فضیل احمد ناصری
بابری مسجد کو لے کر گزشتہ تین چار دنوں سے مخدومِ گرامی حضرت مولانا سلمان ندوی صاحب زید مجدہم خانگی ذرائعِ ابلاغ (سوشل میڈیا) کا موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ مثبت منفی ہر طرح کے تبصرے ہیں۔ افراط و تفریط سے پر۔ بعض تبصرے اس قدر جانب دارانہ کہ گویا ان کا عمل عینِ اسلام ہو۔ بعض تبصرے ایسے جارحانہ کہ متعلق اور غیرمتعلق، جھوٹ اور سچ سب کی آمیزش۔ ردِ عمل کے سیلاب میں ہر کوئی پھنسا ہوا۔ بڑے خاموش ہیں اور چھوٹے بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں۔
*مولانا تو ایسے نہ تھے*
مولانا کے خلاف تحریریں پڑھ کر اس قدر صدمے میں ہوں کہ بیان سے باہر۔ اللہ انہیں عمرِ خضر عطا فرمائے۔ ان کی خبرِ وفات سے ایسا دھچکا نہ لگتا، جیسا اس وقت لگا ہے۔ یہ ایک عظیم سانحہ ہے۔ سچ کہیے تو مجھے دو تین دنوں سے کھانا اچھا نہیں لگ رہا۔ سکون درہم برہم ہے۔ عجیب بے چینی اور الجھن ہے۔ ردِ عمل کا نشانہ کوئی سیاسی مسلمان ہوتا، یا کوئی غیر عالم ہوتا تو اس قدر تکلیف نہ ہوتی۔ یہاں تو مولانا ہی اس کا نشانہ بن گئے۔ آہ! کیسی بلندی اور کیسی پستی!!! کہاں تو پلکوں پر بٹھائے جاتے تھے۔ ہر مجمع ان کا منتظر۔ ہر ہجوم ان کا چشم براہ۔ ان کی دھواں دھار تقریریں ہوتیں اور سامعین گوش برآواز۔ اٌدھر جوش سے لبریز سے حکایتیں۔ اِدھر جوش سے لبریز سماعتیں۔ تعریفوں کے پل باندھے جاتے۔ ان کی موجودگی جلسے کی کامیابی کی ضمانت۔ لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کایا پلٹ چکی ہے۔ منظر بدل چکا ہے۔ سپیدۂ سحر سرخئ شفق میں تبدیل ہو چکا۔ مولانا کے چاہنے والے ان سے بد دل ہو گئے۔ ان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ انہیں سخت سست کہا جارہا ہے۔
*مولانا کی نئی اور پرانی شبیہ*
بعض افراد قسمت کے دھنی ہوتے ہیں۔ اللہ انہیں دیتا ہے اور خوب نوازتا ہے۔ مولانا بھی انہیں میں ہیں۔ وہ سادات میں سے ہیں۔ مفکرِ اسلام مولانا علی میاں ندویؒ کے بھائی کے نواسے ہیں۔ مرشدالامۃ مولانا رابع ندوی صاحب کے بھانجے ہیں۔ ندوہ ایسے ادارے کے استاذ ہیں۔ مصنف ہیں۔ انشاپرداز ہیں۔ خطیب ہیں۔ عربی اور اردو کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ ہیں۔ اتنے سارے اوصاف کسی میں کہاں جمع ہوتے ہیں۔ اللہ نے انہیں یہ سب دیا اور انہیں ممتاز کردیا۔
بلندی پر پہونچ جانا اور بات ہے اور اس پر جمے رہنا کارِ دگر۔ مولانا بلندیوں پر پہونچے اور ایسے پہونچے کہ لوگ دیکھتے رہ گئے۔ ان پر بڑا رشک آتا تھا۔ وہ اپنی بات خوب صورت رنگ میں پیش کرنے میں استاد تھے۔ الفاظ ان پر نثار تھے۔ جملے ان کی بلائیں لیتے۔ دل کش تعبیرات ان کی منتیں کرتیں۔ استعارات و تمثیلات ان کی دریوزہ گری کرتے۔ گفتگو حقائق کا مخزن اور دلائل قوتوں کا معدن۔ ایمان و اسلام ان کا موضوعِ سخن۔ جوش و خروش ان کا تعارف۔ حسین چہرہ۔ مسکراتے لب۔ یہ ان کی شبیہ تھی۔ کل اسی شبیہ کے ساتھ چلتے پھرتے تھے۔ لوگ ٹوٹ کر گرتے۔ جانیں وارنے کو تیار۔ ایک جھلک پانے کو بے قرار۔ لیکن اچانک سب کچھ بدل گیا۔ اب وہی مولانا ہیں، مگر مسکراہٹ ندارد۔ جلوت سے محروم۔ خلوت پر مجبور۔ اب آنسو بہا رہے ہیں۔ رو دھو رہے ہیں۔ بچوں کی طرح بلک رہے ہیں۔ کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ اکابر ان سے دامن کش ہو گئے۔ مستند اہلِ علم ان سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ مولانا کی شبیہ کل وہ تھی، آج یہ ہے۔
