی پڑھی، ۳۷ء میں عربی ہفتم پڑھا، جس میں قدوری،کافیہ، اوضح المسالک، قلیوبی، اخوان الصفا اور مستطرف جیسی کتابیں تھیں، اسی سال اس مدرسے میں مفتی صاحب نے جمعےۃ الطلبہ کی بنیاد رکھی جس میں طلبہ تقریر کی مشقیں کیا کرتے تھے، اسی سال مفتی صاحب نے ۳؍ستمبر کو یومِ فلسطین کا جلوس نکالا، جو جامع مسجدچھرہ سے شروع ہوا اور پورے شہر میں گشت کیا، اپریل ۳۸ء میں فوقانیہ کا امتحان دیا، جس میں تمام مدارس کا سینٹر مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ تھا، اپنی قلمی صلاحیتوں کو صیقل کرنے کے لیے اسی سال ماہ نامہ ’’القاسم‘‘ نکالا اور اس کے مدیر قرار پائے، مدرسہ وارث العلوم حکومت ہندسے فوقانیہ تک ہی منظور تھا اس لیے اس مدرسے کی باضابطہ طالب علمی اسی سال مکمل ہوگئی، البتہ فوقانیہ امتحان میں کامیابی کے بعد اپنے چچازاد بھائی مولانا عبدالرحمن صاحب کے مشورے سے مزید تعلیم کے لیے دو سال اور ٹھہر گئے، اس مدت میں انھوں نے پرائیویٹ طور پر اگلی کتابیں پڑھیں، یہ سلسلہ دو سال تک چلا، اس دوران مفتی صاحب کا اس مدرسے میں مدرّس عربی پنجم کی جگہ تقرر بھی ہوا جہاں انھوں نے پڑھنے کے ساتھ پڑھایا بھی، ۱۹۴۰ء میں جب مولوی کا امتحان ہوا تو مفتی صاحب نے ٹسٹ اور فائنل سارے امتحان میں شرکت کی ، حالاں کہ انھوں نے مولوی کی کتابیں باضابطہ نہیں پڑھی تھیں، تیاری بھی نہیں کی تھی، لیکن یہ ان کی ذہانت اور اخاذ فطرت ہی تھی کہ سکنڈ ڈویژن سے پاس ہوئے، اس طرح ۳۳ء سے ۴۰ ء تک کا تعلیمی زمانہ مدرسہ وارث العلوم چھپرا میں گزارا۔
مدرسہ مفتاح العلوم مؤ میں
نومبر ۴۰ ءمطابق ۹؍شوال ۱۳۵۶ھ میں اپنے استاذ مولانا نظیر احمد صاحب کے صاحبزادے مولوی اظہار الحق کے ساتھ مدرسہ مفتاح العلوم مؤ کے لیے روانہ ہوگئے، پہلی ملاقات مولانا قاری ریاست علی سے ہوئی جو اپنے وقت کے خدارسیدہ ، صوفی منش اور جید الاستعداد عالم دین تھے، میرے والد حضرت مولانا جمیل احمد ناصری صاحب مدظلہ نے بھی دارالعلوم مؤ میں ان سے پڑھا ہے، قاری صاحب کے ایماء پر مفتی صاحب نے مدرسہ مفتاح العلوم کی راہ لی، جہاں انھوں نے اعلیٰ تعلیم میں داخلے کے لیے امتحان کی درخواست دی، اس وقت ناظم مدرسہ مولانا محمد ایوب صاحب تھے، انھوں نے خود امتحان لیا، اور بے حد خوش ہوئے، مفتی صاحب کا بیان ہے کہ انھوں نے مجھے اختیار دے دیا کہ جس جماعت میں چاہو داخلہ لے لو، اس لیے میں نے شرح وقایہ کی جماعت میں داخلہ لے لیا، اس پر ناظم مولانا ایوب صاحب نے ٹوکا کہ یہ کتابیں تم تو پڑھ چکے ہو، پھر دوبارہ پڑھنے کا کیا فائدہ؟ ہدایہ میں داخلہ لے لو، چناں چہ میں نے ہدایہ میں داخلہ لے لیا، تعلیم تو مدرسے میں پاتے رہے، لیکن مولانا ایوب کے اشارے پر چھتر پورہ کی مسجد کے ایک کمرے میں قیام کیا، وہاں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے، اسی کمرے میں انجمن لمعات البیان کی بنیاد رکھی اور قلمی پرچہ ’’لمعات‘‘ کا آغاز کیا، اگلے سال جماعت جلالین میں داخلہ لیا، یہ ۴۲ ء تھا، اسی سال اگست میں فرنگیوں کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑو تحریک‘‘ شروع ہوگئی اس لیے تعلیمی سلسلہ موقوف ہوگیا، یہ پورا سال وطن میں ہی گزرا، اس دوران موقع غنیمت سمجھ کر عالم کے امتحان میں شرکت کی، چوں کہ وارنٹ گرفتاری کا ان کے خلاف بھی تھا، اس لیے انھوں نے روپوشی اختیار کرلی، ۴۳ء میں جب حالات معمول پر آئے تو محدثِ کبیر مولانا حبیب الرحمن الاعظمیؒ کی اطلاع پر دوبارہ مفتاح العلوم پہنچے اور وہیں سے دورۂ حدیث شریف پڑھ کر ۱۹۴۴ء میں فراغت حاصل کی، بخاری اور ترمذی مولانا اعظمی سے پڑھی، جب کہ مسلم اور ابوداؤد مولانا عبداللطیف نعمانی سے، مولانا محمد یحییٰ اور مولانا شمس الدین مؤی بھی دورۂ حدیث میں ان کے استاذ تھے، فراغت کا یہ سن ہجری اعتبار سے ۱۰؍شعبان ۱۲۶۳ھ تھا۔
فراغت کے بعد
مدرسہ مفتاح العلوم سے فراغت کے بعد مفتی صاحب مزید تعلیم چاہتے تھے، انھوں نے محقق دوراں، مؤرخِ اسلام حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کی لکھی ہوئی کتاب حیاتِ شبلی دیکھ رکھی تھی، اس نے سید صاحب کی عقیدت پیدا کردی، دارالمصنفین اعظم گڑھ اس وقت ہندوستان بھر میں اپنی تحقیق و تدقیق، علم و فن کی نئی نئی دریافت اور نوادرات کی اشاعت میں اپنی دھاک جماچکی تھی، اس لیے مفتی صاحب کی خواہش ہوئی کہ سید صاحب کی خدمت میں رہ کر مزید علم حاصل کرلیں، اس سلسلے میں مولانا اعظمی اور مولانا ندوی کے درمیان گفتگو بھی ہوئی تھی، مولانا ندوی کو کسی نئے فاضل کی تلاش تھی جو فقہ میں تخصص کرنے کا خواہش مند ہو، مولانا اعظمی نے مفتی صاحب کا نام بڑے وقیع اور مضبوط پیرائے میں پیش کیا، مفتی صاحب ان سے ملاقات کے لیے اعظم گڑھ ملاقات کے لیے پہونچ گئے، سید صاحب جون پور تشریف لے گئے تھے، دودن کے بعد واپس آئے تو ملاقات ہوئی، آنے کی غرض بتائی، سید صاحب نے آزمانے کے لیے بڑی ردّ وقدح کی، فرمانے لگے کہ میرے ساتھ رہ کر تم زیادہ سے زیادہ دو چار کتابوں کے مصنف بن جاؤ گے، اس سے کیا ہوگا، یہاں نہ تمھیں دین ملے گا، نہ دنیا، تمہارے پاس جو علم ہے آخرت سنوارنے کے لیے وہی کافی ہے، یہ تقریر کرنے کے بعد فرمایا ’’ظہر بعد ملئے‘‘، ظہر کے بعد ملاقات کے لیے گئے تو پھر آزمائش کے طور پر وہی تقریر دہرائی، اس پر مفتی صاحب نے جو مسکت جواب دیا اس سے مفتی صاحب کی ثاقب ذہنی خوب آشکارا ہوتی ہے، فرمایا:
حضرت اقدس! واقعہ یہ ہے کہ اس وقت نہ مجھے دولت اور شہرت کی خواہش ہے، اور نہ ولی کامل بننے کا ارادہ، میں تو یہ تمنا لے کر حاضر ہوا ہوں کہ عمر کا ایک حصہ میں نے پڑھنے میں صرف کیا ہے مگر جسے علمی رسوخ کہتے ہیں مجھے حاصل نہیں ہوا ہے اور نہ اپنے علم پر پورا اعتماد ہے، چاہتا ہوں کہ رسوخ فی العلم کا کوئی گوشہ میرے اندر بھی پیدا ہوجائے۔ (زندگی کا علمی سفر، ص:۳۸)
مفتی صاحب کا ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ
