Home ستاروں کےدرمیاں جرنیل تحریک ختم نبوت ڈاکٹرمحمدبہاؤال​دین

جرنیل تحریک ختم نبوت ڈاکٹرمحمدبہاؤال​دین

by قندیل

ہلال احمد سلفی؍ایڈیٹرماہنامہ ’الاتحاد‘ممبئی
مسلمان کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والاہے۔اللہ اور رسول نے خود اس کی خبردی ہے اس لیے یقین جازم ہے کہ اب اگر کوئی شخص نبوت کادعویٰ کرتا ہے تووہ اپنے دعوی میں جھوٹا اورکذاب ہے،اس کے برخلاف اگر کوئی شخص نبی کی آمد کا عقیدہ رکھتا ہے تو بلا تردد وہ مشرک اور کافر ہے۔اللہ نے آپ کوخاتم النبیین بناکر بھیجا،سرورکائنات کویہ اعزاز وامتیاز اور عظمت وشوکت اللہ تعالی کا خصوصی عطیہ ہے فرمایا:’’محمدﷺ تم میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اورسب سے آخری نبی ہیں‘‘ (سورۃ الاحزاب:۴۰)۔اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا’’أنا خاتم الأنبیاء‘‘ترجمہ:میں سب سے آخری نبی ہوں(بخاری: ۳۵۳۵،مسلم: ۲۲۸۶.)دوسری جگہ فرمایا’’لانبی بعدی‘‘میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والاہے(بخاری:۳۴۵۵،مسلم:۱۸۴۲)ختم نبوت کاعقیدہ مسلمانوں کے تمام مسالک رکھتے ہیں،اسی وجہ سے جب مرزاغلام احمدقادیانی نے انگریز حکمرانوں کی ایماء پر نبوت کا دعوی کیا اور اپنے معتقدین کو اس کی جانب دعوت بھی دی توہندوستان میں موجود تمام مسالک کے علماء کرام نے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر اس کے خلاف آواز بلندکی اور عوام کو اس کے فتنہ سے آگاہ کیا،کیونکہ اللہ کے رسول ﷺکی ذات پر اس کااثر پڑتاہے اورامت محمدیہ کے آخری امت ہونے پر حرف آتاہے۔اللہ کے رسول ﷺکاارشادہے:’’:میری امت میں تیس جھوٹے نبوت کے دعویدار پید ا ہوں گے وہ خود نبی ہونے کاگمان کریں گے اورجان لو!کہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا‘‘(مسلم)
’’ہندوستان میں تحریک ختم نبوت اس وقت شروع ہوئی جب مرزاقادیانی نے مسیح یعنی ایک نبی ہونے کادعوی کیا،یہ جنوری۱۸۹۱ء کی بات ہے۔ اس سے پہلے اس کادعوی ایک مصنف، ایک مناظراسلام ، ایک پیرطریقت ، ایک مجدد، ایک صاحب الہام اور ایک امام ہونے کاتھا۔تحریک ختم نبوت کے آغاز کرنے کاسہراشیخ الاسلام محمدحسین بٹالوی ؒ کے سرجاتاہے ، جنہوں نے ۳۱؍جنوری ۱۸۹۱ء کولاہورکی چینیانوالی مسجد سے مرزاقادیانی کویہ خط لکھا،آپ کارسالہ امرتسر میں چھپ رہاتھا کہ میں اتفاقاًامرتسرپہنچا۔ میں نے اس رسالہ کاپروف مطبع ریاض ہندسے منگواکردیکھااور پڑھواکرسنا۔ اس رسالہ کے دیکھنے اور سننے سے مجھے یہ سمجھ آیاکہ آپ نے اس میں یہ دعوی کیاہے کہ مسیح موعود جس کے قیامت سے پہلے آنے کاخداتعالی نے اپنے کلام میں اشارۃً اوررسول اللہ ﷺ نے اپنے کلام مبارک میں صراحۃًوعدہ دیاوہ آپ ہی ہیں جومسیح ابن مریم کہلاتے ہیں ۔ اگراس دعوی سے کچھ اورمراد ہے تواس کی توضیح کریں۔
مرزاقادیانی نے ۵؍فروری ۱۸۹۱ء کوا س کے جواب میں لکھاکہ آپ کے استفسار کے جواب میں صرف ’’ہاں‘‘کافی سمجھتا ہوں۔
