Home اسپورٹس جنوبی افریقی سر زمین اسپنروں کے لیے مصیبت زدہ رہی ہے

جنوبی افریقی سر زمین اسپنروں کے لیے مصیبت زدہ رہی ہے

by قندیل

نئی دہلی ،29؍دسمبر (قندیل نیوز)
گھریلو زمین پر باقاعدہ طور پر ٹیم کا حصہ رہنے والے روی چندرن اشون اور روندر جڈیجہ کو جنوبی افریقہ کے خلاف شاید ہی ایک ساتھ آخری الیون میں جگہ بنانے کا موقع ملے کیونکہ افریقی براعظم کے اس ملک میں اسپنروں کی کارکردگی میں مسلسل کمی آئی ہے ۔جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کے بعد سے اس سرزمین پر اب تک جو 125ٹیسٹ میچ کھیلے گئے ہیں اگر ان میں اسپنروں کی کارکردگی پر غور کریں تو صاف ہو جاتا ہے کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم میں اسپنر کی کمی کی وجہ سے انہوں نے عموما تیز گیند بازوں کے معقول پچیں بنائیں اور اس میں دو رائے نہیں کہ وراٹ کوہلی اینڈ کمپنی کو پانچ جنوری سے کیپ ٹاؤن میں شروع ہو رہی ہے تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں تیز اور اچھال وکٹوں سے سامنا کرنا ہوگا۔جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے گزشتہ 125 ٹیسٹ میچوں میں تیز گیند بازوں اور اسپنروں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ کریں تو فرق واضح نظر آتا ہے۔ان میچوں میں تیز یا میڈیم گیند بازوں نے 75-46 فیصدبولنگ(29,385اوور)کی اور81فیصد وکٹ اپنے نام کئے۔اس دوران زیادہ تر ٹیموں نے اپنے تیز گیند بازوں کو آرام دینے یا اوور رفتار تیز کرنے کی خاطر اسپنروں کا استعمال کیا۔یہی وجہ ہے کہ یہاں تک کہ اگر 24-54فیصد (9556 اوور)گیند بازی کی لیکن انہیں 19فیصد ہی وکٹ ملے۔گزشتہ دس اور پانچ سال کے دوران بھی یہ صورت حال نہیں بدلی اور اس دوران اسپنروں نے تیز گیند بازوں کے دو دیگر انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بھی جنوبی افریقہ کے مقابلے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔گزشتہ دس سالوں میں جنوبی افریقہ میں اسپنروں کو گیند بازوں کو ملے کل وکٹ کے تقریبا 21 فیصد وکٹ ملے جبکہ آسٹریلیا اور انگلینڈ میں اس درمیان انہوں نے 22 فیصد سے زائدکی شرح سے وکٹ حاصل کئے۔گزشتہ پانچ سالوں میں آسٹریلیا اور انگلینڈ میں یہ اعداد و شمار بالترتیب 24-04 اور 22-24 فیصد رہا جبکہ جنوبی افریقہ میں یہ گر کر 20-16 فیصد ہو گیا۔اگر جنوبی افریقہ میں غیر ملکی اسپنروں کی کارکردگی پر غور کریں تو 1992 کے بعد انہوں نے وہاں 27-21فیصد وکٹ حاصل کئے

You may also like

Leave a Comment