اس گفت و شنید کے بعد سید صاحب نے فرمایا کہ جب ایسا ہے تو تمہیں ندوہ میں پڑھنا پڑے گا اس لیے درخواست لکھ دو، کہا، منظور ہے۔ درخواست لکھ کر سید صاحب کو دے دی تو فرمایا کہ ندوہ چلے جانا، مفتی صاحب ندوہ کے ارادے سے پہلے وطن پہنچے، لیکن ہوا یہ کہ انہیں اچانک حدتِ خون (ٹی بی) کا مہلک مرض لاحق ہوا اور کئی ماہ اس میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ محرم آگیا، محدث کبیر سے خط و کتابت چل رہی تھی، انھوں نے فرمایا کہ تم یہیں (مفتاح العلوم) آجاؤ، تمہارے لیے تربیت افتاء کا شعبہ اپنے طور پر قائم کیا جائے گا۔
چناں چہ ۱۴؍محرم ۱۳۶۴ھ کو مؤ پہنچے، یہاں آئے تو ایک بڑے حادثے کا علم ہوا،ایسا حادثہ جس نے اہل شہر کی ہوا اکھاڑ دی، وہ یہ کہ محدث کبیر مفتاح ا لعلوم سے اب دارالعلوم دیوبند جارہے ہیں، جہاں وہ صدر مفتی کے فرائض انجام دیں گے، دارالعلوم کے ارکانِ شوریٰ نے باضابطہ انہیں طلب کیا ہے، مفتی صاحب کا خواب چکنا چور ہوگیا، مفتاح العلوم سے کئی اساتذہ کے چلے جانے اور پھر محدث کبیرکے مستعفی ہوجانے سے اساتذہ کی اسامیاں خالی رہ گئیں تھیں، اس لیے اربابِ مفتاح نے انہیں اپنا مدرّس چن لیا، وہاں چند ماہ ہی رہنا ہوا تھا کہ ایک سازش کے تحت انہیں مدرسے سے برطرف کردیا گیا، ان کی بحالی کی محدث کبیر سمیت بڑے اساتذہ نے کوشش کی، لیکن کام یابی نہ ملی، مفتی صاحب کا دل اچاٹ ہوگیا اور گھر چلے گئے، ۱۹۴۵ءمیں ندوہ پہنچے، جہاں مولانا شاہ حلیم عطا صاحبؒ ، مولانا ناظم ندویؒ اور مولانا اسحاق سندیلویؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، جس جماعت میں داخلہ ملا اس میں ساری کتابیں پڑھی پڑھائی تھیں، چند ایام کے بعد ہی ان کی طبیعت اکتا گئی، مولانا اویس ندوی نگرامی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ چھٹی گزار کر ندوہ واپس آئے تو انہوں نے بھی مفتی صاحب سے کہا کہ پڑھی کتابیں پڑھنے سے کیا فائدہ؟ تم میرے گاؤں چلے جاؤ، وہیں مدرسہ معدن العلوم نگرام (لکھنؤ) میں بطور صدر مدرّس کام کرنا، ندوہ سے دل اچاٹ تو تھا ہی، مولانا اویس ندوی کی ترغیب نے انہیں ترکِ تعلیم اور ندوہ چھوڑنے پر مزید آمادہ کردیا، اور وہ نگرام چلے آئے، جہاں انہوں نے شروع نومبر ۴۵ ء سے دسمبر ۱۹۴۷ءتک تین سال تدریسی خدمات انجام دی۔
مفتی صاحب کی ندوہ پُر لطف میں تقریر
قیامِ ندوہ کے دوران ایک بڑا دل چسپ واقعہ پیش آیا، ہوتا یہ تھا کہ ’’الاصلاح‘‘ نامی انجمن میں جب طلبہ ابتداءً جمع ہوتے تو تعارفی تقریر ہوتی، جب مفتی صاحب کو تقریر کی دعوت دی گئی تو بڑے پُر جوش انداز میں کھڑے ہوئے اور بڑی بے باکی کے ساتھ اپنی گفتگو شروع کی، حیاتِ شبلی کے مطالعہ سے ندوہ کا جو نقشہ ان کے ذہن میں بیٹھا تھا وہ یہاں ندارد تھا، پھر یہ کہ پڑھی کتابیں ملنے سے طبیعت مکدر ہوچکی تھی،اس لیے نہایت تیز و تند تقریر کی، آگے کی بات وہ مفتی صاحب سے ہی سنئے: ’’میں نے ندوہ کے علمی ماحول کی تعریف کرنے کے بعد کہا کہ دراصل مجھے ندوہ حیاتِ شبلی کھینچ لائی ہے، اب سے چند سال پہلے جب وہ چھپی تھی تو میں نے بڑے غوروفکر