جواباًمولانامحمدحسین ؒ نے مرزاقادیانی کولکھا:’مجھے کمال افسوس ہے کہ مجھے آپ کے اس دعوی کا’’مسیح موعودہوں‘‘ خلاف مشتہر کرناپڑا۔ اس الہام کوآپ خداتعالی کی طرف سے سمجھتے ہیں توخداکی جناب میں دعاکریں کہ مجھے اس خلاف سے روکے۔‘
یہ تحریک ختم نبوت کاآغازہے،پھر ۳۱؍دسمبر۱۸۹۲ء میں ایک خط قادیان سے مرزاقادیانی نے مولانا محمدحسین بٹالوی ؒ کولکھا:
’میں افسوس سے لکھتاہوں کہ میں آپ کے فتویٰ تکفیر کی وجہ سے جس کایقینی نتیجہ احدالفریقین کاکافرہوناہے، اس خط میں سلام مسنون یعنی السلام علیکم سے ابتداء نہیں کرسکا۔‘ یعنی جوفتوی تم نے دے دیاہے اس کی وجہ سے یامیں کافرہوں یاتم۔‘‘ (اختصارمن ترجمان اہل حدیث:۲۶؍جنوری تایکم فروری ۲۰۱۸ء)
اس اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ نبوت کادعوی مرزاغلام احمدقادیانی نے جنوری ۱۸۹۱ء میں کیاتھااور اس کے خلاف کفر کافتوی بھی اسی وقت لگایاگیاجب اس کے مدعی نبوت کاعلم علماء کرام کوہوا۔اس تاریخی حقیقت سے یہ بات پتاچلتی ہے کہ قادیانیت کے خلاف سب سے پہلے فتویٰ شیخ الکل فی الکل سیدنذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے دیااور ہراول دستے کی نگرانی علامہ محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ نے کی۔تحریک ختم نبوت کی مفصل اور جامع تاریخ جمع کررہے ہیں جس میں تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں علماء کی کاوشوں اور ان کے کارناموں احسن اندازمیں ذکرکررہے ۔ڈاکٹرصاحب فی الحال برطانیہ میں مقیم ہیں اور برصغیرمیں آج سے ایک صدی قبل پیش آئے اس واقعے کو بڑی عرق ریزی اور دیانت داری کے ساتھ حوالۂ قرطاس کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے تحریک ختم نبوت پر اب تک ۵۵؍ہزارسے زائد صفحات ۷۵؍ضخیم جلدوں کامواد جمع کرلیاہے ،جس کی ۳۸؍جلدیں منظر عام آچکی ہیں۔یہ ایک مکمل اورجامع انسائیکلوپیڈیاہے جس سے دنیاکو حقائق سے متعارف کروانے میں مددملے گی۔ختم نبوت کے سلسلے میں یہ ایک فریضہ ہے جس کو تن تنہادیوانہ وار وہ ایک مرد مجاہددیارغیر میں بحسن وخوبی اداکررہاہے جس کے لیے مسلمانوں کو ان کاممنو ن ہونی چاہیے کہ قحط الرجال کے دورمیں ایسا دقیق کام انگریزوں کے سینے میں بیٹھ کرکررہے ہیں کہ جس فتنہ کوانہیں کی ایماء پر متحدہ ہندوستان میں بویاگیااور جس کی شجرکاری وآبیاری میں انگریزوں ہی کاپورا ہاتھ تھایہ بندہ اس کی بیخ کنی میں لگاہوا ہے۔کمال کی بات تویہ ہے ڈاکٹرصاحب اپنے ہی صرفے سے کتابیں شائع کرتے ہیں جس میں جمعیت وجماعت کاکوئی عمل دخل نہیں ہے۔ڈاکٹر صاحب نے تاریخی حقائق کوبیان کرنے میں مسلکی تعصب سے کام نہیں لیاہے بلکہ وسیع القلبی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس دورکے بزرگان کی خدمات کو بہترین اسلوب میں ذکرکیاہے، جن میں مولاناغلام دستگیرقصوری،مولانارشیداحمدگنگوہی، مولانامحمدلدھیانوی،مولانا محمودحسن دیوبندی، مولانااحمدرضاخان بریلوی ، مولاناانورشاہ کاشمیری رحمہم اللہ وغیرہ بطورخاص شامل ہیں۔مجھے لگتاہے تمام مکتب فکر کو ان کی کتابوں کو پڑھنی چاہیے تاکہ حقیقت حال کا اندازہ ہوکہ کس عرق ریزی اور کوہ کنی کے ذریعہ تحفظ ختم نبوت کے فریضہ کو اسلاف نے انجام دیاہے۔ ان کی کتابوں کو لائبریریوں کی زینت بنانی نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ ہماری دستاویز ہے۔
