Home اسلامیات حجرِ اسود:اہمیت ، فضلیت، تأثرات ومشاہدات

حجرِ اسود:اہمیت ، فضلیت، تأثرات ومشاہدات

by قندیل

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
روئے زمین پر سب سے محترم او ر مقدس اور باعظمت، قابل احترام ، لائق تقدس جگہ، سکون وطمانیت کامسکن ومنبع ، جہاں ودنیا کا پر وقار پررونق مقام ’’خانہ کعبہ‘‘ ہے ، اس کعبہ کی عظمت وتقدس اور اس میں موجودہ اللہ عزوجل کی نشانیوں کیاکہنا ، خود اللہ عزوجل قرآن کریم میں ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں’’فیہ آیات بینات ومقام أبراہیم‘‘ (آل عمران : ۹۷) اس میں ہماری بے شمار نشانیاں اور مقام ابراہیم جیسا مقدس مقام بھی ہے ، اللہ عزوجل کا فضل وکرم رہا کہ ماہِ شعبان کے ابتداء میں خانہ کعبہ کے دیدار وزیارت کا شرف حاصل ہوا، اللہ نے وہ نورانیت اور یکسانیت اور روحانیت اس میں رکھی ہے ، دیکھتے رہیں جی بھرتا ہی نہیں، وہاں سے اٹھ کر اور خانہ کعبہ سے جدائیگی کا تصور ہی دل کو بے کل وبے چین کئے دیتا ہے ، جب میرا وقت ہوچکا تو خانہ کعبہ کے پاس وداعی طواف اور دعا کرنے کے بعد بلا مبالغہ کہتے ہوں خانہ کعبہ کے پاس سے پلٹنے کو طبیعت ہی نہیں چاہتی ، کیوں کر ایسا نہ ہو پہلے تھوڑا سا ہٹ کر دعا میں مصروف رہا، پھر سیڑھیوں کے پاس آکر دس پندرہ منٹ ٹکٹکی باندھا دیکھتا رہا، پھر باب عبد العزیز کے قریب آکر پھر پلٹ کر حسرت بھری نگاہوں خانہ کعبہ سے جدائیگی پر دل بے چین وبے کل تھا، پھر باب عبد العزیز کے باہر آکر پھر ٹھہر کر دیکھتا رہا ، پھر کلاک ٹاور کے پاس آکر پھر رکا رہا، آخر تو وقت ہورہا تھا، حسرت بھرینگاہوں آخری نگاہ ڈالتاہوا واپس آیا ۔
واپسی کے بعد ہر دم یہی خیال آتا کہ کاش میں بیت اللہ کاپڑوسی ہوتا، پھر اس کے بعد میں نے تحقیق وجستجو کرنے شروع کی کہ خانہ کعبہ کی ابتدائی تعمیر کیسی ہوئی؟ اور مقامات مقدسہ اور اللہ عزوجل کی مختلف نشانیوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ، اس تحریر میں حجر اسود کی تاریخ پر روشنی ڈالوں ، آئندہ ، کعبہ کی ابتداء سے انتہا تک تاریخ پر روشنی ڈالی جائے گی۔
حجر اسود:
حجر اسود جنت کا پتھر ہے ،یہ خانہ کعبہ کے یہاں اسلام کی واضح نشانی ہے ، اس کے سلسلے میں حضرت انس سے مروی ہے : حجر اسود اللہ عزوجل کا داہنا ہاتھ ہے ، جس نے اس کو چھوا اس نے اللہ سے بیعت کی‘‘ ( الحجر الأسود یمین اللہ فی الأرض، فمن لم مسحہ فقد بایع اللہ ‘‘ الدیملی فی الفردوس بمأثور الخطاب : ۲؍۱۵۹، حدیث: ۲۸۰۷)
ازرقی عکرمہ سے موقوفا نقل کرتے ہیں،’’ حجر اسود روئے زمین اللہ عزوجل کا داہنا ہاتھے ، جس نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت نہ کی ہو اور اس نے اس رکن کو چھوا تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی بیعت کی ‘‘ ’’ فقد بایع اللہ ورسولہ ‘‘ ( اخرجہ الزرقی فی اخبار مکۃ : ۱؍۳۲۵، بسند موقوف)
