Home خاص کالم جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی!

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی!

by قندیل


محمد عباس دھالیوال
(امریکہ—جنوبی کوریا بحران کے ضمن میں ایک خاص تحریر )
آج سے نصف صدی قبل معروف شاعر ساحر لدھیانوی نے جنگ کی تباہ کاریوں کا منظر پیش کرتی ایک نظم کہی تھی جس کا عنوان تھا ،’’اے شریف انسانوں۔۔۔!‘‘
مذکورہ نظم کی جتنی قدر و منزلت اس وقت میں تھی آج بھی اس نظم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
آج دنیا کے ممالک کے کچھ شریف انسان ۔۔! ایسے ہیں جو صرف اور صرف اپنے مفاد و انا کی خاطر دنیا کے امن سکون کو داؤ پر لگانے کوتیاررہتے ہیں،بے شک آج ہم نے بہت ترقی کر لی ہے ، ترقی بھی اتنی کر لی ہے کہ چاند پہ کمند ڈالنے کے بعد منگل پر فتح پانے کے خواب دیکھ رہے ہیں ، اگر اخلاق کی بات کریں تو مسلسل گراوٹ کی طرف جارہے ہیں کیاخوب کہاہے کہ؛
بڑھنے کوبشرچاندسے بھی آگے بڑھاہے
یہ سوچیئے کردارگھٹا ہے کہ بڑھا ہے
ہماری خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ اپنی غرض کے حصول کی خاطر دنیا کے امن و سکون کو آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔
جنگ کے متعلق تازہ مثال ابھی کچھ روز قبل اقوام متحدہ کے منچ پر اس وقت دیکھنے کو ملی جب دنیا میں امن کے قیام کی خاطر منعقدہ اجلاس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپ نے شمالی کوریا کو سر عام جنگ کے ذریعے نیست و نابود کرنے کی دھمکی دی ،اور جواب میں شمالی کوریا کے صدر کم جونگ نے امریکہ جیسی دنیا کی سپر پاور کہلانے والی طاقت کو صفحہء ہستی سے مٹانے کی بات کہہ کر حساب برابر کرنے کی کوشش کی۔
جس طرح سے آئے دن امریکہ او ر شمالی کوریا کے صدور لگاتارایک دوسرے کے ملکوں کو جنگ کی دھمکیاں دیتے ہوئے زیر و زبر اور نیست ونابود کرنے جیسے غیر ذمے دارانہ بیانات دیتے رہتے ہیں اس سے یقیناً دنیا کے دیگر امن پسند ممالک میں تشویش کا پایا جانا یقینی سی بات ہے۔ ان دونوں شریف انسانوں۔۔۔! ٹرمپ اور کم جونگ کے جنگ چھیڑنے والے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے روس کے وزیرخارجہ سرکئی لاؤ روف نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ دونوں حکمرانوں (ٹرمپ اور کم جونگ )کی زبانی جنگ اسکولی بچوں کی لڑائی کی طرح ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا اصل میں جنگ کا درد وہی ملک محسوس کرتے ہیں جنہوں نے جنگ کے حالات برداشت کیئے ہو ں یا جنگ کی بربادیوں کے دکھ جھیلے ہوں بقول شاعر ۔۔
درد دل درد آشنا جانے
اور بے درد کوئی کیا جانے
جنگ کہیں بھی ہو لیکن اس جنگ کے دوران جو خون بہتا ہے اس سے مجموعی انسانیت شرمشار ہوتی ہے ، اور جنگ سے دنیا کے امن و امان پر کاری ضرب لگتی ہے ۔تبھی تو ساحر لدھیانوی نے اپنی نظم میں کہا ہے کہ
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
یقناً ساحر کے مذکورہ الفاظ سچائی سے لبریز ہیں، جنگ کہیں بھی ہو اس سے امن انسانیت کا قتل ہونا یقینی ہے۔یہی وجہ ہے کہ
امریکہ کی ایٹمی بمباری کا سامنا کرچکے جاپان کے ہیروشیما اور ناگا سا کی تاریخ آج بھی چیخ چیخ کر جنگ کی تباہ کاریوں و ہولناکیوں کی داستان بیان کر رہی ہے۔ جاپان کے مذکورہ شہروں پہ امریکہ کی طرف سے ایٹم بمب گرائے بھلے ہی سات دھاکوں سے اوپر کا وقت گزر چکا ہو لیکن ان بمبوں کی تبا ہی کے نشان یا زخم آج بھی ان شہروں کے لوگوں کیلئے ناسور بنے ہوئے ہیں۔،وہاں کے کھیت اور زمینیں بنجر ہوگئی ہیں اور نوزائیدہ بچے بھی معذور پیدا ہوتے ہیں۔بم گرائے جانے کافیصلہ بھلے ہی لمحوں میں لیاگیاہو لیکن انسانیت کواسکی سزااب تک بھگتنی پڑرہی ہے، کیاخوب کہاہے رزمی نے:
تاریخ کی آنکھوں نے وہ دوربھی دیکھاہے
لمحوں نے خطاکی تھی صدیوں نے سزا پائی
جنگ کے حالات کا تذکرہ ساحر لدھانوی اپنے الفاظ میں کچھ یوں کیا ہے۔
بم گھروں پر گریں کے سر حد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ غیروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
جنگ کے میدان میں ٹینک آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں لیکن ان ٹینکوں کی زد میں آکر زمین بنجر بن جاتی ہے ۔ جنگ کے بعد فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ دونوں جانب کی زندگیاں میتوں یعنی جنگ کے میدان میں مرنے والے لوگوں کا سوگ مناتی ہوئی نظر آتی ہیں۔اسی ضمن میں ساحر کہتے ہیں کہ:
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہا ر کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ کے سابقہ مشاہدے بتاتے ہیں کہ جنگ کتنی ہی لمبی کیوں نہ چلے ، لیکن اسکاحل اور نتیجہ آخر کار مل بیٹھ کر ٹیبل ٹاک یعنی بات چیت سے ہی نکلتا ہے، اسی لیے ساحر اپنی نظم میں آگے جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل کو کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں:
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
آخر میں ساحر ٹرمپ اور کم جونگ جیسے شریف انسانوں کو ! دنیا میں امن کی شمع جلائے رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے کچھ اس طرح مخاطب ہیں کہ:
اس لیے اے شریف انسانوں!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
یقیناًآج دنیا کے بیشتر غریب ممالک کے لوگ جس طرح سے بے روزگاری، غربت ،ناخواندگی، مفلوک الحالی اور فاقہ کشی والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔اگر ان شریف انسانوں کو جنگ ہی لڑنی ہے تو غریبوں کی مفلسی دور کرنے کی جنگ لڑنی چاہیئے ،اگر جنگ ہی لڑنا مقصود ہے توبیروزگاری اور جہالت کے خلاف جنگ لڑنا چاہیئے،اگر جنگ ہی لڑنا ہے تو آج دنیا میں کتنے ہی بچے بھوک مری کی حالت میں اپنی زندگی کاٹنےپر مجبور ہیں جن کو ایک وقت کھانا تو دور،پینے کے لیے صاف پانی تک میسّر نہیں ہے ،انکی بھوک کو مٹانے کے لیے اور پاک و صاف پانی مہیا کروانے کے لیے جنگ لڑنا چاہیئے۔
آج دنیا کو جان لیوا ہتھیاروں کی نہیں،بلکہ اپنی زندگی میں پسری تاریکی کو دور کرنے والے تعلیمی اداروں کی ضرورت ہےاور بیماری سے جوجھ رہے لوگوں کو اچھے ہسپتالوں کی ضرورت ہے تاکہ یہ لوگ اپنی بیماریوں سے شفا یاب ہو کر اپنے ملک و قوم کی فلاح و بہبود میں نمایاں حصہ ڈال سکیں۔
یقیناًزمانہ حال کی یہ بھی ایک بڑی ٹریجڈی ہی کہی جاسکتی ہے کہ آج دنیا کے کتنے ہی ملکوں کے باشندے اپنے گھر بار ہوتے ہوئے اپنے ملکوں کی حکومتوں اور اپنے ہم وطنوں کے ظلم و تشدد اور قتل و غارت سے عاجز و تنگ آکر دوسرےممالک میں پناہ گزینی اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ دنیا کے مذکورہ شر یف انسان ایسے لوگوں کو انکے آبائی ممالک میں دوبارہ آباد کرنے کے لیے کوششیں اور ضروری اقدام کریں ،نہ کہ نئی جنگ چھیڑنے کا بگل بجا کر مزید مسائل کو جنم دیں ـ
مینیجر اسلامیہ گرلز کالج ،
مالیر کوٹلہ،ضلع سنگرور
پنجاب9855259650
[email protected]

You may also like

Leave a Comment