(چوتھی قسط)
نجم الہدیٰ ثانی
اب ہم جدید ہندوستان کے اس دور کی طرف آتے ہیں جس کی ابتداء 1947 سے ہوتی ہے اور جس میں ایک نئے آئین کے رہنما اصولوں کی روشنی میں اس کی ہمہ جہت تعمیر کا عمل شروع ہوا۔ ایشیاء اور افریقہ کے بہت سارے ممالک کے برعکس ہندوستان میں جمہوریت کا تجربہ کامیاب رہا اور آج ہمارا ملک دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت بن کر ابھر ا ہے۔ دیگر ممالک میں فوجی آمریت اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے جمہوری قدریں سماج میں اپنا قدم جمانے میں ناکام رہیں۔ اس لحاظ سے ہندوستان میں جمہوریت کا تجربہ اور اس کے نتیجہ میں وجودمیں آنے والا سیاسی نظام اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ایک مختلف اور حوصلہ افزا منظر نامہ پیش کرتا ہے: انتخابات کا تسلسل، پر امن انتقال اقتدار، عدلیہ کی آزادی، حق رائے دہی کا استعمال، اظہار خیال کی آزادی، جمہوری حقوق کی یقین دہانی، وغیرہ ایسے بنیادی جمہوری اقدار و تصورات ہیں جو گزشتہ تقریباً سات دہائیوںمیں ہندوستانی سماج کے سیاسی تجربہ کا حصہ بن گئے ہیں۔
اس خوش آئند حقیقت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مسلم ہے کہ بحیثیت مجموعی ہندوستانی سیاسی طبقہ یا پالیٹیکل کلاس خود آئین کی روح کے ساتھ کھلواڑ کرتی رہی ہے۔ مثلاً انتخابات کے عمل کو، جو جمہوریت کی فصل کے لئے کھاد پانی کے مترادف ہے ،اس کی سیاسی ابن الوقتی نے حقیقی معنوں میں ناکارہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے پالیسی اور پروگرام، عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے نئے اور اچھوتے حل، تعلیمی اصلاحات کے ذریعے نئی نسلوں میں سائنسی طرز فکر کی ترویج ، وغیرہ کےلئے سنجیدگی سے پالیسی سازی اور قانون سازی کے بجائے سیاست دانوں نے ذات پات، مذہب، علاقائیت ، وغیرہ کے آزمودہ نسخے کو اپنا کر اقتدار تک پہنچنا اپنا مطمح نظر قرار دےدیا۔اس سیاسی طرز فکر نے آئین سازوں کے اس خواب کو کبھی شرمندہ ء تعبیر نہیں ہونے دیا کہ یہ ملک عالمی منظر نامہ پرجدید سیاسی اصولوں پر قائم ایک روشن خیال جمہوری فلاحی ریاست کی شکل میں ابھر ے۔ انتخابات کی روح کو مجروح کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ قدیم سماجی ناہمواری، مذہبی نارواداری اور جاگیردارانہ فکر، دام ہمرنگ زمین کی صورت جمہوریت کےقالب میں اپنا کھیل کھیلنے لگیں۔
مگر پانی سر سے اونچا اس وقت ہواجب ہندوستانی سماج کا وہ حصہ جوآزادی سے قبل مسلم دشمنی اور فسطائیت کا نظری علمبردار بن کر اٹھا تھا اب ایک محسوس سیاسی قوت بن کر انتخابی سیا ست کے راستے اقتدار کے مراکز پر قا بض ہونے لگا۔ انتخابی سیاست کےاس بحرانی دور میں کرسی کے پجاریوں نے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی عوام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا شروع کیا اورکلاسیکی فسطائی طریقہء کار پر عمل کرتے ہوئےمسلمانوں کے خلاف سماج کے دیگر طبقات میں شک و شبہ اور نفرت و حقارت کی فضا پیدا کرنا شروع کیا۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین متنازعہ مسائل کو ابھار کر اس طرح پیش کیا کہ ایک جانب وہ دونوں قوموں کی ‘ناک’ کا مسئلہ بن گئے اور دوسری طرف ان گنت خانوں میں تقسیم ہندوسماج کو متحد کرنا بھی ان کے لئے آسان ہوگیا۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ فرقہ پرستی کی اس یورش میں صرف دائیں بازو کی اعلا ذات (جنہیں اکثر لوگ غلطی سے صرف ہندو کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں) کے سیاسی نظریہ ساز اورمنصوبہ ساز شامل تھے بلکہ نام نہاد سیکولر سیاست دانوں نے بھی اس معرکہ میں خوب خوب داد شجاعت دی اور آئین کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں اپنا کرداربہت خلوص کے ساتھ ادا کیا۔ اب نوبت ایں جا رسید کہ فرقہ وارانہ فساد یا کشیدگی انتخابی منصوبہ بندی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ اس کار خیر میں بھی ہندوستانی سیاست میں فرقہ پرست اور سیکولر کہا جانے والا ہر دو خیمہ شامل ہے ۔
جدید ہندوستان، فرقہ پرستی، اورملی قیادت
previous post