اور اہتمام سے اس کا مطالعہ کیا تھا اور کافی متأثر ہوا تھا، مجھے سوانح پڑھنے کا بڑا ذوق ہے، آپ حضرات کو حیرت ہوگی میں دوبار شروع سے اخیر تک پڑھی، اس کے بعد کہا حضرات! ایک بات عرض کردوں، جو ندوہ حیاتِ شبلی میں ہے یہاں آکر معلوم ہوا کہ اب وہ ندوہ باقی نہیں رہا، اس وقت جو حالات ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کافی تبدیلی آئی ہے، بس صدر جلسہ نے حکم دے کر مجھے آگے بولنے سے روک دیا اور کہا بیٹھ جائیں۔‘‘ (زندگی کا علمی سفر ص:۵۲)
مفتی صاحب ؒ کا تقریری مذاق
حضرت مفتی صاحب کو تقریر و خطابت کا بڑا ستھرا ذوق تھا، وہ بڑی مؤثر اور دل پذیر تقریریں کیا کرتے تھے، راقم الحروف نے قیام دارالعلوم کے دوران انجمن تہذیب الافکار کے جلسوں میں بارہا ان کی تقریریں سنی ہیں، وہ پانچ منٹ بولیں، یا پچاس منٹ، پوری تقریر طوفان بردوش اور گرماگرم ہوا کرتی، دیکھنے میں نحیف و لاغراور انتہائی کمزور معلوم ہوتے لیکن جب بولنے پر آتے تو لگتا کہ ان کا عہد شباب عود کرآیا ہے، بجلی کی سی کوند، الفاظ کی موسلادھار بارش اور زورِ خطابت سب کچھ ہی ہوتا، تقریر کی مشق انہوں نے مدرسہ وارث العلوم چھپرا میں ہی کی تھی اور اسی عرصے میں وہ مؤثر تقریریں کرلیا کرتے تھے، ان کی اس صلاحیت کا اعتراف وہ لوگ بھی کرتے تھے جو مدرسہ وارث العلوم کی مخالفت صرف اس لیے کرتے تھے کہ یہ ادارہ جمعےۃ علماء سے وابستہ تھا، مسلم لیگ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا، لیگی حضرات جمعیتوں کو جہنمی اور کافر گردانتے، مفتی صاحب لکھتے ہیں: ’’۱۹۳۹ء میں مسلم لیگ کی طرف سے فلسطین ڈے منایا گیا، ایک بڑا جلوس نکلا جس میں تمام مسلمان شریک ہوئے، بعد مغرب میونسپل ہال میں جلسہ ہوا اس میں ساتھیوں نے میری تقریر لکھوادی، نوجوانی میں میں نے بڑے پُر جوش تقریر کی اس کا اثر یہ ہوا کہ جو لوگ کل تک جہنمی سمجھ کر ہم کو تھوکتے تھے اور لاحول پڑھتے تھے وہ جہاں سے میں گذرتا اب دکانوں سے نکل کر سلام کرنے لگے اور بڑی محبت و شفقت کا اظہار ہونے لگا۔ تعالی اللہ شانہٗ‘‘ (علمی سفر، ص۲۶)
تحریک آزادی میں مفتی صاحبؒ کی شرکت
تقریر کی یہ استعداد اور جوانی کا یہ جوش ہی تھا کہ اگست ۱۹۴۲ء میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں نے جب ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ تحریک شروع کی، تو مفتی صاحب بھی اس کا حصہ ہوگئے، مفتاح العلوم میں ابھی ان کی طالب علمی چل ہی رہی تھی، انہیں طلبہ نے اپنا لیڈر منتخب کرلیا، جلسہ ہوا تو مفتی صاحب نے اتنی زناٹے دار اور شعلہ بار تقریر کی کہ حالات دگرگوں ہوگئے، امریکی فوج مؤ میں بھی گشت کرنے لگی، دس دن کے بعد اس نے داروگیر بھی شروع کردی، مسلمانوں کو بے دریغ پسِ زنداں کیا جانے لگا، وارنٹ جن لوگوں کے نام جاری ہوا ان میں مفتی صاحب کا نام بھی شامل تھا، انہیں کی زبانی سنئے:
’’گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوگیا، مجبوراً مجھے چھپ جانا پڑا، کئی دن فاقے کے گذرے، پھر نثار مرحوم کی مدد سے کھانے کا انتظام ہوا، ٹرینیں بند ہوچکی تھیں، ڈاک خانے کا نظام بھی ٹوٹ چکا تھا، اس لیے منی آرڈر (روپے) گھر سے نہیں آرہے تھے، بے سروسامانی کا عجیب عالم تھا، کس نمی پرسد کہ بھیاکون ہو کا مصداق بنا ہوا تھا، اس وقت میری لیڈری کچھ کام نہ آئی، بلکہ اپنے لیے مصیبت بن گئی، سرچھپانا مشکل ہورہا تھا، دوستوں اور ساتھیوں نے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا، کوئی دوست قرض دینے کے لیے بھی تیار نہ تھا، اللہ تعالیٰ کے سوا سب کٹ گئے تھے، چھتر پورہ محلہ کی مسجد کے کمرے میں مقیم تھا، اور مسجد کا امام بھی تھا، گیارہ روز ایسے ہی گزرے، جب یہ راز محلہ والوں پر کھلا کہ مجھ پر وارنٹ ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ محلہ چھوڑ دیں، آپ کی وجہ سے محلہ پر بھی آنچ آسکتی ہے، مجبوراً گیارہ دنوں کی روپوشی کے بعد سفر کا ارادہ کرنا پڑا۔ (علمی سفر، ص۳۳)
لوح و قلم کے بادشاہ
بات تقریر اور جہاد حریت کی آگئی تو یہ بھی عرض کردیا جائے کہ مفتی صاحب جہاں میدانِ خطابت کے شہ سوار تھے وہیں انشاء پردازی کے قافلہ سالار بھی تھے، وارنٹ گرفتاری منسوخ ہونے کے بعد سیاست سے ان کا تعلق یوں بھی ختم ہوگیا تھا، تقریروں کا سلسلہ ضرور جاری رہا، مگر اب ان کا رجحان زمامِ قلم کی طرف ہوگیا، چناں چہ تدریس سے بچے ہوئے اپنے سارے اوقات انشاء پردازی کے لیے وقف کردئیے، اپنی ۸۵؍سالہ زندگی میں انہوں نے تحریر و انشاء کی راہ سے وہ خدمات انجام دیں جن کی ہمت عام طور پر بڑے بڑے اہل علم بھی جٹا نہیں پاتے، مدرسہ معدن العلوم میں قیام کے دوران انہوں نے اسلام کا نظام مساجد کے عنوان سے کتاب نویسی کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ ’’زندگی کا علمی سفر‘‘ پر آ کر رکا، موضوع دقیق ہو یا سہل، خشک ہو یا رس دار، لکھا اور خوب دادِ مہارت دی، بعض کتابیں تو اتنی مقبول ہوئیں کہ ان کے عربی اور انگریزی زبانوں میں بھی ترجمے ہوئے، اسلام کا نظام عفت و عصمت،نظام تعلیم و تربیت، اسلامی حکومت کے نقش و نگار، ان کی وہ کتابیں ہیں جنہیں ہر باذوق اپنے لے سرمایہ گردانتا ہے، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کی ترتیب تو ان کا اتنا بڑا کارنا مہ ہے کہ ایک باخبر مفتی اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا، بارہ ضخیم جلدوں میں یہ کتاب ہر اہل علم کے لیے ایک سوغات ہے، ترتیب کا لفظ سن کر عصر حاضر کے فضلاء یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو کوئی کوہ کنی نہ ہوئی، دارالعلوم کے مفتی اوّل مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ کے فتاویٰ کو جمع کرنا اور ترتیب دینا کون سا مشکل کام تھا، لیکن جنھوں نے مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ کی تحریروں کو دیکھا ہے ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا چنداں دشوار نہیں کہ کس جاں فشانی سے یہ کام انجام پایا