حضرت حسن بصری روایت کرتے ہیں: رکن یمانی یہ اللہ عزوجل کا روئے زمین پر داہنا ہاتھ ہے ، جس سے اللہ عزوجل اپنے بندوں سے ایسے مصافحہ فرماتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے ، جس نے نبی کریم ﷺ سے بیعت نہ کی پھر اس نے حجر کو چھوا اس نے اللہ سے بیع کی ’’ ثم ’’ثم أدرک الحجر ومسحہ فقد بایع اللہ ‘‘ (رسالۃ حسن البصری : ۷۱)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ الحجر یمین اللہ ، فمن مسح یدہ علی الحجر فقد بایع اللہ أن لا یعصیہ ‘‘ ( الدیملی بمأثور الخطاب ‘‘ : ۲؍۱۵۹) حجر اسود اللہ عزوجل کا داہنا ہاتھ ہے ، جس نے اس کو چھوا اس نے اللہ عزوجل سے گناہ نہ کرنے پر بیعت کی۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ نقل کیا گیا ہے : ’’ إن مسح الحجر الأسود والرکن یحطان الخطایا حطا‘‘ ( مسند احمد : ۲؍۱۲، ابن حبان : ۹؍۱۲، حدیث: ۳۶۹۸، دونوں نے اس کو سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے ) حجر اسود اور رکن یمانی گناہوں کو چھڑاتے ہیں ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی کہ فرماتے ہیں: ہم نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، جب یہ طواف کرنے لگے تو انہوں نے حجر اسود کااستقبال کیا، تو فرمایا: میں جانتا ہوں تو حجر اسود ہے ، نہ تو نفع پہنچاسکتا ہے ، نہ نقصان، میں نے نبی کریم ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تیرا بوسہ نہ لیتا، پھر اس کا بوسہ لیا، ان سے حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے امیر المؤمنین ! یہ نفع ونقصان پہنچاتا ہے ، تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہاں سے کہتے ہو؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتاب اللہ سے ، فرمایا : یہ بات کتاب اللہ میں کہاں موجود ہے ، فرمایا: اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’وإذ أخذ ربک من بنی آدم من ظھورھم ذریتھم وأشہدھم علی أنفسھم ألست بربکم قالوا بلی ‘‘ ( سورۃ الأعراف : ۱۷۲) ( اور (اے رسول ! لوگوں کو وہ وقت یاد دلا) جب تمہارے پروردگار نے آدم کے بیٹوں کی پیشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا تھا، اور ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنایا تھا، (اور پوچھا تھا کہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا تھا کہ : کیوں نہیں؟ ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔اور یہ اقرار ہم نے اس لیے لیا تھا، تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ : ہم تو اس بات سے بے خبر تھے)۔اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا: اور ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا، اور ان سے یہ اقرار لیا کہ اللہ عزوجل ان کے رب ہیں اور یہ ان کے بندے ہیں، ان سے عہد ومعاہدہ کیا، اس کو چمڑے کے تانت پر لکھ لیا، اس حجر اسود کی دو آنکھیں اور ایک زبان تھی، اس سے کہا: منہ کھول، تو حجر اسود نے منہ کھولا، اس کو یہ بات سکھائی گئی، اور کہا : میں اس شخص کے حق میں گواہی دوں گا جس نے اس عہد کو پورا کیاجو اللہ نے الست کا عہد لیا تھا، اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : حجر اسود کو روز قیامت لایا جائے گا، اس کی تیز طرار زبان ہوگی، جس نے توحید کے ساتھ اس کا استلام کیا ہے ، وہ اس کے حق میں گواہی دے گا، اے امیر المؤمین یہ نفع ونقصان دے سکتا ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں ایسی قوم میں حیات رہوں جس میں ابو الحسن نہ ہوں ’’ أعوذ باللہ أن أعیش فی قوم لست فیھم یا أبا الحسن ‘‘ (رواہ الحاکم والازرقی )
