Home نظم جو بھی آئے، ہمیں سولی پہ چڑھانے آئے

جو بھی آئے، ہمیں سولی پہ چڑھانے آئے

by قندیل

تازہ بہ تازہ، سلسلہ 12

فضیل احمد ناصری

اشک آئے، کبھی ہونٹوں پہ ترانے آئے
ہم پہ اے دوستو!کیا کیا نہ زمانے آئے

جن کی خدمت میں گئے چاکِ گریباں لیکر
درد کے گیت وہی ہم کو سنانے آئے

کچھ ستم سنج کا انداز بتاتا ہے ہمیں
گویا عالَم میں وہ عالَم کو ستانے آئے

اس قدر عام ہے دنیا میں ہوس کی پوجا
اہلِ تقدیس بھی تقدیس دکھانے آئے

جن کو ہم اہلِ وفا کہتے نہیں تھکتے تھے
دوست کے روپ میں وہ ہم کو مٹانے آئے

کون غمخوار ہے اس عہدِ ستم میں یارو
جو بھی آئے، ہمیں سولی پہ چڑھانے آئے

آج کے اہلِ سیاست سے توقع نہ رکھو
یہ تو جب آئے یہاں، آگ لگانے آئے

جذبۂ خیر زمانہ ہوا مرحوم ہوا
اب تو جو لوگ بھی آئے، وہ رلانے آئے

جیتےجی پرسشِ احوال کی فرصت نہ ملی
بعد مرنے کے بہت اشک بہانے آئے

You may also like

Leave a Comment