ہوگا، شکستہ تحریریں، بوسیدہ اوراق، منتشر مضامین، اور پھر طویل استفتاء ات کی دودو تین تین سطروں میں تلخیص کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھی، مگر مفتی صاحب نے پوری تن دہی، کمالِ توجہ ا ور مکمل استغراق کے ساتھ اپنی پختہ کاری اور دقت نظری کا ثبوت دیا، جس دور میں یہ کتابیں ترتیب دی گئیں وہ مفتی صاحب کے کتب خانہ کی ادارت کا زمانہ تھا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے وقت کی صحیح قدر وقیمت جان کر اسے اچھی طرح وصول کیا اور اس طرح ارکانِ مجلس شوریٰ کی خواہش کو بروئے کار لانے میں کامیاب رہے۔
تحریر ہی کی لائن سے ان کا ایک بڑا کارنامہ رسالہ دارالعلوم کی لگاتار سترہ سال اداریہ نویسی ہے، اہل نظر جانتے ہیں کہ رسالہ دارالعلوم پابندی سے نکلتا تو ضرور تھا، مگر اس میں اداریہ نہ ہوتا تھا،کوئی بھی رسالہ بغیر اداریہ کے سربریدہ ڈھانچہ معلوم ہوتا ہے، ایک معتبر اور بین الاقوامی درس گاہ کے رسالے میں یہ عیب یقیناًبڑا عیب تھا، ارکانِ شوریٰ نے اسے محسوس کیا اور ماہ صفر ۱۳۸۵ھ میں انہیں باقاعدہ رکن ادارت بنادیا، مفتی صاحب نے نہ صرف ادارتی ذمہ داری کو نبھایا بلکہ رسالہ اور اس کی رفتار کو ایک نئی جہت دے دی، اس کے اداریے ایسے ہوتے کہ بہت سے قارئین صرف اداریے کے لیے رسالہ کے منتظر رہتے، عربی و اردو کے شہرۂ آفاق ادیب حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی مدظلہٗ نے بالکل درست لکھا ہے کہ ’’مفتی صاحب میں تالیف و انشاء کا فطری ذوق ہے، زبان سادہ اور رواں لکھتے ہیں، ان کی تحریر ہر طرح کے تکلف سے پاک ہوتی ہے، انہوں نے بہت سی کتابیں اور سیکڑوں مقالات لکھے، جو ملک (وبیرون ملک) کے طول و عرض میں مختلف و سائل میں چھپے، انہیں جمع کردیا جائے تو دسیوں کتابیں تیار ہوجائیں گی۔ (پسِ مرگ زندہ، ص: ۹۳۱)
مفتی صاحب کے اسلوبِ تحریر کا سب نے لوہا مانا، علم و تحقیق،فکر و نظر، حسن ادا، برجستگی اور سلاست ان کے قلم کی خصوصیت ہوا کرتی تھی،کسی کی علمی گرفت یا تنقید بھی کرتے تو اتنے شستہ اور دل چسپ پیرائے میں کہ فریق مخالف کو برا نہ لگتا، اعتدال و توازن ان کی تحریر کا جوہر تھا، جماعت اسلامی کی رد میں انہوں نے کئی رسالے اور مضامین لکھے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مفتی صاحب ہذیان گوئی یا ناشائستگی پر اتر آئے ہوں، اسے دیکھنا ہو تو جماعت اسلامی کے دینی رجحانات اور مطالعۂ مودودیت ملاحظہ فرمائیں۔ ان کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد ۲۴؍تک پہنچتی ہے، مضامین و مقالات ان سے علیحدہ ہیں، غیر مطبوعہ تصنیفات کی بھی یقیناًایک بڑی تعداد ہوتی، خود ان کے فتاویٰ کا ذخیرہ اس قدر ہے کہ کئی ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں۔
مفتی صاحب کی تدریسی خدمات
