Home ستاروں کےدرمیاں حضرت شیخ کا زہد و استغناء

حضرت شیخ کا زہد و استغناء

by قندیل


حکیم سید افضل حسین قاسمی
آج کے اس جدید دور میں سیکھنے سکھانےاور افادے استفادے کے وسائل بے پناہ ہیں اور ان میں ہردن اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے، آن لائن اسکول، مدرسے، تربیت گاہیں، طبی مشوروں کے مراکز، علاج کے لئے شفا خانے اور دوا خانے چل رہے ہیں اور افادیت و مقبولیت کے شواہد پیش کئے جارہے ہیں، سچائی اور اخلاص کی قسمیں کھائی جارہی ہیں لیکن دنیا ہے کہ مطمئن ہونے کو تیار نہیں، مستفید ہونے پر آمادہ نہیں، کیونکہ ان تمام مادّی وسائل میں اس مقناطیسیت کا فقدان ہے جس کی طرف انسان فطری طور پر مائل ہونے کا عادی ہے، انسان دراصل انسان کے اندر وہ تمام خوبیاں دیکھنا چاہتا ہے اسی لئے اللہ نے انسانیت کی تربیت و فلاح کے لئے انسانوں کو پیغمبری کے لئے دنیا میں بھیجا تاکہ انسان اپنی جنس سے مقتدا و آئیڈیل کو دیکھ کر اعتماد کے ساتھ فلاح کے جادہء راہ پر قدم بقدم چل کر راہ یاب ہو سکے. اللہ جنّ و ملک بھی منصبِ پیغمبری پر فائز کر سکتا تھا، اس اصلاحی و فلاحی مشن کے لئے کسی نئی مخلوق کی پر کشش تخلیق بھی اسکے قبضہ و قدرت میں تھی.
لیکن جبینِ گیتی پر مہرِ ختمِ نبوت ثبت ہوجانے کے بعد اللہ نے انسانوں کی اُس جماعت کو منصبِ پیغمبری کے تقاضوں سے آگہی بخشی اور اسے دعوتی ذمہ داریاں سونپیں جس میں مابعدِ ختمِ نبوت سب سے زیادہ خشیتِ الہی تھی، وہ اس لئے تاکہ قیامت تک کی انسانی نسل اپنی صلاح و فلاح کے لئے مقتدا اور آئیڈیل سے محروم نہ رہ جائے اور اس لئے بھی کہ کوئی یہ عذر پیش نہ کرسکے کہ ہم تو دور نبوت سے ساڑھے چودہ سوسال دور ہوگئے تھے اس لئے عمل پیرا ہونے کے لئے ہمارے پاس انسانی شکل میں کوئی عملی نمونہ نہیں تھا جسے دیکھ کر تجلیاتِ عکسِ سیرتِ نبوی سے اکتسابِ فیض کرسکتے.
محدثِ کبیر، امیر المومنین فی الحدیث، مرشدنا و مولانا محمد یونس صاحب جونپوری، شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور، رحمہ اللہ عزوجل دینی علوم وعرفاں کے اس عالمِ بے ثبات میں عرب و عجم کے ان چنندہ اکابر علماء ربانیین میں سے ایک تھے جنہوں نے زہد، استغناء اور اتباعِ سننِ رسولِ عربی کے ایسے تابندہ نقوش ثبت فرما ے جن سے قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی اکتسابِ فیض کرتی رہ سکتی ہے، میری ان آنکھوں نے حضرت شیخ کو نہایت قریب سے دیکھا ہی نہیں بلکہ محسوس کیا ہے، ان کے زہد و استغناء کے تاثیری شعاؤں سے اکتسابِ نور کیا ہے.
ایک سفر حج میں مکۃ المکرمہ، حضرت کی قیام گاہ پر شیخ کے ساتھ تین دن خدمت و قیام کا شرف حاصل ہوا، اس قیام کے دوران حضرت شیخ رحمہ اللہ کا زہد اور استغناء ان تین دنوں کی قلیل مدت میں اس طرح عیاں اور بیاں ہوکر میرے قوتِ عمل کو مرتعش کرگیا کہ میں اس ارتعاش کو عزمِ عمل کے ساتھ ساری زندگی محسوس کرتا رہوں گا.
حضرت کے ہم نام، مولوی یونس جو کم و بیش 15 حج اور عمروں کی ادائیگی میں حضرت شیخ کے معاون اور قابلِ رشک خادم رہے ہیں، شیخ کی نشست کے عقبی حصے میں بیٹھے کسی کام میں مصروف تھے اور ہم سامنے بیٹھے محدثِ جلیل کی مربیانہ و مصلحانہ گفتگو سے استفادے کی جھولی بھر رہے تھے کہ مولوی یونس نے  حضرت کی دائیں جانب ہوکر مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ تقریباً 6000 ڈالر ہیں انکا کیا کرنا ہے! ؟ شیخ نے نہایت ہی استغنائی اور سرزنش آمیز انداز میں فرمایا کہ انہیں میرے سامنے نہ گنو اُس طرف لے جاؤ اور یہ پوری رقم کسی ایسے مدرسے میں دے دو جہاں صرف قرآن پاک کی تعلیم ہوتی ہو، ذرا وقفے کے بعد مولوی یونس پھر گویا ہوئے کہ یہ تقریباً 7 ہزار ریال بھی ہیں ان کو !؟ حضرت نے فرمایا یہ بھی کسی ایسے مدرسے میں پہنچا دو جہاں صرف قرآن پاک کی تعلیم ہوتی ہو. مولوی یونس نے فوراً ہی عرض کیا کہ آپکے ذاتی مصارف کے لئے اسی میں سے کچھ رکھ دوں!؟ حضرت شیخ نے فرمایا کہ میرے ذاتی اخراجات کے لئے وہ رقم کافی ہے جو ایوب اور افضل نے ہدیے میں دی ہے ( یعنی 350 ریال).
یہ تھا حضرت کا استغنائی رنگ جسے ان آنکھوں نے قریب سے دیکھا اور محسوس کیا وہ بھی حالتِ سفر میں، دراصل دین جب انسان کے شب و روز میں سرایت کرجاتا ہے تو ارد گرد اسی طرح کے اعمال کا ظہور ہوتاہے جن پر ایک عالم، چاہتے ہوئے بھی عمل پیرا نہیں ہو پاتا کیونکہ اسکی دینی تربیت میں عالمانہ، مربیانہ اور مشفقانہ نگاہِ تربیت کے کتر بیونت کا فقدان ہوتا ہے. حضرت شیخ کی نگہداشت اور تربیت میں، حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی رحمہ اللہ نے چونکہ اپنا علمی اور نسبتی سرمایہ پوری فراخ دلی اور بے غرضی کے ساتھ لگایا تھا اس لئے حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری رحمہ اللہ، زہد و استغناء کے حوالے سے اپنے استاذ گرامی اور شیخ کے اسلوبِ تربیت کا شاہکار بن کر عالمِ اسلام میں جانے اور پہچانے گئے.
رابطہ :
نورنگ دوا خانہ ، پی اینڈ ٹی کالونی.
ناگوارہ مین روڈ، وینکٹیش پورم.
بنگلور 560045.
فون، 08025478397 .
موبائل، 9448344458

You may also like

Leave a Comment