(گیارہویں قسط)
نجم الہدیٰ ثانی
فرقہ پرستی اور ملی قیادت: چند گذارشات
3۔اگر ملی قیادت فرقہ پرستی کے اس رتھ کی پیش رفت کو روکنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے ہندوستانی سماج کے متعلق علٰحیدگی پسندی کے اپنے دیرینہ رویہ کو بدلنا ہوگا ۔یہ مسلم سماج کے مذہبی طبقہ کا ایک ‘واشگاف راز’ہے کہ وہ دین و دل کے تحفظ کی خاطر ‘ان ‘کی گلی میں جانے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔ یہ شناخت رخی ملی قیادت کا نتیجہ ہے اور اس پر نظر ثانی کا وقت آگیا ہے۔ اب ہم ‘دینی تشخص’ والے دور سے آگے آ چکے ہیں۔
نئی نسل میں ،بحیثیت مجموعی ، اپنی روایات سے وابستگی ان نسلوں سے زیادہ ہے جواستعماری فکری غلامی کے دور میں پروان چڑھیں ۔اس تبدیلی کے متعدد اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر بھی یہ دور علاقائی اور مذہبی قدروں کی بازیافت کا دور ہے۔ بہر حال، اس بات کا اعتراف کشادہ دلی کے ساتھ کیا جانا چاہئے کہ ملی قیادت نے اس تشخص کو باقی رکھنے میں زبردست خدمات انجام دی ہیں۔ مگر اب ہمیں اس سے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نفرت کے علمبردار فسطائی جماعتوں کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوگی کہ مسلمان ہندوستانی سماج میں زندگی کے حاشیہ پر رہیں۔ یہ بات کہ سماج میں ہر طرف ہمارے خلاف سازشوں کے جال بچھے ہیں اور ہم اگر اپنے دین و ایمان کی خیر چاہتے ہیں تو جتنا ممکن ہو ہم سماجی سرگرمیوں اور برادران وطن سے میل جول سے دور رہیں، اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا۔کسی اقلیت کے لئے اس سے بھیانک غلطی اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ وہ خود یہ ‘سماجی مقاطعہ ‘ اختیار کرلے۔ ملی قیادت کو صاف لفظوں میں مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں ایک نافع اور فعال عنصر بن کر رہیں۔ وہ جس بستی، محلہ، شہر، کالونی، دفتر اور ادارے میں ہوں وہاں محنت و ایمانداری اوراعلا کارکردگی کا معیار بننے کی کوشش کریں اورخود کو اس فوری اجتماعیت کے لئے ناگزیر ثابت کر دیں۔ سماج کے دبے کچلے مظلوم طبقات کے ساتھ با لخصوص اور دیگر تمام لوگوں کے ساتھ بالعموم ان کے رنج و غم اور خوشی و تہوار میں شرکت کے راستے تلاش کریں اور دوسروں کی خدمت کرنے اور ان کے کام آنے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہیں۔اس تعلق سےاپنے ملک میں پارسی اورعیسائی اقلیتوں کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔
لیکن فکر و عمل میں یہ بنیادی تبدیلی صرف اعلامئے، تجاویز، اور اخباری بیانات سے پیدا نہیں ہوگی۔ کیونکہ حق تو یہ ہے کہ مذکورہ باتیں ملی قیادت کی دستاویزات میں ہر جگہ مل جاتی ہیں۔ مگر عملاً عام مسلمانوں میں ان کا کوئی اثر محسوس نہیں ہوتاہے۔میری رائے میں اس کی دو اہم وجہیں ہیں: ملی قیادت کی پالیسی اور پروگرام کا عوام تک عدم ترسیل و تذکیر اور ملی قائدین کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کا ان باتوں سے خالی ہونا۔ اس لئے ان دونوں کا تدارک ضروری ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات پیش نظر رہے کہ ملی قیادت کے پاس مساجد، مدارس ، اردو اخبارات اور دینی مجالس کی صورت میں ایک طاقت ور اور بہت حد تک ہمدرد اور حساس ابلاغی نیٹ ورک ہے ۔سالانہ اجلاس، عمومی و خصوصی میٹینگز وغیرہ کے اعلامئے، تجاویز اور قراردادکی مسلسل ترسیل اور تذکیر ضروری ہے۔ جمعے کے خطبے، وعظ کے مجالس اور مدارس کے جلسے میں ان نکات پر گفتگو کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ اس روایتی ابلاغی نیٹ ورک کی اہمیت اور نفوذ کی اہمیت کو کم سمجھنا دنادانی ہوگی اور ان کا مناسب استعمال بصیرت کا عکاس۔
مگران اعلانات، پالیسی اور لائحہء عمل کی تشہیر ، اورمنظم طریقے سے اس کی افہام و تفہیم سے بھی اس وقت تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اگر ملی قیادت کے نماٰیاں چہرے اپنی انفرادی زندگیوں میں بھی اور اجتماعی طور پر بھی ان باتوں کی عملی تصویر پیش نہیں کریں ۔ ملی قیادت جس وسیع المشربی اور وسعت قلبی کاعام مسلمانوں اور ملک کے دیگر لوگوں سے مطالبہ کرتی ہے اسی کی امید عوام بھی ملی قیادت سے کرتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ملی قیادت سماج کے ہر طبقے کے مسائل اور حقوق کے لئے نظریاتی سطح پر اپنی آواز بلند کرے اور ہندوستانی سماج کے حاشیے پر زندگی گزار رہے مظلوم لوگوں کی مؤثر آواز بننے کی کوشش کرے۔ ملی قیادت اپنی کانفرنسوں ، اجتماعات ، ادارے، مساجد، اور مدارس میں ہونے والے ڈسکورس کو ملی فریم ورک کے بجائے انسانی فریم ورک میں فٹ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مساجد، مدارس، ملی تنظیمیں، مسلمانوں کے زیر انتظام ادارے ، دفاتر، وغیرہ، روز مرہ کے لین دین اور میل جول میں جاہلی حمیت اور قوم پروری کے زعم میں عدل و اخلاق اور ضمیر و کردار کا سودا صرف اس لئے نہ کریں کہ ان کے مقابل ایک غیر مسلم ہے۔
جدید ہندوستان، فرقہ پرستی، اورملی قیادت
previous post