مفتی صاحبؒ کی تدریسی خدمات کا سلسلہ ۱۹۳۸ء سے چلا تو وفات سے دو سال قبل تک وہ برابر چلتا رہا، درمیان میں چند سال ضرور تدریس سے علیحدہ گزرے، لیکن ان کی عمومی زندگی تدریس کے لیے ہی وقف رہی، جیسا کہ گزر چکا ہے کہ فراغت کے بعد ایک سال مفتاح العلوم میں مدرّس رہے، اس کے بعد ستمبر ۱۹۴۵ء سے دسمبر ۴۷ ء تک مدرسہ معدن العلوم نگرام ضلع لکھنؤ میں تین سال تدریسی خدمات انجام دی، جنوری ۱۹۴۸ء میں دارالعلوم معینیہ موضع سانحہ ضلع مونگیر (حال بیگوسرائے) میں مدرّس ہوئے، یہاں ۱۹۵۶ء تک درس و تدریس میں مشغول رہے، درمیان میں ایک سال محرم ۱۳۶۸ ھ تا اواخر ۱۳۶۸ھ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل و سملک سابق ضلع سورت حال ضلع نوساری میں تدریسی خدمتیں انجام دیں، وہاں بیمار ہوگئے، اس لیے واپس دارالعلوم معینیہ سانحہ آگئے۔ دارالعلوم دیوبند آئے تو یہاں بھی ۱۹۹۳ء سے درجۂ افتاء میں تدریس سپرد ہوئی، جب تک یہاں قیام رہا افتاء کی کتابیں پڑھاتے رہے۔
دارالعلوم دیوبند میں مفتی صاحب کی آمد
۹؍ستمبر ۱۹۵۶ء، ۱۳۷۶ھ میں دارالعلوم دیوبند آئے، اپنے دارالعلوم آمد کا واقعہ مفتی صاحب نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کی لائبریری کا افتتاح ہونا تھا، اس موقع پر ایک بڑا اجلاس ہوا جس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حکیم الاسلام حضرت قاری طیب صاحبؒ تشریف لائے تھے، اس اجلاس میں امیر شریعت حضرت مولانا محمد منت اللہ رحمانیؒ کی اجازت سے کتب خانے کی اہمیت و عظمت پر ایک مقالہ پیش کیا تھا، یہ طویل مقالہ اپنی جامعیت و علمیت کی بنا پر دو نشستوں میں پڑھا گیا، اس مقالے پر مفتی صاحب کو خوب داد ملی، یہی تحریر دارالعلوم آنے کا سبب بن گئی، قاری صاحبؒ نے ۱۳۷۵ھ انہیں طویل سا خط لکھا، مفتی صاحب ؒ نے اسے سعادت سمجھ کر قبول کرلیا اور دارالعلوم تشریف لے آئے۔
یہاں آئے تو انہیں شعبۂ تبلیغ میں رکھ دیا گیا جس میں فرقِ ضالہ کے ابطال میں مضامین و رسائل کی ذمہ داری سپرد کی گئی، ۷؍سال تک اس شعبہ سے منسلک رہے، ۱۳۸۳ھ میں انہیں کتب خانہ منتقل کردیا گیا۔
کتب خانہ میں مفتی صاحبؒ کی خدمات
دارالعلوم دیوبند کا کتب خانہ مفتی صاحب کی آمد سے قبل غیر مرتب تھا، کتابوں کاکوئی ٹھکانہ نہ تھا، مطلوبہ کتابیں تلاشنے کے باوجود بڑی مشکل سے اور کئی کئی دنوں کے بعد ملتی تھیں، اہل علم کو اس سے بڑی شکایتیں تھیں، ارکانِ شوریٰ نے اس مسئلے کے حل کے لیے مفتی صاحب کو منتخب کیا، گو مفتی صاحب اس ذمہ داری سے خوش نہ تھے، اور بہت مکدر بھی ہوئے ، لیکن دارالعلوم کے مفاد میں اسے قبول کرلیا، اس کی صحیح ترتیب کے لیے مختلف لائبریریوں کی خاک چھانی، پٹنہ، رامپور، علی گڑھ اور نہ جانے کہاں کہاں کا دورہ کیا، اور اسے کئی سالوں میں ایک باوقار لائبریری بنادیا، کتب خانہ میں موجود مخطوطات کا تعارف بھی دو جلدوں میں لکھا، دارالعلوم کے کتب خانہ کی موجودہ ترتیب ان کا ایک شان دار کارنامہ ہے، اسے قابل ذکر نہ سمجھنا حقائق سے آنکھیں چرانا ہے۔
مردم ساز مفتی صاحب