*الزامات و اتہامات کا طوفان*
دورِ زماں خراب ہو تو ہوائیں اور فضائیں بھی مخالف ہو جاتی ہیں۔ پھر ہم نواؤں کی قلت بھی دامن گیر۔ اس سے بھی بڑھ کر الزامات و اتہامات کی یلغار۔ عربی کا مقولہ ہے: اذا ثبت الشئ ثبت بلوازمہ۔ یعنی جب کوئی شے ثابت ہوتی ہے تو اپنے سارے لوازمات کے ساتھ ثابت ہوتی ہے۔ مولانا کے ساتھ یہی ہوا۔ انہوں نے بابری مسجد پر اپنا موقف رکھا تو اس کے ساتھ الزامات نے بھی انہیں حصار میں لے لیا۔ اسد الدین اویسی نے مودی کے اشارے پر ناچنے کا الزام لگا دیا، وہ بھی بورڈ کے اجلاس میں۔ سابق راجیہ سبھا ممبر محمد ادیب صاحب نے سنسنی خیز خلاصے کر دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے پور کے اجلاس میں ظفر سریش والا کو لانے والا کوئی اور نہیں، خود مولانا ہی تھے۔ گویا مولانا کا حالیہ موقف ایک سال زیادہ پرانا ہے۔ یہ وہی اجلاس ہے، جہاں سے اویسی صاحب نے سریش والا کو بھگا دیا تھا۔ اس پر کافی لے دے ہوئی تھی۔ اخبارات سرخیوں سے بھر گئے تھے۔ یہ اجلاس 2017 میں ہوا تھا۔
اسی قسم کا ایک اور الزام حیدر آباد اجلاس کے موقعے پر لگا ہے۔ اس اجلاس میں مولانا نے زور دار تقریر کر کے اپنا موقف رکھا، تقریر طویل ہوئی تو لوگوں نے درخواست کر کے رکوا دی۔ مولانا ناراض ہو کر سیدھے اترے اور اپنے مصاحب کے ساتھ باہر نکل گئے۔ وہ مصاحب کون تھا اس کی کسی کو خبر نہیں۔ اس نے مولانا سے کسی کو ملنے نہیں دیا۔ مولانا ارشد مدنی صاحب دام مجدہم کہتے ہیں کہ اگر انہیں سمجھایا جاتا تو اپنے موقف سے رجوع کر سکتے تھے، مگر مصاحب نے کسی کو ملنے نہیں دیا۔ یہ مصاحب کون تھا، اس کا مقصد کیا تھا، کہاں سے آیا تھا، ان سوالوں پر ابھی تک پردہ پڑا ہوا ہے۔
ایک اور بلکہ بہت بڑا الزام نرموہی اکھاڑا کے ذمے دار امرناتھ مشرا نے لگایا ہے۔ اس نے ایک ساتھ کئی دعوے کئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بابری مسجد سے دستبرداری کے لیے انہوں نے راجیہ سبھا کی سیٹ مانگی ہے۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے 200 ایکڑ زمین کی فرمائش کی اور تیسرا بڑا دعویٰ یہ کہ مولانا نے 5000 کروڑ روپے کا مطالبہ بھی کیا۔ اللہ جانے ان الزامات کی کیا حقیقت ہے۔ خدا کرے سب غلط ہوں، مگر ان کے مواقع مولانا کے بیان سے ہی پیدا ہوئے۔ نہ وہ جمہور سے انحراف کرتے، نہ ان پر مخالفین کے الزامات پڑتے۔ نہ سر منڈاتے، نہ اولے گرتے۔
*مولانا کا موقف*
بابری مسجد قضیے سے متعلق مولانا کا موقف جمہور سے الگ تھلگ ہے۔ آرٹ آف لیونگ کے سربراہ روی شنکر سے ملاقات کے بعد انہوں نے اپنی جو رائے رکھی، اسی سے طوفان بپا ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے خون خرابے ہو چکے۔ خوب سیاست ہو چکی۔ فتنہ و فساد نے ساری حدیں پار کر دیں۔ اس قضیے پر ختمہ (فل اسٹاپ) لگ جانا چاہیے۔ مسئلے کا حل یہ چند باتیں ہیں:
1: آئندہ کسی مسجد، مدرسہ اور مقبرہ پر ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا جائے گا۔
2: یونیورسٹی کے لیے زمین دی جائے۔
3: مسلمانوں کے عبادت خانے کے لیے ایک قطعہ زمین دی جائے، جس پر عظیم (مسجدِ اسلام) کی تعمیر ہو۔
ان شرطوں کے ساتھ بابری مسجد لے لیجیے اور شان دار رام مندر بنا لیجیے۔
