نئی دہلی ۔ 21اپریل (قندیل نیوز)
معصوم بچیوں کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام اور زانیوں کو موت کی سزا دینے کے التزام کے ساتھ حکومت جو نیا آرڈیننس لے کر آئی ہے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ تاخیر سے اٹھایاگیا ایک اچھا قدم ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں سے ملک بھرمیں معصوم بچیوں کے خلاف جنسی جرائم میں جو اندوہناک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اس کے پیش نظر اس کی روک تھام کے لیے کسی ایسے ہی سخت قانون کی ضرورت تھی۔ سول سوسائٹی اور دوسری سماجی وملی تنظیموں کے لوگ ان واقعات کے پیش نظر عرصہ سے سخت قانون سازی کا مطالبہ کررہے تھے مگر حکومت تھی کہ معاملے کو حساسیت کو نظر انداز کرکے مسلسل خاموشی کا مظاہرہ کررہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس حکومت خود نہیں لائی ہے بلکہ وہ ایسا کرنے کے لیے مجبور ہوگئی ہے۔ کٹھوعہ ،اناؤ اور دوسرے مقامات پر ہوئے حالیہ افسوسناک واقعات کو لے کر پورا ملک آج سڑکوں پر نکل کر نہ صرف احتجاج کررہاہے بلکہ اس طرح کے گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزادینے کا مطالبہ بھی کررہاتھا۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کے خلاف حکومت جو نیا قانون لے کر آئی ہے وہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ۔ اسلام میں تو چودہ سو برس پہلے سے یہ قانون موجود ہے۔ قرآن وحدیث میں یہ صریح ہدایت موجود ہے کہ زانی کو برسرعام سنگ سار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ اسلام اور اس کے قوانین میں ہمیشہ کیڑے نکالتے ہیں اور منفی پروپیگنڈہ کرکے عوام کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اسلام کے یہ قوانین نہ صرف سخت بلکہ غیر انسانی ہیں۔ مگر اب ہم امید کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ اس تناظر میں مولانا مدنی نے کہا کہ بہتر تو یہ ہے کہ اس قانون کے دائرے میں ہر زانی کو شامل کرلیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا موقف تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ ہر اچھے کام کی تائید ہے۔ اس لیے ہم اس نئے قانون کی تائید کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مولانا مدنی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اشتعال انگیزی ، مذہبی شدت پسندی اور فسادات کی روک تھام کے لیے بھی ایک سخت قانون لائے تاکہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں ان کے کیفرکردار تک پہونچاکر ملک میں امن واتحاد اور یکجہتی کی فضا قائم کی جاسکے۔