مفتی صاحب جہاں اور کمالات سے مالامال تھے وہیں مردم گری اور رجال سازی میں بھی انہیں ید طولیٰ حاصل تھا، ان کے دامنِ علم سے جو بھی طالب علم وابستہ رہا، کھرا سونا بن کر نکلا، ’’سانحہ‘‘ کا مدرسہ معینیہ؛ مکتب سے دارالعلوم ان کی اسی صفت کے طفیل میں بنا، ان کے طرزِ تدریس سے طلبہ کھنچ کھنچ کر ان سے استفادہ کے لیے آتے، دارالعلوم دیوبند میں ۱۳۸۴ھ میں ’’مطالعۂ علومِ قرآنی‘‘ کے نام سے جب نیا شعبہ قائم کیا گیا تو اس کی نگرانی اور سرپرستی کے لیے ارکانِ شوریٰ نے انہیں کو منتخب کیا، یہ شعبہ دارالعلوم کے ذہین طلبہ اور باصلاحیت فضلاء کے لیے اپنی علمی اور تحریری لیاقت کو پختہ کرنے کا بہترین ذریعہ تھا، مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی، مولانا رضوان القاسمی مرحوم اور مولانا سمیع اللہ گونڈوی وغیرہم نے اسی شعبہ میں رہ کر مفتی صاحب سے فیض حاصل کیا ہے، یہ شعبہ چار سال تک باقی رہا اور ۱۳۸۸ھ میں اسے بند کر دیا گیا، اس کے بند ہونے پر مفتی صاحب بہت ناراض بھی ہوئے لیکن تقدیر کے آگے کس کی چلی ہے؟
سادگی کے پیکر
مفتی صاحب اپنی تمام تر علمی برتری کے باوجود خود کو چھوٹا ہی محسوس کرتے، اور اخفاء حال کی پوری کوشش کرتے، ۱۳۸۵ھ میں جب اداریہ لکھنے کی فرمائش کی گئی اور انہیں مدیر بنایا گیا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ اداریہ تو میں ضرور لکھوں گا، مگر بحیثیت مدیر ٹائٹل پر میرا نام نہیں ہونا چاہئے، ۱۴۰۲ھ تک انہو ں نے رسالہ کا کام کاج سنبھالا، مگر اکثر لوگ یہ نہ سمجھ پائے کہ اس رسالہ کے مدیر مولانا ازہر شاہ قیصر ہیں یا مفتی صاحب۔ اپنی سادگی کی بنا پر وہ سہل الحصول تھے، جو جب چاہتا انہیں بلا لیتا، باحیثیت، بے حیثیت، خوردوکلاں سب کی آواز پر وہ لبیک کہہ دیتے اور جہاں بٹھایا جاتا بیٹھ جاتے، جو کھلایا جاتا کھالیتے، بیل گاڑی اور ہوائی جہاز، فرش خاکی اور تخت شاہی کے درمیان ان کے یہاں کوئی فرق نہ تھا،حالاں کہ وہ بڑے تھے، بہت سے اکابر علماء کے استاذ تھے، نہ جانے کتنے ہی مفتیانِ کرام ان کے خوانِ علم کے زلہ ربا ہیں، لیکن جس سے ملتے، جھک کرملتے، نہ چیں بہ جبیں، نہ عتاب و غصہ، بلکہ طلبہ سے تفریح بھی کرلیا کرتے، ایک دن راقم الحروف ان کے ساتھ بازار گیا، انہیں بڑے رومال کی ضرورت تھی، راقم نے ایک عربی رومال کی طرف اشارہ کیا جس کی زمین سفید تھی اور نقش و نگار سرخ تھا، فرمانے لگے ’’بوڑھی گھوڑی لال لگام‘‘ اور اس طرح آگے بڑھ گئے ، کسر نفسی اور فنائیت ان کی زندگی کی عبا تھی، سادہ لباس زیب تن کرتے، موٹا جھوٹا کپڑا ان کی شناخت تھا، اتنے بڑے عالم سے اس قدر خاک ساری بہت بڑی کرامت ہے، جب تک انہوں نے خود کو کام کے لائق سمجھا، کام کرتے رہے، اور جب انہیں لگا کہ ان سے مزید خدمت نہیں ہوسکتی، تو انہوں نے سبکدوشی کرلی، ۲۰؍شعبان ۱۴۲۹ ھ مطابق ۲۲؍اگست ۲۰۰۸ء بروز جمعہ انہوں نے دارالعلوم کو خیرباد کہا اور دوہزار پنشن پر وطن تشریف لے گئے۔ اس طرح انہوں نے جہاں کی مٹی سے سرنکالا تھا اسی مٹی میں سوگئے۔ فرحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحیؒ
previous post