ابتدائی حالات:
محرردافع وجرنیل تحریک ختم نبوت ،مؤرخ اہلحدیث، محسن ملت ڈاکٹر محمدبہاء الدین حفظہ اللہ کاشمار عصر حاضر کے نامورقلمکاروں میں ہوتاہے ۔ پروفیسرڈاکٹرمحمدبہاء الدین کااصل نام ڈاکٹرمحمدسلیمان اظہربن محمدعبداللہ ہے جواپنے قلمی نام محمدبہاء الدین سے معروف ومشہورہیں،انہوں نے اپنی تصنیف وتالیف کے ذریعہ تاریخ اسلام کو دنیاکے سامنے پیش کیاہے۔ ضعیف العمری اورپیرانہ سالی کے باوجود عزم عالی رکھتے ہیں ،گفتگومیں الفت ومحبت کے موتی پروتے ہیں ۔ آپ نے بابائے تبلیغ مولانامحمد عبداللہ گورداسپوری رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں آنکھ کھولی،جومولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد اور فاتح قادیان شیخ الاسلام مولاناثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ سے فیض یافتہ تھے۔ماحول ومعاشرہ اسلامی ہونے کی بنا پر بچپن ہی سے اسلام کی محبت آپ کے دل میں موجزن ہوگئی۔آزادی سے چندعرصہ قبل ۱۹۴۷ء میں متحدہ ہندوستان کے دھاریوال ضلع گورداسپورپنجاب کے ایک گاؤں وڑائچ میں پیداہوئے۔پھرکچھ عرصہ رائے ونڈمیں رہنے کے بعد بورے والاضلع ملتان میں مستقل قیام پذیرہوگئے۔ بورے والا( جو اب ضلع وہاڑی) ہے میں حلم وشعورکی آنکھیں کھولی اوروہیں سے کسب علم کاسلسلہ شروع کیا۔

تعلیمی اسفار:
محسن ملت ڈاکٹرمحمدبہاء الدین حفظہ اللہ نے ناظرہ قرآن قاری خدابخش سہارپوری سے پڑھا۔اس کے بعد صرف ونحو، قرآن مجیدکاترجمہ، بلوغ المرام ،مشکوٰۃ اوردیگر اسلامی وابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی بابائے تبلیغ مولانامحمد عبداللہ گورداسپوری رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ دینی وعصری تعلیم کے مراحل ایک ساتھ مکمل کیے ۔بورے والاڈگری کالج میں ۱۹۶۸ء میں فرسٹ پوزیشن لاکر گولڈ میڈل کے حقدارہوئے۔پنجاب یونیورسٹی میں دوسال پڑھ کر علوم اسلامیہ میں ایم اے مکمل کیا۔چنانچہ دینیات میں یونیورسٹی ٹاپ کرکے یونیورسٹی سطح کے گولڈ میڈل کو اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔پنجاب یونیورسٹی میں ہی ایک سال عربی کاکورس مکمل کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی اور ڈبل ایم اے ہوگئے۔ ۱۹۸۳ء میں برطانیہ کے اڈنبرایونیورسٹی اسکاٹ لینڈسے آپ کو پی ایچ ڈی کے ڈگری تفویض کی گئی۔لیسٹر یونیورسٹی سے ۱۹۹۰ء کے دہے میں سوشل ورک میں ایم اے کیا۔
تصنیف وتالیف:
آپ کی تصنیف کردہ ’’تحریک ختم نبوت‘‘ اور’’ تاریخ اہل حدیث ‘‘قاموسی انداز کے کام کو دیکھیں تو حیرت و استعجاب میں اضافہ ہوتا ہے کہ کوئی انسان تن تنہا بھی ایسا اور اتنا بڑا کام کر سکتا ہے جس کے لئے انجمنیں، ادارے اور اکیڈمیاں قائم کی جاتی ہیں !!آپ ایک اچھے قلمکاراور محقق ہیں ،علمی وتحقیقی مضامین معروف ومشاہیرجرائدو مجلات میں قلم بند کرتے رہتے ہیں۔برطانیہ میں پوسٹ ڈاکٹورل فیلوکی حیثیت سے تحقیق وتمحیص کے دوران اپنے ہم عصر مولانامحمودمیرپوری سابق ناظم اعلی مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کے بہت اصرار پر جمعیت کے انگریزی منتھلی آرگن سٹریٹ پاتھ کی بطورایڈیٹنگ فرائض انجام دیتے رہے۔اورمرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کے اردوترجمان ماہنامہ ’’صراط مستقیم ‘‘برمنگھم کے لیے مضامین لکھنا شروع کیا۔ ان کے انہیں مضامین کودیکھتے ہوئے ہندوستان سے جامعہ سلفیہ بنارس کے سابق ریکٹر ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ نے کتابی شکل دینے اور اس پر مزیدکام کرنے کامشورہ دیا،بحمدللہ جس کی ۷۵؍جلدوں کاموادجمع ہوگیا ہے۔جس میں سے تادم تحریر۳۸؍جلدیں منظرعام پرآچکی ہیں۔ اسی طرح مرکزی جمعیت اہلحدیث ہندکے مطبع مکتبہ ترجمان دہلی سے ’تاریخ اہلحدیث‘ کی سات جلدیں شائع ہوچکی ہیں،آپ کو یہ سن کریقیناخوشی ہوگی کہ تاریخ اہلحدیث کی ۱۵؍جلدوں کا مواد جمع ہوچکاہے۔ ان شاء اللہ آٹھویں جلد کااجراء مرکزی جمعیت اہلحدیث ہندکے زیر اہتمام ہونے والے چونتیسویں آل انڈیااہلحدیث کانفرنس کے موقع پرہونے کی قوی امیدہے۔
جب ’’تحریک ختم نبوت ‘‘کی کچھ جلدیں برصغیرہندوپاک میں شائع ہوئیں تو ڈاکٹر صاحب سے لوگوں نے مطالبہ شروع کیا کہ اب اس چلتے قلم کو روکانہ جائے بلکہ اسی کے ساتھ تاریخ اہلحدیث پر بھی خامہ فرسائی فرمائیں ۔یہ عظیم کارنامہ ڈاکٹرصاحب نے مولاناشیرخان جمیل احمد صاحب کے تعاون سے انجام دیا ہے ۔کرم خوردہ کتابوں ،مدفون رسائل اور نادرونایاب مخطوطات کو جمع کیااور پھر جس خوبصورتی کے ساتھ قارئین کے نظر کیاہے اس کو کرامات خداوندی ہی کہاجاسکتاہے۔ اللہ جملہ معاونین کے عمل کو شرف قبولیت بخشے۔
ایوارڈ،توصیفی اسناداور شیلڈ:
محسن ملت،مؤرخ اہلحدیث پروفیسرڈاکٹر بہاء الدین حفظہ اللہ نے جوکارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ خود اپنے آپ میں ایک اعزاز ہے ،ڈاکٹرصاحب کے بقول ’اللہ تعالی نے مجھے منبرومحراب سے متعلق ذمہ داریاں سونپنے کے بجائے حضورسرور کونین ﷺ کی چوکھٹ کی جانب معاندانہ عزائم سے بڑھنے والوں کی راہ میں سدسکندری تعمیرکرنے والوں کی کاوشوں کوآئندہ نسلوں کے لیے محفوظ ومرتب کردینے کے کام پرلگارکھاہے۔اس خدمت کے لیے اللہ تعالی نے مجھے وقت بھی عطافرمایاہے اور فرصت بھی ،اورموضوع سے کماحقہ واقفیت بھی، اورہمت واستقلال بھی۔ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء‘
*مؤرخ عصر کاخطاب: محسن ملت کے ان عظیم خدمات کااعتراف کرتے ہوئے مرکزی جمعیت اہلحدیث ہندنے اگست ۲۰۰۵ء میں’’ مؤرخ عصر ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔
*عبدالجبارفریوائی ایوارڈ: ۲۰۰۸ء میں فریوائی اکیڈمی الہ آباد ہندنے ڈاکٹرصاحب کی خدمات کے اعتراف میں ’’عبدالجبارفریوائی ایوارڈ‘‘سے نوازا ہے۔
*محسن ملت کاخطاب: مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان نے تحریک ختم نبوت اورتاریخ اہلحدیث کی تاریخ کی تدوینی کام کے اعتراف میں لاہورمیں ۲۴؍ستمبر۲۰۱۷ء کومنعقد ہونے والے ایک سیمینار میں قرارداد کے ذریعہ ڈاکٹربہاء الدین صاحب کو’’ محسن ملت‘‘ کے خطاب سے نوازاگیا۔