ابن ماجہ کے علاوہ ایک جماعت نے عابس بن ربیعہ سے نقل کیا ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں، وہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے ، اس کا بوسہ لیا اور فرمایا’’ إنی لأعلم أنک حجر لا تضر ولا تنفع ‘‘ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ تو نقصان پہنچاسکتا ہے نہ نہ نفع دے سکتا ہے ، اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں بوسہ نہ لیتا ( بخاری، حدیث: ۱۶۱۰، مسلم : حدیث: ۲۵۱)
اور سندوں سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہی تو یہ آیت مبارکہ پڑھی ، ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ ‘‘ (سورۃ الأحزاب: ۲۱) ارو یہ بھی مروی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ نفع نقصان پہنچاسکتا ہے ، یہ روز قیامت آئے ، اس کی زبان ہوگی جس نے اس کا بوسہ لیا ہے اوراس کا استلام کیا ہ، اس کے سلسلے میں گواہی دے گا’’ یشھد لمن قبلہ واستلمہ‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ اس کی منفعت ہے ۔
ابن الجوزی فرماتے ہیں: یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فقاہت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے دلوں میں جو پتھروں کی عظمت تھی اس پر تنبیہ کرناچاہتے تھے ، اور یہ بتلایا کہ میں نے یہ سنت کی ادائیگی کی ہے ، میں نے زمانہ جاہلیت کی طرح عبادت نہیں کیا، اور یہ بتلایاکہ سنتوں کی پیروی اس کی وجوہات وعلل کو معلوم نہ کیا جائے ۔اس سے حجر اسود کی چھونے او ر بوسہ لینے کی سنیت کا پتہ چلتا ہے ، چونکہ اللہ عزوجل کا روئے زمین پر داہنا ہاتھ ہے ، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ اور بیعت کا شرف حاصل نہیں ہوا، اور اس نے حجر اسود کو چھوا تو اس نے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گویا بیعت کی ، یہ مؤمن کے حق میں عہد الست کی تکمیل اور کافر کے حق میں اس کے انکار کی گواہی دے گا ۔( مثیر العزم الساکن : ۱؍ ۳۷۰ابن الجوزی )
یہی وجہ جب لوگ حجر اسود کا اسلام کرتے ہیں تو کہتے ہیں : ’’ اللھم إیمانا بک ، وتصدیقا بکتابک، ووفاء بعھدک، وباب ھذا کلہ تسلیم وانقیاد ( اخبار مکۃ : ۱؍۳۴۰، ابن الجوزی مثیر العزم الساکن : ۱؍ ۳۷۱) اے اللہ ہم تجھ پر ایمان لاتے ، تیری کتاب کی تصدیق کرتے ، تیرے عہد کو وفا کرتے ہیں، یہ تمام کی تمام چیزیں تسلیم وانقیاد واطاعت میں شامل ہیں ۔
اسی لئے حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے مروفوعا مروی ہے : جب اللہ عزوجل نے اولاد آدم سے میثاق اور عہد لیا تو اس کو حجر اسود میں ڈال دیا، عہد الست کی وفاء یہ ہے کہ حجر اسود استلام کیا جائے (لما أخذہ اللہ المیثاق جعلہ فی الحجر ، فمن الوفاء بالبیعۃ استلام الحجر) ( الحدیث أخرجہ الدولابی فی الذریۃ الطاہرۃ: حدیث: ۱۶۸، اس کی سندمیں سعید بن خثیم ضعیف ہیں )
حضرت ابن عباس سے مروی منقول ہے کہ ’’ واللہ لیبعثہ اللہ یعنی الحجر یوم القیامۃ لہ عینان یبصری بھما، ولسان ینطق بہ، یشھد علی من استلمہ بحق‘‘ ( ترمذی، حدیث: ۹۶۱، بسند حسن) اللہ عزجل حجر اسود کو روز قیامت لائیں گے ، اس کی دو آنکھیں ہوگی، جس سے وہ دیکھے گا، اس کی زبان ہوگی جس سے وہ بات کرے ، حق وصدق کے ساتھ گواہی دے گا ابو حاتم نے روایت کیا ہے اور کہا ہے : ’’ لسان وشفتان ‘‘(ایک زبان دو ہونٹ ہوں گے )اور فرماتے ہیں:’’ یہ اس شخص کے حق میں سچائی کے ساتھ گواہی دے گاجس نے اس کا استلام کیا ہوگا‘‘ (أخرجہ أحمد: ۱؍۲۹۱، بسند حسن)