*عجیب استدلال*
مولانا نے اپنے موقف کے لیے عجیب عجیب استدلالات پیش کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوں بھی عدالت مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کرنے والی نہیں۔ اگر فیصلہ بابری مسجد کے حق میں آ بھی گیا تو متنازع مقام پر مسجد کبھی نہیں بن سکتی۔ مسجد ہو یا مندر، دونوں جگہ ایک اللہ ہی کی عبادت ہوتی ہے۔ فقہ حنبلی میں ہے کہ بوقتِ ضرورت مسجد کی جگہ منتقل کی جا سکتی ہے۔ ان دلائل کا تقاضا ہے کہ مسجد کی جگہ رام مندر کو دے دی جائے۔ ایک زمانے کا لاینحل مسئلہ اسی طرح حل ہو سکتا ہے۔
*مولانا کا اپنے موقف پر جماؤ*
اللہ جانے کیا معاملہ ہے کہ مولانا اپنے موقف پر جمے ہیں۔ ساری دنیا ان کی مخالف ہو چکی۔ انہیں بورڈ جیسے باوقار برنامج (اسٹیج) سے برطرف کردیا گیا۔ اکابرِ وقت ان سے برافروختہ ہیں۔ سخت ناراضگی کا دور جاری ہے۔ چھوٹے بڑے علما، چھوٹے بڑے دانش وران اور چھوٹے بڑے اہلِ قلم ان سے منحرف ہو گئے۔ خود ان کے ماموں اور ملت کے عظیم مرشد حضرت مولانا رابع صاحب بھی ان کے طرزِ عمل سے بگڑے ہوئے ہیں۔ندوہ کے قدیم و جدید فضلا بڑی بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی درس گاہ کے طلبہ ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اخبارات ان کے خلاف۔ خانگی ذرائعِ ابلاغ شمشیر بدست۔ نجی محفلیں ان پر اپنا غصہ اتارتی ہوئیں۔ مگر مولانا ہیں کہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ روی شنکر کے سامنے جو باتیں کہیں، وہی 8 فروری کے اجلاس میں بھی کہی، وہی بات اب بھی کہہ رہے ہیں۔ گویا جو بات انہوں نے کان میں کہی، وہی دکان میں بھی کہی، وہی مکان میں بھی اور وہی میدان میں بھی۔ مسئلے کے حل کے لیے اب وہ اجودھیا جائیں گے۔ بابری مسجد دے کر رہیں گے اور رام مندر بن کر رہے گا۔
*قضیہ بابری مسجد اور صلح حدیبیہ*
یہاں سب سے بڑا مسئلہ ان کے تلامذہ اور منتسبین کا بھی ہے۔ یہ لوگ مولانا کو حق کی طرف راغب کرنے کی بجائے ان کے موقف پر جما رہے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل کو صلح حدیبیہ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حالاں کہ مولانا اتنے کریم النفس اور شریف النسب ہیں کہ ذرا اچھے لہجے میں انہیں سمجھا دیا جائے تو وہ مان لیں گے۔ مگر لوگ انہیں درست ٹھہرا رہے ہیں۔ انہیں صلح حدیبیہ یاد دلا رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی اپنی پسپائی اور بزدلی چھپانا ہو تو وہ صلح حدیبیہ کی دہائی دینے لگتا ہے۔ جب کہ صلح حدیبیہ بڑی عظیم صلح تھی۔ اس کے آثار اچھے تھے۔ یہ صلح وحی کے اشارے پر ہو رہی تھی۔ پیغمبرِ اعظمؑ کی قیادت میں مسلمان مدینہ سے مکہ آگئے تھے۔ گویا اہلِ مکہ کے سر پر سوار۔ جو شرائط کفار نے رکھی تھیں، انہیں بہر حال پامال ہونا تھا۔ صلح کے سارے معاہدے حکومتی نمائندے سے ہوئے تھے۔ پھر اس صلح میں یہ موقف ہر گز نہیں تھا کہ خانہ کعبہ اہلِ مکہ کے تصرفات میں اس طرح دے دیا جائے کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں۔ ایک بات یہ بھی کہ معاہدے کے بعد سارے مسلمان ہم آواز ہو گئے تھے۔ لیکن یہاں تو سارا معاملہ الگ ہے۔ مولانا ندوی صاحب رام مندر بنوانے کے لیے سخت جدوجہد میں ہیں۔ پھر معاہدے اس سے کر رہے ہیں جو نہ تین میں ہے، نہ تیرہ میں۔ نہ وہ حکومتی نمائندہ ہے، نہ معاملے کا فریق۔ خود مولانا بھی مسجد کے فریق نہیں۔ نہ وہ اس قضیے میں مسلمانوں کے نمائندہ ہیں۔ یہ خالص شذوذ کی راہ ہے۔ یہ جمہوریت سے بغاوت ہے۔ یہ سبیل المؤمنین سے انحراف ہے۔