*شیلڈ: محسن ملت ،مؤرخ اہلحدیث،ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کی تحریک ختم نبوت ،تاریخ اہلحدیث پربے پناہ تصنیفی خدمات کے اعتراف میں ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ ۵؍نومبر۲۰۱۷ء بروز اتوار شام چھ بجے ایسٹرن پویلین ہال اولڈھم میں مولاناشفیق الرحمن شاہین کی جانب سے دیاگیا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب کو مولاناشفیق الرحمن شاہین اولڈھم نے شیلڈپیش کیا۔ اس تقریب میں ڈاکٹر صاحب کے دست راست حیدرجماعت شیخ شیرخان جمیل احمدعمری صاحب بھی موجود رہے۔
*شیلڈ: بریدفورڈ برطانیہ میں ۳۱؍دسمبر۲۰۱۷ء کو محسن ملت ڈاکٹر بہاء الدین حفظہ اللہ کی تحریک ختم نبوت کے مقدس اور بابرکت موضوع پر لکھی گئی ۷۵؍ سے زائد جلدوں کے مکمل ہونے پر ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی،جس میں مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کی جانب سے اس بے مثال خدمات پر شیلڈپیش کیا۔
*شیلڈاورخصوصی نشست: ۱۴؍جنوری ۲۰۱۸ء کو مہسلہ، کوکن (انڈیا) میں ایک روزہ ’’عالمی ختم نبوت کانفرنس‘‘کے انعقاد کے موقع پرڈاکٹر صاحب کے اعزاز اور ان کی عظیم خدمات کے اعتراف میں خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔جس میں مولاناشیر خان جمیل احمد عمری نائب ناظم مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ نے محسن ملت، مؤرخ ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کاتعارف پیش کیا،بعدازیں کانفرنس میں ڈاکٹرصاحب کاخصوصی پیغام پڑھ کرسنایا۔اس کے بعد ڈاکٹرصاحب کو ان کے بے مثل کارناموں کے اعتراف میں امیر جماعت المسلمین مہسلہ اورمولاناعبدالسلام سلفی امیرصوبائی جمعیت اہلحدیث ممبئی کے ہاتھوں ڈاکٹر صاحب کو Memento of Honour پیش کیاگیا، جس کو ڈاکٹر صاحب کے دست راست اور معاونِ خاص شیخ شیرخان جمیل احمد عمری حفظہ اللہ نے وصول کیا۔
ڈاکٹرصاحب حفظہ اللہ نے راقم کوایک گفتگو کے دوران بتایاکہ آج میں جہاں موجودہوں یہاں نہ کتابوں کاانبار ہے ،نہ ہی جامعہ سلفیہ بنارس جیسی لائبریری اور ناہی نذیریہ دہلی کاکتب خانہ،ناہی آج تک ہندوستان آسکا ہوں ۔برصغیر سے دوربرطانیہ میں ایک کمرے میں بیٹھاہوں جسے آپ کبھی کبھار فیس بک پر دیکھتے ہوں گے جس میں تن تنہا رہتاہوں،خود کھانا پکاتاہوں ،چائے بناتاہوں یہاں تک کہ برتن میں خود ہی صاف کرتاہوں،دوائیں خود کھاتاہوں۔گفتگو کے دوران محترم نے کہاکہ کتابوں کی ٹائپنگ، پروف ریڈنگ اورنظر ثانی کاکام بھی میں خود ہی کرتاہوں۔اوریہیں سے تمام کام بفضل اللہ کررہاہوں ،یہ اللہ کاخاص کرم ہی ہے جس کی بنا پر کتابوں کی کمیابی کے باوجود بآسانی کام ہورہاہے۔ جس میں ہمارے خاص معاون کار مولاناشیرخان جمیل احمدعمری حفظہ اللہ ہیں۔ وہ دنیاکے کونے کونے سے مواد اکٹھا کرکے فراہم کرتے ہیں،انہیں کی کاوش سے تحریک ختم نبوت اورتاریخ اہلحدیث کی تدوین کا کام جاری ہے۔

You may also like

Leave a Comment