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مرفوعا مروی ہے :’’ حجر اسود یہ جنت کا یاقوت ہے ، اس کو مشرکین کے گناہوں نے سیاہ کردیا ہے ، اس کو روز قیامت احد پہاڑ کی شکل میں لایا جائے گا، یہ اہل دنیا میں سے جس نے بھی اس کا بوسہ لیا اور اس کا استلام کیا اس کے حق میں گواہی دے گا‘‘ ’’ یشھد لمن استلمہ وقبلہ من أہل الدنیا ‘‘ ( صحیح ابن حزیمہ : حدیث: ۲۷۳۴، بسند ضعیف فیہ الحسین بن خالد الضریر)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : اس حجر کے پاس اچھی طرح سے حاضر ہو، یہ سفارشی ہے اور اس کی سفارش قبول کی جائے گی’’ شافع مشفع‘‘ اس کی زبان ہوگی اور دوہونٹ ہوں گے ، یہ اپنے استلام کرنے والے کے سلسلے میں گواہی دے گا( المعجم الوسیط للطبرانی ، حدیث: ۲۹۷۱، بسند ضعیف فیہ الولید بن عباد)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’ الحجر الأسود من حجارۃ الجنۃ ‘‘ حجر اسود جنت کا پتھر ہے ( المعجم الأوسط، حدیث: ۴۹۵۴، بسند ضعیف فیہ شاذ بن فیاض، ، ابن الجوزی فی ’’مثیر العزم الساکن : ۱؍۳۶۷، حدیث: ۲۱۵)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا نقل کیا گیا ہے کہ حجر اسود جنت کا پتھر ہے ، یہ اولوں سے زیادہ سفید تھا، اس کو اہل شرک کے خطایا اور گناہوں نے کالا کردیا ’’ سودتہ خطایاأہل الشرک‘‘ (رواہ أحمد : ۱؍۳۰۷، بسند حسن، ابن عدی فی الکامل : ۲؍۶۷۹، البیھقی فی السنن الکبری : ۵؍۷۵)
عثمان بن ساج کہتے ہیں مجھ سے ابن زہیر نے بیان کیا کہ حجر اسود جنت کے یاقوت کے چھوٹے چھوٹے کنکر سے بنا ہواہے، یہ سفید روشن تھا، اس کو مشرکین کی گناہوں نے کالا کردیا، پھر یہ اپنی حالت میں عود کر آئے ، یہ روز قیامت جبل قبیس کے مثل بڑا ہوگا، اس کے دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ ہوں گے ، جس نے اس کا استلام کیا ہے ، وہ اس کے حق میں حق کے ساتھ گواہی دے گا’’ یشھد لمن استلمہ بحق‘‘ ( ازرقی فی أخبار مکۃ : ۱؍ ۳۲۹، بسند ضعیف فیہ عثمان بن ساج )
عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں: حجر اسود جنت کا پتھر ہے ، اگر اس کو گنہ گاروں کے ہاتھوں نے چھوا نہ ہوتا تو اگر اسے کوئی گونگا یہ کوڑی یا کسی بھی وباء اور بیماری میں مبتلا شخص چھولیتا تو اس کو اس سے شفا حاصل ہوجاتی ۔’’ ما مسہ أکمہ ولا أبرض ولا ذو وباء ألا بری‘‘ ( الأزرقی فی أخبار مکۃ : ۱؍۳۲۲)
حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کررہا تھا، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پرقربان ! یہ حجر اسود کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تلک جوہرۃ فی الجنۃ‘ ‘یہ جنت کا ہیرا ہے ، اس کو اللہ عزوجل نے دنیا میں اتارا، اس کی شعاعیں سورج کی شعاعوں کے مثل تہیں، مشرکین کے ہاتھوں کے چھونے کی وجہ سے یہ کالا ہوگیا، اور اس کا رنگ فق پڑگیا( أخرجہ أبو اللیث السمرقندی فی ’’تنبیہ الغافلین : ۲؍ ۵۳۶، بسند ضعیف فیہ نصر بن حاجب )
سہلی کہتے : خانہ کعبہ کی تمام عمارت کو چھوڑ کر صرف حجر اسود کے کالے ہونے کی وجہ یوں ہوئی، چونکہ یہ پتھر جس زمانے میں بھیجاگیا تو یہ اپنی فطری حالت میں تھا لوگوں کے مثل کہ لوگ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتے ، ہر مولود فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا، اس کا دل بالکل سفید ہوتا ہے ، یہ حجر اسود بھی شروع میں ایسے ہی تھا، پھر خطاروں کی گناہوں کی وجہ سے یہ کالا ہوگیا، یعنی دلوں پر جس طرح گناہ کا اثر ہوتا ہے ، اس پر نقطہ سیاہ پڑنا شروع ہوجاتے اس طرح دل سیاہ ہوجاتا ہے ، یہ حجر اسود گناہوں کی تاثیر کی وہ سے کالا ہوگیا ۔