*دشمنوں کے مزے*
اس قضیے نے کئی مسائل جنم دیے۔ ایک تو یہ فقہِ حنبلی کا بلاوجہ سہارا لیا گیا اور بالکل بے محل۔ فقہِ حنبلی ان کی رائے کی حبہ بھر بھی موافقت نہیں کرتا۔ یہ تقلید سے فرار بھی ہے۔ اگر ایک مسلک سے دوسرے مسلک کی طرف رجوع کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اگرچہ مسائل کا حل نکل آئے گا، مگر نفسانیت بڑھ جائے گی۔ لوگ اپنے مطلب کے لیے کبھی حنفی بنیں گے، کبھی شافعی، کبھی مالکی، کبھی حنبلی۔ اس موقف کے بعد دنیا کی بڑی بڑی مسجدوں پر بھی دشمن کھڑے ہو جائیں گے۔ اتحاد اور امن کے نام پر مسجدِ اقصیٰ بلکہ خانہ کعبہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ خود اسلام سے بھی۔ اہلِ باطل اس صورتِ حال سے مزے لے رہے ہیں۔ ہر باطل فرقہ ہم پر ہنس رہا ہے۔
*کاش کوئی مولانا کو سمجھادے*
یہاں بڑے ادب سے عرض ہے، ملت کے بڑے سے بھی اور چھوٹے سے بھی۔ کہ آپ مولانا کو سمجھا دیں۔ مولانا کوئی بڑی سیاسی شخصیت نہیں ہیں۔ وہ عمدہ ترین ریکارڈ کے کوئی کھلاڑی بھی نہیں۔ فلمی دنیا کے وہ نمایاں اداکار بھی نہیں۔ ہندوستان کے ماڈرن مسلمان ان کے ہر گناہ کے باوجود اور ہر صریح بدعملی کے باوصف انہیں گلے لگاتے ہیں۔ ان کی ایک جھلک پانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ان کے پروگراموں میں شرکت کے لیے قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ آپ ایک مذہبی پیشوا ہیں۔ مذہبی رہ نما اسی وقت تک قابلِ قبول ہے جب تک جمہورِ امت اور سوادِ اعظم کے ساتھ ہے۔ ذرا بھی انحراف اور شذوذ ہوا، عوام و خواص انہیں نظروں سے گرا دیتے ہیں۔ سرسید کا حال سب کے سامنے ہے۔ ان کی پیشوائی ٹھکرا دی گئی۔ احمد رضا خاں بریلوی نے شذوذ اختیار کیا تو اسے کنارے لگا دیا گیا۔ ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے جمہوریت ترک کیا تو انہیں دیوار کا حصہ بنا دیا گیا۔ وحیدالدین خان نے الگ روش اپنائی تو انہیں بھی خانہ نشیں کر دیا گیا۔ یہاں لایعبؤ بہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ فرش سے عرش کا سفر سکینڈوں میں تمام ہوتا ہے۔ لوگ پرسشِ احوال بھول جاتے ہیں۔
*مولانا! براہِ کرم اپنے موقف سے رجوع کر لیجیے*
اب میں براہِ راست مولانا ہی سے عرض گزار ہوں۔ آپ کو اللہ اور رسول کا واسطہ۔ آپ کے خاندان کا واسطہ۔ آپ کے علم کا واسطہ۔ آپ کے ادارے کا واسطہ۔ آپ کی سابقہ دینی حمیتوں کا واسطہ۔ آپ کی تصنیفات و تالیفات کا واسطہ۔ آپ کی خطابت کا واسطہ۔ آپ اپنے موقف سے رجوع کر لیجیے۔ جمہور کے ساتھ آ جائیے۔ پرانی تلخیاں بھول جائیے۔ ملت کے مفادات کو ترجیح دیجیے۔ ذرائعِ ابلاغ سے صاف صاف کہہ دیجیے کہ میرا وہ موقف میری اجتہادی غلطی تھی۔ اب دلائل سے واضح ہو چکا ہے کہ میں خطا پر ہوں۔ اوروں کی طرح میں بھی جمہور کے ساتھ ہوں۔ اتنا کہہ دینے سے آپ تحت الثریٰ سے اٹھ کر پھر ثریا پر پہونچ جائیں گے۔ آپ کو بطلِ جلیل سے پکارا جائے گا۔ امت آپ کو پھر سے پلکوں پر بٹھائے گی۔ ملت کا وقار پھر بحال ہو جائے گا۔ خدا کے لیے رجوع کر لیجیے۔