(چھٹی قسط)
نجم الہدیٰ ثانی
مسلم قیادت اور فرقہ پرستی کا چیلنچ
گزشتہ بحث سے یہ بات واضح ہوجا تی ہے کہ جدید ہندوستان میں فرقہ پرستی اور سماجی و سیاسی جدیدیت نے پہلو بہ پہلو اپنا دائرہ اثر بڑھایا ہے۔ اس کا آغاز ، جیسا کہ پہلے گزرا، آ زادی کی جد و جہد کے زمانے میں ہی، جو جدید ہندوستانی سیاسی قوم کا تشکیلی دورتھا، ہو چکا تھا۔
تقسیم ِہند کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو ایک عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا: ایک جانب انہیں ملک کی تقسیم کا ذمہ دار مانا جارہا تھا اور انہیں اس ‘جرم’ کا بار بار احساس بھی دلایا جاتا تھا تو دوسری جانب وہ ایک ‘سوشلسٹ جمہوری ری پبلک’کے آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے دیگر سماجی اکائیوں کی طرح ان تمام حقوق و فرائض کے مکلف و سزاوار تھے جن کی ضمانت اس ملک کا آئین اپنے شہریوں کو دیتا ہے۔ ان ہمت شکن حالات کی سنگینی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ بات بھی اپنے پیش نظر رکھیں کہ مسلمانوں کا تعلیم یافتہ اور سماجی اثر و رسوخ رکھنے والے طبقے کی ایک بڑی تعدادتقسیم کے زمانے میں نقل مکانی کر کے پاکستان جا چکی تھی ۔ سونے پہ سہا گہ یہ کہ آزادی کے بعد شمالی ہند میں پے درپے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے مسلمانوں کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ا ور جان و مال کا تحفظ اور دینی و ملی تشخص کو برقرار رکھنا ان کی اہم ترین ترجیحات بن گئیں۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ جب ملک کی آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے ہندوستانی سماج کے دیگر طبقات اور اکائیاں تعلیم اور معیشت کے میدانوں میں آگے بڑھ رہی تھیں مسلمان اپنی جان و مال کی حفاظت اور نان شبینہ کے انتظام میں مشغول تھے۔ اس کے بعد بھی اگرآج مسلمان تعلیم اور روزگار کے میدانوں میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں تو کیا تعجب ہے!
بہر حال ، اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ تقریبا ایک صدی کی منظم ،مستحکم اورمسلسل جد و جہد کے نتیجے میں فسطائی طاقتوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لی ہیں کہ ہنگامی طور پر چند مظاہرے اور احتجاجی جلوس ، کچھ میمورنڈم اور تجاویز، اکا دکا کانفرنسیں اور خود فریبی پر مبنی اخباری بیانات ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ اس کے لئےسنجیدگی کے ساتھ طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ساتھ ایک لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہےکیونکہ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ کر ریلیف ورک کے ذریعہ ہم وقتی طور پر چند خاندانوں کوناگزیر فوری امداد تو پہونچا سکتے ہیں مگر اس عفریت کی یلغار کو روک نہیں سکتے جس کی زد میں آج نہیں تو کل ہم سب ،یعنی تمام ہندوستانیوں، کو آنا ہے۔ میری رائے میں ملی قیادت ، جس کے ساتھ ہم میں سے کچھ لوگ ‘نام نہاد’ اور ‘لولی لنگڑی’ کا سابقہ لگانا ضروری سمجھتے ہیں، اس سلسلے میں اہم پیش رفت کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ عجلت پسندی کی جگہ منصوبہ بندی اور قرارداد اور اعلامیے کی جگہ کارکردگی کی اہمیت عملاًتسلیم کرلے۔ آئیے اس قیادت کی تاریخ کا سرسری جائزہ لے کر اس کے عناصر ترکیبی اور نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ اس کی قوت و نفوذ اور کمزوریوں اور خامیوں کاپوراپورا ادراک ہو سکے۔ (جاری)
جدید ہندوستان، فرقہ پرستی، اورملی قیادت
previous post