حجر اسود کے سیاہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جس وقت جنت سے آیا تھا یہ بالکل روشن اور سفید تھا، جس سے روزئے زمین چمک اٹھتی تھی، اس کی روشنی حدود حرم تک پہنچتی ، لوگوں کے گناہوں اور خطایا کے اثر یہ سیاہ پڑگیا، پھر زمانہ اسلام اور زمانہ جاہلیت میں یہ آگ زنی کی زد میں بھی آچکا، چونکہ زمانہ جاہلیت میں قریش کی ایک عورت خانہ کعبہ کے پاس روشنی کرنی گئی ، تو اس شرارے خانہ کعبہ کے پردوں کو لگ گئے ، تو خانہ کعبہ اور حجر اسود جل گئے، اور خانہ کعبہ کمزور پڑگڑا، جس کی وجہ سے قریش کو اس کو منہدم کر کے دوبارہ بنانے کی ضرورت در پیش ہوئی ۔دور اسلام میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جس وقت خانہ کعبہ کا حصین بن نمیر کندی نے اس کا محاصرہ کیا، تو یہ خانہ کعبہ نذر آتش ہوگیا اور حجر اسود پھٹ کر اس کے تین ٹکڑے ہوگئے، اس کو ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے سونے کے حلقے میں جڑ دیا، اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نہیں مل سکا، جس کا نشان حجر اسود کے اوپری حصہ پر صاف نظر آتا ہے ۔
اب ان احادیث کہیں حجر اسود کو جنت کا پتھر، یاجوہر ، یا یاقوت کہا گیا، دراصل بات ہے کہ جنت کے پتھر ہی دراصل جواہرات کے قبیل سے ہوتے ہیں، اور بعض روایات میں جو وارد ہوا ہے کہ حجر اسود جبل احد کے مثل آئے گا، اور بعض میں جبل قبیس کے مثل ، مقصودبڑی چیز کے ساتھ تشبیہ دیناہے ، حقیقت میں یہ روز قیامت جبل احد کے مثل آئے ، چونکہ یہ مروی ہے کہ جبل احد ساتویں زمین تک گڑا ہوا ہے ۔
بحمد اللہ حجر اسود کو دو مرتبہ بوسہ لینے کا شرف احقر الوری کو حاصل ہوا، صبح کے وقت آٹھ نو بجے کے وقت رش کم ہوتا ہے ، میں فجر کی نماز کے بعد خانہ کعبہ کے دیدار میں سیڑھیوں پر بیٹھے وہیں سوگیا، پھر گہری نیند لگنے پر اوپر جاکر سوگیا، جب آٹھ بچے نیند بیدار ہوئی، اجیاد کے دروازے سے خانہ کعبہ کے پاس باب عبد العزیز کے پاس سے ہو کر مجھے اپنے ہوٹل واقع مسفلہ یاجس طریق الہجرۃ کہتے ہیں نکلنے لگاتو حجر اسو د کے پاس بھیڑ کم دیکھی بوسہ لے لیا، پھر اسی دن رات میں بعد مغرب بھی بھیڑ میں بوسہ لے لیا لیکن چشمہ ٹوٹنے سے بڑی مشقت ہوئی، میرے چشمے کے بھی تین ٹکڑے ہوئے جس کو جوڑ کر میں نے ایسے ہی چھ دن تک استعمال کیا ، چشمہ چونکہ وہاں کافی مہنگا ملتا ہے ، پھر گروپ والوں سے منگوالیا، پھر ایک دفعہ آخیر میں کوشش کی کہ حجر اسود کو بوسہ لوں لیکن عورتوں کے رونے چلانے اور ازدحام کی کثرت کی وجہ سے یہ سوچ کر ایذاء مسلم حرام ہے ، میں واپس آگیا،ویسے استلام بھی کافی جیساکہ احادیث سے واضح ہوا کہ یہ حجر اسود روز قیامت اپنے بوسہ لینے والے اور استلا کرنے والے دونوں کے حق میں گواہی دے گا، حجر اسود کا بوسہ حالت احرام میں نہ لیا جائے ، گرچہ یہ بڑی اہم چیز ہے ، خانہ کعبہ کے اکثر حصے معطر ہوتے ہیں، عطر کا استعمال لازم آئے گا اور اس وجہ سے دم لازم لوگ اس کی رعایت نہیں کرتے ، حالت احرام میں بھی بوسہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
رفیق تصنیف دار الدعوۃ والارشاد ، یوسف گوڑہ ، حیدرآباد
9550081116
[email protected]

You may also like

Leave a Comment